بُک شیلف

عبید اللہ عابد / شہباز انور خان  اتوار 12 اپريل 2015
زیرنظرکتاب کائنات کی بہترین ماؤںؓ کی حیات وخدمات، فضائل ومناقب سے بھری ہوئی ہے, فوٹو: فائل

زیرنظرکتاب کائنات کی بہترین ماؤںؓ کی حیات وخدمات، فضائل ومناقب سے بھری ہوئی ہے, فوٹو: فائل

امہات المومنینؓ
مصنف:عبدالرشید عراقی، قیمت:600روپے
ناشر:بک کارنرشوروم بالمقابل اقبال لائبریری بک سٹریٹ جہلم


یہ گیارہ کی گیارہ خواتین عام عورتیں نہیں تھیں، حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ، حضرت سودہؓ، حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت حفصہؓ، حضرت زینب بنت خزیمہؓ، حضرت ام سلمہؓ، حضرت زینب بنت جحشؓ، حضرت جویریہؓ، حضرت ام حبیبہؓ، حضرت صفیہؓ اور حضرت میمونہؓ، اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ﷺ کے ذریعے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اے نبی( ﷺ )کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو‘‘ اور پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ یہ نبی(ﷺ) مومنوں کے ساتھ ان کی جانوں سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں اور آپ(ﷺ) کی ازواج (مطہراتؓ) ان کی مائیں ہیں۔‘‘

ان میں سے ایک وہ تھیں جن کی زندگی میں رسول اکرم ﷺ نے دوسری شادی کرنے کا سوچابھی نہ تھا حالانکہ اس وقت ایک سے زیادہ شادیاں کرنا معمول تھا، رسول اکرم ﷺ کا دوسری شادی نہ کرنا غیرمعمولی تھا۔ ایک وہ تھیں جو رسول اکرم ﷺ کی اس وقت غم گسار بنیں جب حضرت خدیجہؓ کے انتقال نے آپﷺ کو بہت غم زدہ کیا، ایک وہ تھیں جنھیں آپ ﷺ کے لئے اللہ تعالیٰ نے خود پسند فرمایا، اور وہ علم وفضل کا ایک سمندرثابت ہوئیں۔

ایک وہ تھیں جن کی ولادت اس صبح ہوئی جب رسول اکرم ﷺ نے حجراسود کی تنصیب کا ایسا فیصلہ فرمایا کہ اہل عرب ایک بڑے خونی طوفان سے محفوظ رہے، انھی کے بارے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایاتھا ’’وہ بہت زیادہ روزے دار اور قیام کرنے والی ہیں اور وہ جنت میں بھی آپ ﷺ کی اہلیہ ہیں‘‘، ایک وہ تھیں جن کی متعدد بارشادیاں ہوئیں اور دوخاوند شہیدہوئے، ایک وہ تھیں جنھوں نے مختلف غزوات میں بہادری کے خوب جوہر دکھائے اور جن کی موجودگی ہی میں آپ ﷺ سے حضرت جبرائیل علیہ السلام محوکلام رہے، ایک کا نکاح ہی آسمانوں پر ہواتھا۔

زیرنظرکتاب کائنات کی بہترین ماؤںؓ کی حیات وخدمات، فضائل ومناقب سے بھری ہوئی ہے۔ مصنف نے نہایت تفصیل سے ان سوالات اور اعتراضات کا جواب بھی دیا ہے جومخالفینِ اسلام کثرت ازواج کے باب میں رسول اکرمﷺ پر کرتے ہیں۔ کتاب میں امہات المومنین ؓ کی آخری آرام گاہوں کی رنگین تصاویر بھی موجود ہیں۔ ان سے بہترمائیں دنیا میں تھیں، نہ ہیں اور نہ ہوں گی۔ آج اور کل کی ماؤں کو روشنی حاصل کرناہے تو انہی سے ملے گی۔

میرے ہمنوا کو خبرکرو( ناول)
مصنف: فاخرہ گل، قیمت:600روپے
ناشر:القریش پبلی کیشنز، سرکلر روڈ اردوبازارلاہور

ہمارے معاشرے میں دوسروں پر کیچڑ اچھالتے ہوئے اس بات کو یکسرفراموش کردیاجاتاہے کہ دوسروں کی طرف اچھالا جانے والا گند خود ہمارے کپڑوں کو بھی غلاظت سے آلودہ کرسکتاہے لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ جب خود اپنے کپڑے آلودہ ہوں، تب احساس کیاجائے؟
’میرے ہمنوا کو خبر کرو‘ میں اسی افسوسناک اور خطرناک رویہ کو موضوع بنایاگیاہے۔

ہم جانے انجانے میں دوسروں کے بارے میں ایسا بہت کچھ کہہ دیتے ہیں، جو دوسروں کی اچھی بھلی زندگی تباہ وبرباد کردیتا ہے۔ انجانے میں زیادتی کرنے والے بعدمیں پچھتاتے ہیں۔ لیکن اب پچھتانے کا کیافائدہ! جب دوسری کی زندگی ختم ہوجائے۔ زیرنظرناول کی ساری کہانی میں جو کچھ بھی ہوا اس میں قصوروالدین کی آزادانہ تربیت کا تھا یا خود اس کی اپنی بیٹی کی حد سے زیادہ بولڈ طبیعت کا؟ اس کا فیصلہ قارئین ہی کریں گے جب وہ یہ ناول پڑھیں گے۔فاخرہ گل نے اپنے ہی اندازمیں اس ناول میں روایتی، دیسی، معاشرتی المیوں، خاندانی رنجشوں اور ذاتی الجھنوں کو ہدف بنایاہے۔ناول کے مطالعہ سے جو بہت سے اسباق ملتے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنی اور دوسروں کی زندگیاں بہتربنانے کی اشد ضرورت ہے۔

یہ خوش کن امر ہے کہ پاکستان میں خواتین ادیبوں کی ایک پوری کھیپ میدان میں اتر آئی ہے، یہ پاکستانی ادب کا حال اور روشن مستقبل ہیں۔ انھیں پڑھ کر اردو ادب کے حال اور مستقبل کے بارے میں ہماری ساری فکر رفع دفع ہوجاتی ہے۔ شاعری کے بعد فاخرہ کا ناول نگاری میں یہ پہلا قدم ہے۔

جدید نظم کی تیسری جہت
مصنف: طارق ہاشمی ،ناشر :شمع بکس ، فیصل آباد
قیمت:400/،صفحات :240/ روپے


اردو نظم میں کردار نگاری بلاشبہ مغرب سے مستعار لی گئی ہے جسے ہمارے شعراء نے اردو زبان میں برتا او ر پھر عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اسے مقامی بنانے کی شعوری اورکامیاب کوشش کی ہے ۔زیر تبصرہ کتاب ’’جدید نظم کی تیسری جہت ‘‘ میں بنیادی طورپر جدید نظم اور نظم میں کردار نگاری کے حوالے سے ہی بحث کی گئی ہے ۔

کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے ،(1)’’نظم میں کردارنگاری ،مباحث و پس منظر، (2) جدید اردو نظم کا تشکیلی دور(3) ، جدید اردو نظم 1935ء تا 1955 ء اور(4) نئی نظم اور معاصر منظرنامہ ۔طارق ہاشمی نے جدید اردو نظم کے ارتقائی سفر کے ضمن میں ان چاروں موضوعات کا بڑی خوبصورتی کے ساتھ احاطہ کیا ہے اور جدید نظم میں آغاز سے موجودہ دور تک کے تمام مراحل کو معروضی انداز میں بیان کرتے ہوئے اسلوب، ٹیکنیک او رلسانی تشکیلات کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی ہے۔

آج اردو نظم جس مقام پر کھڑی ہے اس کا بھی محاکمہ کیا گیا ہے ۔اور جن شعراء نے اردو نظم میں کردار نگاری کے سہارے انسانی نفسیات، انسانی اقدار ،رویوں اور انسانی شخصیت میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں ،اور کیفیات کو شعری پیرہن دیا ہے .

انہیں حوالہ جات کی مدد سے بیان کیا ہے اور ان کرداروں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔طارق ہاشمی نے بلاشبہ ایسے موضوع کا انتخاب کیا ہے جو ایک عرصہ سے ہمارے ادبی حلقوں میں زیر بحث تو رہا ہے لیکن آج بھی تشنہ اورادھورا محسوس ہوتا ہے ۔اس اعتبار سے جدید نظم کو اس میں تخلیق کیے گئے کرداروں کے حوالے سے سمجھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ یقینی طورپر اردو ادب کے طلبہ او رشائقینِ ادب کے لیے دلچسپی کا باعث بھی ہوگا اور معلومات افزا بھی ۔

لطف ِ آگہی
مصنف: ڈاکٹر شہزاد قیصر،ناشر:مکتبہ جمال ، لاہور
قیمت:300/ روپے ،صفحات: 221

ڈاکٹر شہزاد قیصر بظاہر ایک بیوروکریٹ ہیں لیکن بہ باطن ایک صوفی، ایک درویش ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شاعر ، ایک ادیب اور ایک’’ فنکار‘‘ بھی ہیں کہ جو بڑی چابک دستی کے ساتھ اپنے تمام ہنر آزماتے دکھائی دیتے ہیں ۔

ان کی کتاب ’’لطف آگہی ‘‘ ان کے انشائیوں کا مجموعہ ہے جس میں ان کے 49 انشائیے شامل ہیں جن میں 45 ان کی تین کتابوں (کلیئرنس سیل ، صاف چھپتے بھی نہیں اور آئینہ ہے پیرہن ) کے ذریعے منظر عام پر آچکے ہیں جب کہ چار تازہ انشائیے ہیں۔ یہ تمام انشائیے ان کی متنوع اور دلآویز شخصیت کا پرتو ہیں۔ ان کی تحریر کی شگفتگی ، سلاست ، بے ساختہ پن اور بے تکلفی کا خوبصورت آمیزہ ہے ۔

جس کی مدد سے ایک حقیقی انشائیہ جنم لیتا ہے ایسا انشائیہ جس میں آمد ہے ، آورد نہیں۔ ان کے تازہ انشائیوں میں ان کا وہ انشائیہ بھی شامل ہے جو کتاب کا عنوان بنا۔لطف ِ آگہی میں اگرچہ انہوں نے خوشامد کو موضوع بنایا اور بڑی شگفتگی کے ساتھ اسے نبھایا بھی ہے لیکن اس میں ان کے اندر کا فلسفی اور صوفی ان کی ’’ انشائی سوچ‘‘ پر غالب دکھائی دیتا ہے کہ جب وہ اپنے انشائیے کا اختتام کرتے ہیں تو پھر وہ غیر ارادی یا لاشعوری طورپر انشائیے کی حدود سے باہر نکل کر ایک سنجیدہ اور متین شخص کا روپ دھارلیتے ہیں اور یہ ان کا انشائیے کی صنف میں ارتقائی سفر ہے جو انہی کے بقول ’’کھلنڈرے پن سے شروع ہو کر بلوغت بلکہ ادھیڑ عمر شخص تک آن پہنچا ہے ۔

بہر حال وہ قارئین جو موجودہ تلخ اور کڑواہٹ زدہ ماحول میں ذہن کوفکری چاشنی اور خوش ذائقوں سے آشنا کرنا چاہتے ہیں انہیں ان انشائیوں کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے جو انہیں مایوس نہیں کریں گے ۔

محبتیں جو کھو گئیں
شاعر:یاسر امین یاسر
صفحات:176،قیمت:400/= روپے
ناشر: بک ہوم ، مزنگ رو ڈ ، لاہور


’’ محبتیں جو کھو گئیں ‘‘نوجوان شاعر یاسرامین یاسر کا پہلا شعری مجموعہ ہے جس میں غزلیں اور نثری نظمیں شامل ہیں ۔یا سر کی شاعری کا محور و مرکز اگرچہ محبت ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس میں ہجرو وصال ، وفاو بے وفائی، دھوکہ و نفرت ،سماجی رویے اور بے قدریٔ زمانہ ایسے موضوعات بھی بکثرت ملتے ہیں جو انسانی زندگی کا لازمہ تصور کیے جاتے ہیں ۔

یاسر امین یاسر نے اپنے جذبات و احساسات کو بہت خوبصورتی کے ساتھ شعروں کا لبادہ اوڑھایا ہے اور اپنے اس ہنر کی نیلم احمد بشیر، جاوید اختر (انڈیا ) ، ریتا نیلوفر (انڈیا)،ڈاکٹر امرینہ خان، آفتاب خان اور کاظم جعفری جیسے دوستوں سے داد پائی ہے ۔یاسر کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’’ اس کی شاعری میرے بھی اندر کی آواز ہے ۔

جو میں نے سوچا آج یہ لکھ رہا ہے اور میری آنکھوں کا خواب یاسر کی کتاب سے پورا ہوگیا ‘‘۔یہ ایک سخن شناس ماں کی رائے ہے اور ظاہر ہے یہ دیگر اہل قلم سے زیادہ وقیع اور زیادہ معتبر ہوسکتی ہے۔ تاہم اس کی غزلوں کا اگر بنظر عمیق مطالعہ کیاجائے تو کہیں کہیں ان میں فنی اعتبار سے سقم بھی پایاجاتا ہے کتاب خوبصورت گٹ اپ کے ساتھ بک ہوم نے بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کی ہے ۔

رت بد ل رہی ہوگی
شاعرہ: فہمیدہ کوثر فہمی
صفحات ۔128،قیمت ۔300/= روپے ،ناشر ۔نگاہ پبلی کیشنز، لاہور


فہمیدہ کوثر بنیادی طورپر نثر نگار ہیں ۔انہوںنے افسانے بھی لکھے ،کہانیاں بھی اور ناول بھی لکھا اور کالم نگار بھی ہیں ۔اب تک دس کے قریب نثری کتب شائع ہوچکی ہیں جبکہ چند ایک زیر طبع بھی ہیں ۔

لیکن اب انہوں نے شاعری کو اظہار کاوسیلہ بنایا ہے ۔ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’گئی رتوں کاحساب رکھنا‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے اور اب دوسرا مجموعہ بھی ’’رت بدل رہی ہوگی ‘‘کے عنوان سے چھپ گیا ہے ۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا اشہب قلم نثر کے بعد نظم میں بھی رواں ہے اوریوں انہوںنے فہمیدہ کوثر سے فہمیدہ کوثر فہمی تک کا سفر خوش اسلوبی کے ساتھ طے کرلیا ہے۔زیر تبصرہ مجموعہ میں غزلوں کے ساتھ ساتھ نظمیں بھی شامل ہیں ۔

ڈاکٹر اجمل نیازی ، فرحت عباس شاہ اور اعجازفیروز اعجازنے ان کی شاعری پر آراء د یتے ہوئے امکانات او رامید کی کرن دکھائی ہے جو ان کے لیے یقینا حوصلہ افزا ہے ۔ڈاکٹر فوزیہ افتخار کا کہنا ہے کہ اس کی شاعری اپنے عہد کے معاشرتی ، سماجی اور سیاسی رویوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سانس بند کردینے والی گھٹن ،درد اور تکلیف کی عکاس ہے اور جرأت اظہار کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔کتاب صوری لحاظ سے بھی خوبصورت اور دلکش ہے۔

اے وقت میری بات سنو!
شاعر:بختیار حیدر
صفحات: 272 ،قیمت:200/= روپے ،ناشر: علم و عرفان پبلشرز، لاہور


بعض حادثات و واقعات ایسے ہوتے ہیں جو انسان کی روح کوگھائل کردیتے ہیں ۔وہ زخمی روح کے ساتھ اس کیفیت میں شب وروز بتاتاہے کہ اس کے احساسات اور جذبات دل و دماغ کی لوح پر اس انداز میں ثبت ہوجاتے ہیں کہ جنہیں وقت کے نشتر سے بھی کھرچا نہیں جاسکتا۔زیر تبصرہ کتاب بختیار حیدر کی آزاد نظموں پر مشتمل شاعری کا مجموعہ ہے جو انہوںنے اپنی والدہ محترمہ کے انتقال کے بعد اپنے احساسات وجذبات میں ڈوب کر لکھی ہیں۔

والدہ کی رحلت نے انہیں جس صدمے ، جس کربناک ذہنی کیفیت سے دوچار کیا یہ نظمیں اس کی روداد تصور کی جاسکتی ہیں ۔’’اے وقت میری بات سنو!‘‘ میں ان کی 150 سے زائد نظمیں شامل ہیں تاہم انہوںنے ذائقے کی تبدیلی کے لیے دو غزلیں بھی لکھی ہیں لیکن وہ بھی دراصل نظمیں ہی ہیں۔

جنہیں غزلوں کانام دیاگیا ہے کہ وہ اپنی ہیئت ، بنت ، اپنے اسلوب اور ڈکشن کے اعتبار سے غزل کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتیں ۔کتاب میں شامل تمام نظمیں ایک ہی تاثر لیے ہوئے ہیں جو دراصل خود کلامی ہے جسے انہوںنے الفاظ کالبادہ پہناکر شاعری کا روپ دے دیا ہے ۔کتاب کو بڑے عمدہ گٹ اپ میں بڑی نفاست کے ساتھ شائع کیاگیا ہے جو خوبصورت بھی ہے اور جاذب ِ نظر بھی ۔

عراق اشک بار ہیں ہم(سفرنامہ)
مصنفہ: سلمیٰ اعوان
قیمت:350روپے
ناشر: الفیصل ناشران، غزنی سٹریٹ اردوبازارلاہور

عراق پر جارحیت مسلط کرنے والے امریکی استعمار کے ایک کارندے نے کہاتھا’’ ہم ایک ایمپائر ہیں، جب ہم کوئی کام کرتے ہیں ہم اس کے ہونے کا جواز پیداکرلیتے ہیں۔ جب دنیا ہمارے اس جوازپرغور وخوض کررہی ہوتی ہے۔ ہماری ترجیحات کا رخ بدل جاتاہے، ہم تاریخ کے اداکار ہیں اور تم سب لوگ( یعنی باقی دنیا) صرف یہی جاننے میں لگے رہتے ہو کہ ہم کیاکررہے ہیں۔‘‘

رعونت، تکبر، دوسروں کے لئے حقارت اور ساری دنیا کو اپنے مفاد کے لئے پیس ڈالنے کے عزائم رکھنے والے اس اہلکار کے ملک نے عراق کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا، کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

اس کے بعد عراق میں کیاہوا؟ اس سوال کا جواب ابھی تک نظروں میں نہیں آسکاتھا، جسے اب محترمہ سلمیٰ اعوان نے زیرنظرسفرنامہ کی صورت میں پیش کردیاہے۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ پورا عراق اپنی بربادی پر آٹھ آٹھ آنسو بہارہاہوگا لیکن یہ ممتاز پاکستانی مسافر قصہ کچھ یوں بیان کرتی ہیں کہ عراقی بھی پڑھیں گے تو اپنے سارے دکھ بھول جائیں گے۔

وہ قاری کو فکشن کا مزہ بھی دیتی ہیں کہ ’’تنہا‘‘،’’ لہورنگ فلسطین‘‘، ’’ثاقب‘‘،’’ گھرونداایک ریت کا‘‘،’’زرغونہ‘‘ اور’’ شیبہ ‘‘ کے نام سے ناول لکھ چکی ہیں، پانچ مجموعے افسانوں کے چھپ چکے ہیں ۔ اور مزہ سفرنامے کا بھی ملتاہے کہ سفرکرتے اور سفر لکھتے عشرے بیت چکے ہیں۔ ’’یہ میرا بلتستان‘‘،’’ میرا گلگت وہنزہ‘‘،’’ سندرچترال‘‘،’’ مصرمیراخواب‘‘،’’ روس کی ایک جھلک‘‘ بھی لکھ چکی ہیں۔

ایک ایسے عراق، جہاں نہ شیعہ متحد ہیں، نہ سنی اور نہ کرد، گروپوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں سب کے سب، کاسفر کرتے ہوئے سلمیٰ اعوان کو کیاکچھ نہیں دیکھناپڑا ،یہ آپ سفرنامہ پڑھیں گے تو پتہ چلے گا۔ انھوں نے جو دیکھا، اسے بیان کیا، آپ پڑھیں گے تو ہنستے مسکراتے خود ہی بہت سے نتائج اخذ کرنے پر قادر ہوجائیں گے کہ اب عراقی قوم کیاکرنے والی ہے اور قابض امریکی یا ان کے وفادار یہاںچین کی بانسری بجاسکیں گے یا نہیں۔ بس! اس سفرنامے کا پڑھنا شرط ہے۔

کافرستان
مصنف:محمد پرویش شاہین
قیمت:400 روپے
ناشر:مکتبہ جمال، تیسری منزل، حسن مارکیٹ اردوبازارلاہور

بڑے ہی دلچسپ لوگ ہوتے ہیں وہ، جو مختلف قوموں، ان کے رسوم ورواج بلکہ ان کی زندگی کے ہررنگ کو دیکھنے کے لئے ملکوں ملکوں گھومتے ہیں، جنگلوں سے گزرتے جاتے ہیں، پہاڑوں کو عبورکرتے جاتے ہیں، ندی نالوں، دریائوں اور سمندروں کو پھلانگتے جاتے ہیں، اس دوران وہ مختلف قدرتی مناظر ، زبانوں سے بھی لطف حاصل کرتے ہیں۔

زیرنظرکتاب کوئی سفرنامہ نہیں ہے لیکن محمد پرویش شاہین نے اسے سفرکرنے والوں کے لئے انتہائی اہم امدادی کتاب بنادیاہے۔ایک ایسا فرد جو برسوں قبل خود کافرستان کا سفر کرچکاہو اور اس نے وہاں کے لوگوں سے پرے پرے شب و روز گزارنے کے بجائے کبھی کسی درخت کے نیچے رات بسر کی، کبھی کسی پتھر کے نیچے اور کبھی کسی عبادت گاہ میں۔ بس! ایک ہی لگن تھی کہ کافرستان والوں کی رسوم ورواج، عقائد، تاریخ اور فوک کو جمع کیاجائے اورکافرستان کی ایک ایسی تصویر پیش کی جائے جس میں تمام ترتفصیلات جزئیات کے ساتھ موجود ہوں۔

چنانچہ انھوں نے ایک سفرنامہ تحریر کرکے لوگوں کو کچھ دیر کی تفریح فراہم کرنے کے بجائے ایسا کام کیا جس کی افادیت کبھی ختم نہیں ہونے والی ہے۔ انھوں نے نہایت ذمہ داری سے وہ سب کچھ شامل کردیا جو کافرستان کی طرف جانے والے ایک مسافر کی ضرورت ہے۔ مثلاً ایک پورا باب محض اس لئے باندھا ہے کہ کافرستان کیسے پہنچاجائے؟ اس کے بعد وہاں کے محل وقوع اور مقامات کا مکمل تعارف پیش کیا گیا، نسل اور تاریخ کا ذکر کیا گیا، ثقافت، رسوم ورواج اور گھریلومشاغل، مذہب اور فنون لطیفہ، سماجیات اور لسانیات پر الگ الگ تفصیلی طورپر بھی ابواب موجود ہیں۔

اس اعتبار سے اسے ایک مکمل گائیڈ بک کا درجہ بھی دیاجاسکتاہے جو عام گائیڈبکس کی طرح خشک نہیں ہے۔ پڑھیے اورکافرستان کو چل نکلئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔