یمن کی جنگ میں ہمارا کردار؟

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 2 اپريل 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

یمن آج کل جس بحران سے گزر رہا ہے اس کے اثرات پڑوسی ملکوں میں کس شدت سے محسوس کیے جا رہے ہیں اس کا اندازہ ان حقائق سے لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب کی فضائیہ یمن میں غدر مچانے والے حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر بمباری کر رہی ہے یہی نہیں بلکہ سعودی حکمران بار بار پاکستانی حکمرانوں سے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوجی مدد مانگ رہے ہیں۔

سعودی عرب پاکستان کا ایک انتہائی مخلص دوست ملک ہے اور بحرانوں کے دور میں اس نے پاکستان کی بھرپور مدد کی ہے اس پس منظر میں اگر سعودی حکمران پاکستان سے یمن کی لڑائی اور اپنے ممکنہ دفاع کے حوالے سے فوجی مدد مانگتے ہیں تو ان کی آواز پر لبیک کہنا ہماری اخلاقی ذمے داری ہے اور ہمارے سعودی دوست حکمرانوں نے پورے خلوص سے لبیک کہا ہے۔ جس پر کسی کو اخلاقی حوالے سے اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

لیکن یمن کا مسئلہ اس قدر پیچیدہ اور سنگین نوعیت کا حامل ہے کہ سعودی عرب سے بے حد دوستانہ تعلقات کے باوجود اس مسئلے پر بے حد محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ غالباً اسی تناظر میں ہماری سیاسی اور مذہبی قیادت اس مسئلے پر اے پی سی بلانے کا مشورہ دے رہی ہے اس احتیاط کی ایک سے زیادہ منطقی وجوہات ہیں اول یہ کہ یمن کے باغیوں کی زبانی ہی نہیں بلکہ ایران عملی مدد کر رہا ہے۔

ایران بھی ہمارا پڑوسی اور مسلم ملک ہے ایران سے قریبی تعلقات کی ضرورت کا ہمارے حکمرانوں کو ہمیشہ احساس رہا ہے اور ان کی کوشش بھی یہی رہتی ہے کہ ایران سے تعلقات مستقلاً دوستانہ رہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہندوستان افغانستان کی طرح ایران سے بھی قریبی اور بامقصد تعلقات کے لیے کوشاں رہتا ہے اگر بھارت کو یہ اندازہ ہوجائے کہ یمن کے مسئلے پر پاکستان کے ایران سے تعلقات متاثر ہو رہے ہیں تو پھر ہماری مجموعی سیاسی روایات کے مطابق بھارت اس تضاد سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرسکتا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے تعلقات میں جو تضادات موجود ہیں بھارت ان سے بھرپور فائدہ اٹھاتا رہا ہے۔

اس حوالے سے دوسرا خطرناک مسئلہ یہ ہے کہ یمن میں جو لڑائی ہو رہی ہے اس کی نوعیت فقہی ہے پاکستان میں بھی اس حوالے سے برسوں سے خون خرابا جاری ہے اور مذہبی انتہا پسند طاقتوں نے بھرپور کوشش کی ہے کہ اس محدود فقہی جنگ کو عراق اور شام کی طرح لامحدود جنگ میں بدل کر دو فرقوں کو اسی طرح ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کردیا جائے جس طرح شام اور عراق میں کھڑا کردیا گیا ہے۔

لیکن پاکستان کے اہل دانش سیاسی اور مذہبی قیادت نے مذہبی انتہا پسندوں کی ان سازشوں کو کامیاب ہونے نہیں دیا کیونکہ ان طبقات کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ اگر ایک بار فقہی جنگ عوامی حدود میں داخل ہوگئی تو پھر پاکستان عراق اور شام ہی نہیں بن جائے گا بلکہ اس کی سالمیت بھی ایک حقیقی خطرے سے دوچار ہو جائے گی۔ اس خطرناک پس منظر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ سعودی بھائیوں کی درخواست پر جذباتی انداز میں نہیں بلکہ پوری عقل و دانش اور دور اندیشی کے ساتھ غور کیا جائے۔

اس مسئلے کا ایک اور حساس پہلو یہ ہے کہ امریکا ایران سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور حالیہ تاریخ میں پہلی بار یہ دیکھا جا رہا ہے کہ ایرانی قیادت کا رویہ بھی ماضی کے مقابلے میں لچکدار ہے کیونکہ ایران کے مستقبل کے تقاضے یہ ہیں کہ وہ لامحدود عرصے تک امریکا اور اس کے حلیفوں سے پنگا جاری نہیں رکھ سکتا۔

ویسے بھی ایران کی طرف سے ایٹمی طاقت بننے کی جو کوشش کی جاتی رہی اس کی وجہ یہ نہیں کہ ایران کو اسرائیل سے کوئی براہ راست خطرہ ہے بلکہ اس کی اصل وجہ اسرائیل کی فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں اور مشرق وسطیٰ پر مستقل مسلط رہنے کی جارحانہ خواہش ہے۔

اگر پاکستان یمنی باغیوں سے سعودی عرب کو بچانے کے لیے میدان جنگ میں کود پڑتا ہے تو ہمارے اہل سیاست اس اقدام کو روس کے خلاف ضیا الحق کے اقدام سے مماثل سمجھ رہے ہیں افغانستان سے روس کو نکالنے کا مسئلہ پاکستان کی سلامتی کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ یہ اس خطے میں دو سپر پاور کی سیاسی مفادات کی جنگ تھی جس میں ضیا الحق نے انتہائی عاقبت نا اندیشانہ انداز میں پاکستان کو پھنسادیا جس کا خطرناک صلہ یا نتیجہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں اگر یمن کے مسئلے پر پاکستان کی پالیسی کو فہمیدہ حلقے ضیا الحق کی اتباع سمجھ رہے ہیں تو کیا یہ حلقے غلط سوچ رہے ہیں؟

یمن کی جنگ کو سعودی عرب تک پھیلنے سے روکنے کے دو طریقے نظر آرہے ہیں ایک یہ کہ پاکستان براہ راست اس جنگ میں کود پڑے اور اس کے منفی نقصانات کو برداشت کرنے کے لیے تیار رہے۔

دوسرا طریقہ یہ بلکہ منطقی طریقہ یہ ہے کہ اس بات پر غور کیا جائے کہ فقہی حوالے سے کیا یمن اکیلا ہی بغاوت کا شکار ہے؟ یا اور دوسرے ملک بھی کم زیادہ کے تناسب سے اس آگ میں جل رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب بہت واضح ہے کہ یہ جنگ صرف یمن ہی میں نہیں لڑی جا رہی ہے بلکہ اس کے شعلے بغداد اور دمشق کو بھی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں بلکہ پاکستان سمیت کئی مسلم ملکوں میں بھی ان شعلوں کی تپش کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح یہ مسئلہ اب پورے عالم اسلام کا مسئلہ بن گیا ہے۔

اخلاقاً مغربی ملکوں کو اس مسئلے کو پرامن ذرایع سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن مغرب چونکہ نفع نقصان کو دیکھے بغیر کسی پرائی آگ میں کودنے کا قائل نہیں لہٰذا اس سے کسی بھلائی کی توقع بے کار ہے اور مغرب کی اسلحہ انڈسٹری کے مالکان کے مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہر اس جنگ کو ہوا دیں جس سے اسلحے کی ڈیمانڈ میں بھی اضافہ ہو چونکہ یہ حلقے حکومتوں کی پالیسیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں سو ان سے کسی بھلائی کی توقع بے کار ہے۔

لے دے کر اس کی ذمے داری مسلم دانشوروں، مسلم مفکروں، مسلم غیر جانبدار علما پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس خطرناک جنگ کا پرامن حل نکالنے کے لیے آگے بڑھیں۔ پچھلے ہفتے عربوں کی تنظیم نے یمن جیسے خطرات سے نمٹنے کے لیے عربوں کی اجتماعی فوج بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو 40 ہزار فوجیوں پر مشتمل ہوگی۔

اگرچہ یہ راستہ بھی مسلم ملکوں کو جنگ ہی کی طرف لے جاتا ہے لیکن اگر 57 مسلم ملکوں کی اجتماعی فوج بنائی جائے جس کا مقصد فقہی جنگوں کا حصہ بننا نہ ہو بلکہ اس قسم کی جنگوں کو روکنا ہو تو پھر پاکستان کی ایسی کسی اجتماعی فوج میں شرکت کی مخالفت نہیں ہوگی لیکن اصل طریقہ فقہی تضادات کو دانشورانہ طریقوں سے ختم کرنا ہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔