مطابقت کے بندھن

اکرام سہگل  جمعرات 2 اپريل 2015

تیونس میں 18دسمبر 2010ء کے دن جس ریڑھی بان نوجوان ابو عزیزی نے سرکاری اہلکاروں کی بدسلوکی سے تنگ آ کر خود کو آگ لگا لی تھی اس آگ کے شعلے پورے مشرق وسطیٰ میں پھیلتے محسوس ہونے لگے۔

یہاں وطن عزیز میں ہم خود بے شمار مسائل میں گھرے ہوئے ہیں جن میں سے بیشتر خود پیدا کردہ ہیں لہٰذا اس انتہائی نازک وقت میں یہ ناگزیر ہے کہ ہم بلا سوچے سمجھے محض جذبات میں آ کر کوئی ایسا فیصلہ نہ کر بیٹھیں جس سے ہمارے معاشرے میں بھی عرب اسپرنگ کی طرح کوئی نیا بحران داخل ہو جائے۔

اگر ہم اس بات پر غور کرنے کی کوشش کریں کہ یمن میں شروع ہونے والی خانہ جنگی میں  برسرپیکار قوتوں کے کیسے کیسے اتحاد بنے ہوئے ہیں تو ذہن چکرا جاتا ہے۔ حوثی باغیوں کو سابق صدر علی صالح کے وفادار فوجی یونٹوں کی حمایت حاصل ہے جنہوں نے ملک کے دوسرے شہروں پر قبضہ کرنے سے پہلے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا ہے۔

مبینہ طور پر ان کو ایران کی طرف سے مادی امداد حاصل ہے حوثی باغیوں کا تعلق زیدی شیعہ فرقہ سے ہے جو کہ یمن کے شمالی علاقے میں کثرت رکھتے ہیں اور یہ علاقہ عین سعودی عرب کی سرحد پر واقع ہے۔  ان کے غیر ملکی روابط سے سعودی عرب کو تشویش لاحق ہوئی اور انھوں نے اسے اپنی خود مختاری کے لیے خطرہ محسوس کیا۔ حوثی قبائل کے ساتھ 2009ء میں ہی سرحدی جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں جن کے نتیجے میں سعودیہ کے سیکڑوں افراد جاں بحق ہوئے۔

یہ خطرہ کہ سعودی عرب کے جزیرہ نما کے ساتھ ملنے والے علاقے کے باغیوں کو غیر ملکی حمایت حاصل ہے سعودی عرب کے لیے خاصی تشویش کا باعث ہے۔ تمام عالم عرب کے ممالک حوثی قبائل کی کامیابی کو پلٹانا چاہتے ہیں۔ حوثی قبائل کی وجہ سے ہی صدر ہادی کو عدن میں اپنی محفوظ پناہ گاہ سے نکل کر سعودی عرب کی پناہ حاصل کرنا پڑی۔

تقریباً درجن بھر عرب ممالک کے طیاروں نے صنعا ایئر پورٹ پر زبردست بمباری کر کے اس کو ناقابل استعمال بنا دیا نیز حوثی قبائل کی جہاں جہاں زیادہ تعداد جمع ہے وہاں پر بھی بمباری کی جا رہی ہے۔ جس سے بہت بھاری جانی اور مالی نقصان ہو رہا ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ طیاروں سے بمباری کے بارے میں  انٹیلی جنس امریکا فراہم کر رہا ہے نیز حملوں کی منصوبہ بندی بھی ادھر سے ہی ہو رہی ہے۔

شرم الشیخ میں عرب لیگ کے 22 سربراہوں کی ملاقات ہوئی جس میں ایک مشترکہ عرب فورس بنانے پر رضا مندی کا اظہار کیا گیا 6 ممالک نے رضاکارانہ طور پر اس مشترکہ فوج میں شرکت اختیار کر لی سعودی عرب تمام اخراجات اٹھا رہا ہے جب کہ مصر نے فوری طور پر فضائی بحری اور زمینی افواج بھیجنے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 40000 کی نفری پر مشتمل مضبوط فورس کے فعال ہونے میں تھوڑا وقت تو لگے گا۔ لگتا ہے کہ مصر اس ہولناک انجام کو فراموش کر رہا ہے ۔

جس کا اسے 1960ء کے عشرے میں یمن میں سامنا ہوا جب کہ حوثی قبائل اس وقت شاہی خاندان کے وفادار تھے اور وہ مصر کی حمایت یافتہ ریاستوں کے ساتھ برسرپیکار تھے۔ گویا یہاں ایک اپنا ’’ویت نام‘‘ بن گیا تھا جس میں تیز رفتار فورس کے 15 ہزار جوانوں نے جان کی بازی ہاری اسی فوج کی تعداد ایک وقت میں زمینی اور فضائی سولجرز کے ساتھ 50000 ہزار تک پہنچ چکی تھی۔

پورے دس سال کی قتل و غارت کے بعد ناصر نے امن معاہدے پر دستخط کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی اور پوری مصری فوج واپس بلا لی گئی اب مصر پر جنرل سی سی کی حکمرانی ہے جو کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کی تباہی کی خواہش رکھتا ہے اس موقع پر اسرائیل خاموش رہ کر صورت حال سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ 1960 کے عشرے میں اسرائیل نے مصر کے خلاف شاہ پرستوں کی حمایت کی تھی۔

اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) یا ’’داعش‘‘ نے عراق کی ان فورسز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے جن کو امریکا نے تربیت دے کر تیار کیا تھا۔ ایرانی ملیشیا  عراقی فورسز کے ساتھ مل کر تکریت کا شہر باغیوں کے قبضے سے واپس حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی وہ داعش کے زیر قبضہ علاقوں  پر امریکی بمباری کے خلاف احتجاج بھی کر رہے ہیں۔

یہاں ایک پراکسی وار بھی لڑی جا رہی ہے جس کے حمایت کرنے والوں میں ترکی اور اردن شامل ہیں جب کہ وہ شام میں بشار الاسد حکومت کے خلاف ایران کی پراکسی جنگ کی حمایت بھی کر رہی ہیں۔ یہ ایسے انہونے اتحاد ہیں جو کسی بھی لمحے بکھر سکتے ہیں یہ سارے جزو وقتی سمجھوتے ہیں جن میں طویل المدت مضمرات کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ اس خانہ جنگی میں عراق‘ شام‘ لیبیا اور یمن ملوث ہیں لیکن یہ سمجھ نہیں آتی کہ کون کس کے خلاف لڑ رہا ہے اور کون کس کی حمایت کر رہا ہے۔

پاکستان ایک عجیب مخمصے میں ہے  کہ کیا یہ سعودیہ کی قیادت میں لڑائی کے لیے اپنی فوجیں بھیجے یا انکار کرے۔ یہ درست ہے کہ سعودیوں نے  مشکل کے وقتوں میں ہماری بے پناہ مدد کی ہے لہٰذا یہ واجب بنتا ہے کہ ان کی مشکل میں دست کشی کا مظاہرہ نہ کیا جائے لیکن دوسری طرف ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی پھنسے ہوئے ہیں تو کیا ایسی صورت میں ہم اپنی مسلح افواج کی توجہ کسی اور طرف  مبذول کرا سکتے ہیں۔ ملک کے اندر حالات خراب ہو سکتے ہیں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گرد اور دیگر عناصر فرقہ واریت کی ’’فالٹ لائن‘‘ کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

حکومت پاکستان نے اس بات کی تردید کی ہے کہ وہ عرب اتحاد کے لیے اپنے فوجی دستے بھجوا رہی ہے اس سلسلے میں وزارتی سطح کی ایک ٹیم زمینی حقائق کا جائزہ لینے کے لیے روانہ کر دی گئی ہے جب کہ سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے سعودی شاہ کو مکمل حمایت اور مدد کی یقین دہانی کرا دی ہے۔

یہ ان کی بہت بڑی فراخدلی ہے۔ ہمارے نام نہاد بہت سے ہمدرد ممکن ہے دل میں یہ چاہتے ہوں کہ ہماری مسلح افواج اس آگ کے دریا میں چھلانگ لگا کر کسی حد تک مختصر ہو جائیں۔  ہمیں اپنی فوج ضرور بھیجنی چاہیے لیکن وہ عرب اتحاد میں شامل نہیں ہوںگی بلکہ صرف سرحد پر کی جانے والی اشتعال انگیزیوں کا دفاع کریں گی۔

1991ء میں ہونے والی پہلی خلیجی جنگ میں پاکستان کی ’’مین ٹاسک فورس‘‘ (میکنائزڈ ڈویژن) کو تبوک بھجوا دیا گیا جسے یمن کی سرحد کے ساتھ ناگران کے مقام پر تعینات کر دیا گیا اور اس مہم کا نام ’’آپریشن ڈیزرٹ اسٹارم‘‘ رکھا گیا تھا۔ جس سے سعودی فوجیں عراق اور کویت میں کارروائی کرنے کے لیے آزاد ہو گئیں۔ اس موقع پر ایک اصول طے کیا گیا کہ پاکستانی فوجی دستے صرف سلطنت کی حفاظت کریں گی لیکن وہ سرحد کو عبور نہیں کریں گی۔

اس موقع پر مصر نے امریکا سے 12سے 15 ارب ڈالر کے لگ بھگ اپنا قرضہ معاف کرا لیا۔ ہمیں اس کے مقابلے میں تقریباً کچھ بھی نہ ملا۔ اب پھر ایک موقع ہے لیکن ہمیں اس میں شمولیت کے لیے مکمل فہم و دانش سے کام لینا ہو گا اور بین الاقوامی سرحد کو عبور نہ کرنے کے اصول کو قائم رکھنا ہو گا اور حوثی باغیوں کی سعودی سرحد پامال کر کے مملکت میں داخل ہونے کی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دینا  ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔