کامنا پرساد کے مشاعرے

امجد اسلام امجد  پير 13 اپريل 2015
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

اردو زبان، اس کے رسم الخط اس کی پرانی اور نئی بستیوں کو درپیش مسائل اور پاکستان اور بھارت میں اس کی صورت حال سے متعلق باتیں تو اکثر و بیشتر ہوتی رہتی ہیں جن میں غالب عنصر اس کے مستقبل کے بارے میں فکرمندی پر مبنی ہوتا ہے، کم و بیش یہی کیفیت اس کی کتابوں اور رسائل کی اشاعت اور فروخت کے ضمن میں بھی ہے کہ ملا جلا کر تقریباً تیس کروڑ اردو رسم الخط پڑھ سکنے والے افراد کی کمیونٹی میں گنتی کی چند کتابیں ہوں گی جو ایک سال میں دو ہزار سے زیادہ چھپتی ہوں۔ میں ابھی کل ہی بھارت سے لوٹا ہوں۔ وہاں دیوناگری اسکرپٹ میں اردو ادب پڑھنے والوں کی تعداد اگرچہ بڑھ رہی ہے لیکن وہاں بھی ان کتابوں کی تعداد اشاعت کم و بیش اتنی ہی ہے۔

ایسے میں یہ بات بہت حیران کن ہے کہ وہاں تقریباً پورے ملک میں سارا سال مشاعرے ہوتے رہتے ہیں اور سامعین ہزاروں کی تعداد میں ان میں شرکت کرتے ہیں گویا اب بھارت کی حد تک اردو زبان آنکھ سے زیادہ کان سے نزدیک ہو چکی ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ مشاعروں کا معیار کیا ہے اور وہاں کے شاعروں کو سامعین سے داد لینے کے لیے کس کس طرح کی شاعری کرنا پڑتی ہے۔ بالخصوص خالص عوامی سطح کے مشاعروں میں تو شاعروں کو اسٹیج کے اینٹرٹینرز کی طرح ’’ون مین شو‘‘ کا مظاہرہ بھی کرنا پڑتا ہے اور شاعری کے Content سے زیادہ اسٹیج پرفارمنس پر توجہ دینا پڑتی ہے۔

سامعین سے براہ راست گفتگو کرنا انھیں ادھر ادھر کی باتوں سے محظوظ کرنا، بنیادی انسانی جذبات سے کھیلنا اور داد حاصل کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرنا ان کی ضرورت سے بھی بڑھ کر ایک مجبوری کی شکل اختیار کرچکا ہے لیکن اس کے باوجود وہاں چند ایک ایسے مشاعرے بھی ہوتے ہیں جو ہر اعتبار سے اعلیٰ ادبی معیار اور روایات کے حامل ہوتے ہیں اور جن کے سامعین کی بیشتر تعداد اچھا ادبی زوق رکھنے والوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ کامنا پرساد کے ’’جشن بہاراں‘‘ مشاعرے بھی اسی منتخب سلسلے کی ایک کڑی ہیں جو گزشتہ سترہ برس سے ہر سال اپریل کے پہلے ہفتے میں منعقد ہوتے ہیں۔

کوئی تین ہفتے قبل مجھے دہلی میں ’’جشن ریختہ‘‘ کے حوالے سے ہونے والے ایک مشاعرے میں شرکت کا موقع ملا تھا۔ جو بلا شبہ اپنے منتخب شاعروں اور سامعین کی وجہ سے ایک یادگار مشاعرہ تھا لیکن 3 اپریل کو کامنا پرساد کا ترتیب دیا ہوا مشاعرہ اس سے بھی آگے کی چیز تھا کہ یہاں ہمارے سامنے بیٹھے سامعین کی تعداد چار ہزار سے زیادہ تھی جب کہ بہت سے لوگ اسے اردگرد لگی بڑی اسکرینوں کے ذریعے براہ راست دیکھ اور سن رہے تھے۔ صدارت مشہور صحافی اور بزرگ دانش ور کلدیب نیئر نے کی تھی اور مہمان خصوصی علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے جو ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل تھے۔ ثابت ہوا کہ فوجی جرنیلوں کو تعلیمی اداروں کا سربراہ بنانے کا ٹھیکہ صرف ہمارے پاس ہی نہیں ہے۔

کامنا پرساد کے ان مشاعروں کے علاوہ مجھے بھارت میں 1981ء سے لے کر اب تک انبالہ، سہارنپور، حیدر آباد، اودھے پور، بنگلور، ممبئی، پونہ اور آگرہ میں بھی مشاعرے پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے جب کہ دہلی میں ہونے والے DCM (دہلی کاٹن ملز) کے سالانہ مشاعروں میں کئی بار دعوت کے باوجود میں کسی نہ کسی مجبوری کے باعث شریک نہ ہو سکا۔ کم و بیش یہی صورت حال محترمہ کامنا پرساد کے مشاعروں کے ساتھ بھی رہی کہ ہر بار مجھے کسی پیشگی مصروفیت کی وجہ سے معذرت کرنا پڑی جس کا افسوس اس لیے بھی رہا کہ ان مشاعروں میں شرکت کرنے والے جس بھی دوست سے بات ہوئی اس نے ان کے معیار، انتظامات اور حسن سلوک کے بارے میں بہت اچھے جذبات کا اظہار کیا جو بوجوہ ایک کمیاب شے ہے۔

اس سفر میں میری بیگم بھی میرے ساتھ تھیں۔ اگرچہ چند برس قبل وہ ایک بار بھارت کا سفر کر چکی ہیں لیکن وہ سارے کا سارا فضائی پروازوں کے واسطے سے تھا جب کہ ان کی خواہش بھارت کو زمینی راستے سے دیکھنے کی تھی۔ سو طے ہوا کہ ہم واہگہ بارڈر کے ذریعے بھارت میں داخل ہوں اور جی ٹی روڈ پر سفر کرتے ہوئے دہلی پہنچیں مگر ہوا یہ کہ جس سے بھی بات کی اس نے اس آئیڈیے کی مخالفت کی کہ سفر بہت لمبا اور تھکا دینے والا ہے۔ آپ اس کے بجائے امرتسر سے شتابدی ٹرین کے ذریعے دہلی جائیں جو بہت عمدہ اور آرام دہ ہے اور چھ گھنٹے میں آپ کو دہلی پہنچا دے گی۔ ہم نے بالآخر احباب کی رائے سے اتفاق کر لیا لیکن روانگی سے چند گھنٹے قبل بذریعہ ای میل کامنا پرساد کے دفتر سے بھجوائی گئی جو ٹکٹ ہمیں ملی وہ Spice Jet ایئرلائن کے ذریعے فضائی سفر کی تھی۔

معلوم ہوا کہ شتابدی پر ہمارے نام ویٹنگ لسٹ میں تھے اور منتظمین کوئی رسک لینے کو تیار نہ تھے کیونکہ دو اپریل کی شام چار بجے پاکستانی ہائی کمیشن دہلی نے میرا ایک لیکچر بھی رکھا ہوا تھا۔ یار دوستوں نے بارڈر کی کارروائیوں کی طوالت سے بہت ڈرایا ہوا تھا۔ سو عزیزی رحمن فارس کے توسط سے متعلقہ انچارج سعدیہ منیب اور ان کے اسٹاف سے رابطہ کیا گیا جنہوں نے بڑی محبت اور توجہ سے ہمیں بھارتی علاقے تک پہنچا دیا۔ اتفاق سے ہمارے فوراً بعد ایک بڑا سا گروپ تھا (جسے وہ لوگ جتھہ کہہ کر پکار رہے تھے) سو ہمیں ان سے پہلے امیگریشن ایریا میں بھجوادیا گیا جہاں اس وقت ’’گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے‘‘ کاسا منظر تھا چیکنگ کے مختلف مراحل یوں تو آسانی سے گزرگئے، مگر اندر آتے ہی پولیو کے سرٹیفکیٹ ہونے کے باوجود اس کے قطرے پینا پڑے کہ وہ لوگ اپنے علاوہ کسی کے سرٹیفکیٹ کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔

کامنا پرساد کی بھجوائی ہوئی گاڑی باہر ہماری منتظر تھی۔ اگرچہ میں 34 برس پہلے بھی ایک بار اس سڑک سے گزر چکا تھا لیکن کسٹم ہاؤس کی عمارت سمیت کوئی چیز پہچان میں نہیں آ رہی تھی۔ مقامی میزبان نمایندے منیس جھا سے مشورے کے بعد ہم نے ’’جیسا دیس ویسا بھیس‘‘ کے اصول کے تحت فیصلہ کیا کہ دوپہر کا کھانا امرتسر شہر میں ’’بھراواں دا ڈھابہ‘‘ پر کھایا جائے جس کا مشورہ برادرم عازم کوہلی بھی دے چکے تھے۔ گزشتہ اسفار کے دوران بھی ڈھابوں پر کھانے کا تجربہ ہو چکا تھا لیکن وہ سب کے سب ہمارے جی ٹی روڈ پر واقعہ ٹرک ہوٹلوں کی طرح سرراہ کیفے تھے جب کہ یہ ڈھابہ شہر کے عین وسط میں ایک پرہجوم چوک کے کنارے واقع تھا۔

صفائی کا معیار تو بس واجبی سا تھا مگر کھانا سادہ گرم اور مزیدار تھا۔ ہمارے حساب سے کتابوں کے وزن کے باوجود ہمارا سامان مطلوبہ گنجائش کے اندر تھا مگر Spice jet کے کاؤنٹر پر موجود خاتون کا خیال ہم سے مختلف تھا کہ وہاں لوکل فلائٹ پر پندرہ کلو فی کس وزن کی اجازت تھی اس عفیفہ نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے ہم سے تیرہ کے بجائے صرف آٹھ کلو گرام کا اضافی کرایہ مبلغ دو ہزار روپے وصول کیا اور ساتھ ہی وضاحت بھی کر دی کہ اس رعایت کی ایک وجہ ہمارے ساتھ دستی سامان کا نہ ہونا بھی ہے۔

دہلی میں ہمارا قیام اسلامک سینٹر میں تھا جو لودھی روڈ پر واقع ہے اور جس کے ساتھ ہی انڈیا انٹرنیشنل سینٹر اور ہیبی ٹاٹ سینٹر واقع ہیں جن کا ذکر میں بیگم اختر ایوارڈ اور جشن ریختہ سے متعلق کالموں میں کر چکا ہوں۔ معلوم ہوا کہ ہمارے علاوہ پاکستان سے کشور ناہید اور عنبریں حسیب عنبر اور چین سے چانگ شی سوانگ عرف انتخاب عالم پہنچ چکے ہیں جب کہ کینیڈا سے اشفاق حسین، امریکا سے ڈاکٹر عبداللہ اور سعودی عرب سے عمر سالم العیدروس پہنچا چاہتے ہیں۔

پاکستان ہائی کمیشن کے افسران عدیل پرویز اور انوار الزماں مسلسل رابطے میں تھے۔ سو ان سمیت ہائی کمشنر عبدالباسط اور ڈپٹی ہائی کمشنر منصور احمد خان صاحب اور باقی افسران اور ان کی بیگمات سے بھی دیگر مہمانوں سمیت لیکچر سے پہلے اور بعد میں خوب ملاقات رہی اور یوں لگا جیسے کچھ دیر کے لیے زمان و مکان کی گردش رک سی گئی ہو رات کو انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں کامنا پرساد کی طرف سے کھانا تھا وہاں ان کے شوہر راکیش صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جو اپنی بیگم ہی کی طرح خوش اخلاق تھے وہ مختلف ملکوں میں بھارت کے سفیر رہ چکے ہیں۔

مشاعرہ ڈی پی ایس اسکول متھرا روڈ کے وسیع و عریض گراؤنڈ میں تھا جس کے ایک ملحقہ لان میں مہمان شعرا کے ساتھ Meet the Press سیشن کا اہتمام کیا گیا تھا جہاں ہر طرف کیمرے ہی کیمرے نظر آرہے تھے۔ سو انٹرویوز کی بھر مار میں چائے تو کیا پانی تک پینے کی فرصت نہ مل سکی۔ معلوم ہوا کہ بہت سارے چینل اس مشاعرے کی کوریج کر رہے ہیں اور کچھ تو اسے پورے کا پورا ریکارڈ کر رہے تھے۔

پنڈال کی آرائش اور روشنیاں تو دیدنی تھیں ہی مگر سب سے اچھی بات یہ تھی کہ نہ صرف مشاعرہ عین اعلان کردہ وقت کے مطابق شروع ہوا بلکہ اس وقت تک تقریباً دو ہزار سامعین اپنی اپنی نشستیں بھی سنبھال چکے تھے۔ کامنا پرساد کی فصیح و بلیغ گفتگو اور لہجے کی صفائی اور سلاست نے ابتدا ہی میں سامعین کو مسحور کر دیا جب کہ رہی سہی کسر صاحب صدر کلدیب نیئر کے تاریخی پس منظر، دانش اور جذبات سے پر خطبے نے پوری کر دی جو سرتا سر دونوں ملکوں کے درمیان محبت اور بھائی چارے کی خوشبو میں ڈوبا ہوا تھا۔

مہمان خصوصی وائس چانسلر علی گڑھ یونیورسٹی کی جرنیلی اردو کے بارے میں ناظم مشاعرہ منصور عثمانی کے اس جملے کا سب نے بہت لطف لیا کہ جناب وائس چانسلر کی گفتگو ان کے حالیہ اور سابقہ دونوں مناصب کی ترجمان تھی۔ مشاعرے کے دوران وقتاً فوقتاً موجود اور نئے آنے والے منتخب سامعین کے ناموں کا اعلان بھی کیا گیا جس سے اندازہ ہوا کہ اس وقت اس پنڈال میں دہلی شہر کی کریم جمع تھی۔اس سلسلے کا دوسرا اور آخری مشاعرہ اگلے روز یعنی 4 اپریل کو پٹنہ (بہار) میں تھا جس کی روداد باقی سفر کے احوال سمیت انشاء اللہ اگلے کالم میں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔