ایک بھگوڑا کپتان

عبدالقادر حسن  جمعرات 2 اپريل 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ایک قدیم روایت چلی آ رہی ہے ایک شاندار روایت کہ جب کوئی بحری جہاز ڈوبنے لگتا ہے تو وہ آخری آدمی جو اس جہاز کو الوداع کہتا ہے وہ اس کا کپتان ہوتا ہے لیکن اگر یہ جہاز اور اس کا کپتان پاکستانی ہو تو پھر اور بات ہے۔

جس کی ایک شرمناک مثال ہمارے سامنے ہے۔ یمن میں سیکڑوں پاکستانی زندگی و موت کی کشمکش سے دو چار تھے حکومت نے ان کے انخلاء کے لیے ایک جہاز بھجوانے میں کامیابی حاصل کر لی اور کچھ لوگ اس جہاز میں سوار ہو گئے۔

ان پاکستانیوں کے پہلے گروہ میں یمن میں ڈوبتے ہوئے جہاز کے کپتان نے کمال بے حسی کا نمونہ پیش کیا۔ یمن میں پاکستانی سفیر مسمی ڈاکٹر عرفان شامی ڈوبتے جہاز اور اس کے پاکستانی مسافروں اور عملے کو ان کے حال پر چھوڑ کر فوراً ہی خود بھاگے بھاگے اس محفوظ پاکستانی جہاز میں سوار ہو گئے۔ چند سو پاکستانی جو یمن کے انتہائی خطرناک حالات میں پھنسے ہوئے تھے وہ اس جہاز کے مسافر تھے جن کے لیے یہ جہاز یمن گیا تھا۔

سفیر موصوف نے سفارت خانہ خالی کرا دیا عملے کو کسی دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا دو یمنی باشندے ایک ٹیلی فون آپریٹر اور دوسرا چوکیدار سفارت خانے میں رہ گئے۔ پاکستانی سفیر جسے اب پاکستانی کہتے ہوئے شرم آتی ہے خدا معلوم کس  بے حسی  کے ساتھ پی آئی اے کے جہاز میں قدم رکھا اور پاکستان پہنچ گئے۔

ان کے پیچھے یمن میں سیکڑوں پاکستانی اپنے سفیر اور سفارتی عملے کی تلاش میں ہیں کہ وہ ان کی مدد کریں اور کوئی امید دلائیں لیکن ان کا سفارت خانہ تو خالی ہے اور کپتان جو دوسرے مسافروں کو ڈوبتا چھوڑ کر چند ایک کے ساتھ بھاگ آیا ہے پاکستانی فارن آفس کو بریفنگ دے رہا ہے۔

ایک ایسی بریفنگ جو یمن کے بارے میں پوری دنیا دے رہی ہے اور میرے جیسا پاکستان میں موجود ایک پاکستانی بھی دے سکتا ہے کہ ہم سب اپنے انتہائی پریشان حال اور اب تو بھوکے پاکستانی بھی چشم تصور سے دیکھ رہے ہیں۔ بچے عورتیں اور بیمار جن کا کپتان فرار ہو چکا ہے۔ ہم تو چینی حکومت سے بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ یمن میں اپنے شہریوں کو بچانے کے ساتھ ساتھ ہماری مدد بھی کرے۔

اس ملک میں اب باقاعدہ جنگ ہو رہی ہے زمینی اور ہوائی حملے جاری ہیں اور انسان مر رہے ہیں خصوصاً وہ غیر ملکی جو وہاں ملازمت کر رہے تھے یا کاروبار ان کا تو اب کوئی گھر بار بھی نہیں ہے۔

وطن سے دور بے گھر لوگ جن کا پاکستان کے ساتھ آخری رابطہ بھی وہاں سے بھاگ آیا ہے اور ان کا سفارت خانہ بھوت بنگلہ بن چکا ہے اور اس کا نگران اور ذمے دار صاحب خانہ گھر سے بھاگ کر چند دوسرے پاکستانیوں کے ساتھ جن کو وطن لانے کے لیے پاکستان نے جہاز بھجوایا تھا اور صرف دو گھنٹے کے لیے امن ملا تھا کہ یہ جہاز وہاں لینڈ کر سکے اور پھر اڑ سکے مگر حقدار پاکستانیوں کی نشست پر بھی یہ مفت خورہ سفیر براجمان ہو گیا اور اپنے فرض کو سسکتا تڑپتا چھوڑ کر بھاگ گیا۔

اگر ضمیر کی کوئی رمق اس سفیر موصوف کے دل میں باقی ہے تو وہ اپنے اس قبیح اور غیر پاکستانی عمل کا جواب اس سے طلب کرے۔ ابھی سیکڑوں پاکستانی یمن میں بے یارو مدد گار موجود ہیں جن کو انشاء اللہ ہم ہر حال میں واپس لے آئیں گے۔

یمن سے پاکستانیوں کے انخلاء کے سلسلے میں ایک اور بات سامنے آئی ہے کہ اگر پی آئی اے اب تک بک چکی ہوتی یعنی اس کی نجکاری کی جا چکی ہوتی تو پھر اس جہاز سے پاکستانیوں کی پاکستان آمد کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ کوئی پرائیویٹ کمپنی نہ جہاز کو قربان کر سکتی تھی اور نہ کمپنی کے ملازم اور ہوائی عملے کے ارکان اپنی زندگیوں کو تنخواہ کی خاطر داؤ پر لگا سکتے تھے۔ پھر سوال جہاز کی قیمت کا تھا اور ہوائی عملے کی نوکریوں کا جو زندگی سے قیمتی نہیں تھیں۔

پی آئی اے ایک پاکستانی نژاد کمپنی ہے اور پاکستانی بھائیوں کو بچانا اس کے عملے کا ایک قومی فرض تھا جو اس نے ادا کیا۔ اس جہاز نے اپنے بھائیوں کو موت کے منہ سے بچایا اور انھیں ان کے ملک کی محفوظ فضاؤں میں لے آیا جس کی مٹی پر وہ سجدہ ریز ہو گئے۔ کرائے کے لوگ ایسا کام ہر گز نہیں کرتے جن حالات میں ان لوگوں نے جہاز کو فضاء میں بلند کیا ان کی سنگینی کا اندازہ صرف یہی کر سکتے ہیں۔

فضا میں اڑتا ہوا مسافر جہاز ایک گولی کی مار ہوتا ہے وہ کسی صورت میں بھی اپنا تحفظ نہیں کر سکتا چنانچہ کوئی جہاز جب کھلی فضا میں اڑ رہا ہوتا ہے وہ ایک پرندے سے بھی زیادہ بے بس ہوتا ہے اور حالات اور اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ اس جہاز میں ائر ہوسٹس بھی تھیں اور ان کو پاکستان سے یمن جاتے وقت بھی معلوم تھا کہ وہ کس خطر ناک سفر پر جا رہی ہیں لیکن وہ پاکستانی تھیں اور انھیں اپنے ہموطن عزیز تھے۔

سچ تو یہ ہے کہ اس جہاز کے عملے نے اپنی زندگیوں کی قیمت پر یہ سفر طے کیا اور یمن سے مزید پاکستانیوں کو وطن لانے کے لیے دوسرے جہاز بھی تیار ہیں۔یوں سمجھیں کہ مزید سویلین اور مسافر بردار جہاز جنگ پر جا رہے ہیں اور جو جہاز پہلے گیا ہے وہ بھی جنگ کے محاذ پر ہی گیا ہے۔ ہمارے بہادر پاکستانی اپنے ہموطنوں کو واپس لانے تک یہ جنگ جاری رکھیں گے۔

کوئی تو وہ ہے جو محفوظ سفارت خانے سے ایک دوسرے محفوظ مقام پر چلا گیا ہے اور کوئی ایسے پاکستانی بھی ہیں جو زندگی و موت کے سفر سے ہو کر آئے ہیں اور اسی سفر کو جاری رکھنے پر بھی تیار ہیں لیکن یہ کسی نجی ہوائی کمپنی کے ملازم نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے جہاز کسی کاروباری نجی کمپنی کے ہیں وہ بھی پاکستان کے ہیں ان کے جہاز بھی پاکستان کے ہیں اور ان کا فرض بھی پاکستانی ہے ہمارا یہ نظریاتی ملک کوئی دکان نہیں ہے۔

جہاں نفع و نقصان کا حساب کتاب ہوتا ہے اس پر نظریات کی خاطر زندگیاں داؤ پر لگتی ہیں۔ اسی کا نام پاکستان ہے اور یہی پاکستان ہے جس کے بیٹے دشمنوں کے درمیان اس ملک کو اب تک بچا کر لے آئے ہیں اور آج بھی جب ان کے ہموطن زندگی و موت کی کشمکش سے دوچار ہوئے ہیں تو وہ ان کو بچانے کے لیے جان کی بازی لگا دیتے ہیں سوائے ایک بابو کے جو اس جہاز کا کپتان تھا مگر سب سے پہلے جہاز سے بھاگ گیا اور دوسروں کو ڈوبنے کے لیے چھوڑ گیا۔ کیا ایسے سفیر سے کوئی باز پرس ہو گی یا اسے پھر کسی دوسرے ملک میں جہاز سے بھاگنے کے لیے متعین کر دیا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔