پارلیمنٹ یا پھر خالہ جی کا گھر!

 پير 6 اپريل 2015
اگر سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا تو پھر کیا ہوگا؟ کیا پھر کپتان اُسی نواز شریف کے زیر سایہ تحقیقات کو تسلیم کرلیں گے۔ فوٹو: فائل

اگر سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا تو پھر کیا ہوگا؟ کیا پھر کپتان اُسی نواز شریف کے زیر سایہ تحقیقات کو تسلیم کرلیں گے۔ فوٹو: فائل

اگست 2014ء میں جب تبدیلی کی ہوا چلی تو میرے جیسا ہرایک پاکستانی سمجھ رہا تھا کہ اب بُرے دن ختم ہونے کو ہیں، اب ہم کو ’’نیا پاکستان‘‘ ملے گا۔

پھر اُس نئے پاکستان میں کوئی غریب نہیں رہے گا، گھر گھر تعلیم ملے گی، ڈاکٹرز بیگ اٹھائے ادویات لیکر گھر کی دہلیز پر کھڑے ہونگے ’’بھائی کوئی بیمار تو نہیں‘‘۔ تھانوں میں رشوت نہیں لی جائے گی، ملک امن کا گہوارہ بن جائے گا، چور لٹیرے ملک سے بھاگ جائیں گے، اسمبلیوں میں صاف ستھرے نمائندے آئیں گے۔

اِس تبدیلی کے لیے ڈھائی ماہ کے لیے دھرنا بھی دیا گیا جہاں یہ اعلان بھی سننے کو ملا کہ جب تک چور لٹیرے ایوانوں میں موجود ہیں ہم نہیں جائیں گے، لیکن ہوا کیا؟ کچھ بھی نہیں۔ نہ تم بدلے، نہ ہم بدلے نہ بدلہ پاکستان۔

عمران خان صاحب اور ان کی صاف چلی شفاف چلی، تحریک انصاف چلی کی جو آج 7 ماہ بعد پھر اسمبلیوں میں آ بیٹھی ہے۔

یاد رہے کہ یہ وہی اسمبلی ہے جس کے بارے میں بار بار ہمیں یہ سننے کو ملا تھا کہ یہاں سب چور ہیں، ڈاکو ہیں حتیٰ کہ جعلی اسمبلی بھی کہا گیا۔ اِسی لیے کپتان اور اُن کی ٹیم کی ایوانوں میں واپسی سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تو ہا ہا کار مچی ہوئی ہے کہ کپتان نے اپنا تھوکا چاٹ لیا۔ کئی لوگ اسے سیاسی ڈیل کا نام دے رہے ہیں تو کچھ متوالے اس کو انصافیوں کی شکست۔

کپتان اور ان کی ٹیم کیا قوم کو بتائے گی کہ جو 7 ماہ تک صرف جوڈیشل کمیشن کے قیام کیلئے تماشا لگایا گیا، قوم کا وقت برباد کیا گیا، اب ہم اُس کے بارے میں کیا رائے قائم کریں؟ ۔۔۔ جہاں تک ہم جانتے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن تو ابھی تک بنا بھی نہیں صرف اُس پر اتفاق ہوا ہے اور اگر سپریم کورٹ چاہے تو وہ ایسے کسی بھی فیصلے کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

اور اگر سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا تو پھر کیا ہوگا؟ کیا پھر کپتان اُسی نواز شریف کے زیر سایہ تحقیقات کو تسلیم کرلیں گے جس کا نام نواز شریف ہے؟ جی جی وہی نواز شریف جس کو عمران خان جعلی وزیراعظم تصور کرتے ہیں۔

تحریک انصاف کا دھرنا کوئی تبدیلی لایا ہو یا نہ لایا ہو مگر 7 ماہ کا ڈرامہ معاشرے میں عدم برداشت اور طوفان بدتیمزی کا کلچر ضرور لایا ہے۔ نوجوانوں کو باغی بنایا ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’ہرعمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے، رفتار برابر لیکن سمت مختلف ہوتی ہے‘‘۔

یہ نیوٹن کا قانون تھا جو ہماری سیاست پر ٹھیک فٹ ہورہا ہے، یہ جو ردعمل معصوم ذہنوں میں جنم لے چکا ہے، وزیراعظم، وزیراعلٰی، کوئی سیاستدان شکست نہیں دے سکتا، بچے بھی ملک کے انتظامی سربراہ کو مجرم سمجھنے لگے ہیں، مثبت اور منفی دونوں ردعمل معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ ایک جانب ’’گلو بٹ‘‘ کے کردار نے جنم لیا ہے تو دوسری طرف ’’اوئے‘‘ جیسی اصطلاح بھی فروغ پارہی ہے۔

کپتان اورعلامہ کی تقریر کا ردعمل ریڈ زون میں بھی دیکھنے کو ملا، سوشل میڈیا پر تو ایسی ایسی انگلش، اردو، پشتو تھوڑی تھوڑی عربی میں بھی گالیاں ملیں۔ جو اب فیشن بنتی جارہی ہیں۔ یہ زبانی ردعمل حکومتی حلقوں اور دھرنے بازوں دونوں طرف سے آرہا ہے۔ انقلابی ردعمل میں پولیس کی پٹائی ہوئی، میڈیا ورکرز، صحافیوں تک کی درگت بنی، ان تقاریر کے ردعمل میں پارلیمنٹ میں کل کے دشمن دوست بن گئے ہیں۔

لوگ کہتے ہیں عمران خان لیڈر نہیں سیاستدان بن گئے ہیں، نہیں نہیں! عمران آج بھی لیڈر ہے، عمران خان چاہتے تو قوم کی شعوری تربیت کرتے مگر انہوں نے اپنا موضوع گفتگو سیاستدانوں اور الیکشن نظام کی خامیوں، دھاندلی الزامات اور وضاحتوں کو بنایا۔ لیڈر جنون میں مبتلا نہیں ہوتا۔ وہ باغبان ہوتا ہے، جسے معلوم ہوتا ہے کہ جو پودا (روایات اور اخلاقیات) میں آج لگا رہا ہوں وہ کل کو درخت (میرے کارکن کا کردار بن کر) دنیا کے سامنے ہوگا۔

خان صاحب اور ان کی ٹیم سے درخواست ہے وقت برباد نہ کریں، یہ اسمبلیاں آپ کو کچھ نہیں دے سکتیں، جوڈیشل کمیشن کا بھی خاص نتیجہ سامنے نہیں آنے والا، آپ کرواسکتے ہیں تو الیکشن کمیشن میں تبدیلیاں کروائیں، بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے بلدیاتی انتخابات کروا گئے تو آپ کی کامیابی ہوگی، چور تو آپ کی صفوں میں بھی ہیں، آپ کے ہاں بھی آستین کے سانپ موجود ہیں پہلے اس گند کو صاف کریں آپ یہ سب کر گئے تو آپ کی کامیابی ہوگی۔

کیا آپ تحریک انصاف کی جانب سے پارلیمنٹ میں واپسی کے فیصلے کو درست سمجھتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔