ہمارے عرب ’’کفیل‘‘

عبدالقادر حسن  جمعرات 16 اپريل 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

مملکت پاکستان کے کامیاب اداروں کو ٹھکانے لگانے کی پرانی خواہش کی تکمیل کا آغاز ہو گیا ہے اور ایک بڑے ادارے کو فروخت کر دیا گیا ہے۔ میں چونکہ رپورٹنگ عملاً ترک کر چکا ہوں اس لیے آپ کو یہ نہیں بتا سکتا کہ اس ڈیل میں کس کو کتنا حصہ ملا لیکن جس کو جتنا بھی ملا ناقابل یقین حد تک ملا کیونکہ اتنے بڑے ادارے کی ڈیل بھی اتنی ہی بڑی تھی۔

ہمارے جیسے عام پاکستانی تو کئی جنم بھی لے لیں تب بھی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔یہ ڈیل ہو یا آنے والی کوئی دوسری ڈیل کمال ہے کہ سب کچھ علانیہ ہو رہا ہے اور ملک کی معاشیات اور کاروباری دنیا کو نیلام پر چڑھا دیا گیا ہے۔ اعتراف کرنا پڑے گا ایسی سودا بازیوں کی تکمیل کرنے والوں کی جرات کا۔ اب یوں لگتا ہے کہ بعض لوگوں کی یہ بات درست ہے کہ پاکستان کو اب ٹکڑے ٹکڑے کر کے بیچا جا رہا ہے۔ پورے پاکستان کا کوئی گاہک موجود نہیں اس لیے مجبوراً یہ کام قسطوں میں ہو رہا ہے اور پہلی قسط پاکستانیوں کی خدمت میں پیش کر دی گئی ہے۔

مملکت خداداد پاکستان کی قسمت میں تقسیم لکھ دی گئی ہے۔ پہلے اس ملک کا ایک حصہ پورے کا پورا الگ کر دیا گیا۔ اس کی جو وجوہات بھی تھیں ایک علانیہ وجہ ایک لیڈر کی وزارت عظمیٰ کی بار بار ظاہر کی گئی خواہش تھی جو تقسیم سے ہی پوری ہو سکتی تھی کیونکہ اکثریت مشرقی پاکستان میں آباد تھی اور اس کا لیڈر شیخ مجیب الرحمن تھا۔

اس سیاسی حریف کو ٹھکانے لگانے کے لیے اس کی پوری آبادی کو ہی ٹھکانے لگا دیا گیا نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ پاکستان کی بڑی تقسیم کا پہلا واقعہ تھا اب اس کی چھوٹی موٹی تقسیم کا سلسلہ شروع ہو رہا تھا۔ یوں تو جب بھی کسی ادارے کی توڑ پھوڑ کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ وہ نقصان میں جا رہا ہے اس لیے اس کی فروخت سے ملک اس ادارے کی نقصان رسانی سے بچ جائے گا۔ تعجب ہے کہ کل تک جو ادارے نفع میں جا رہے تھے وہ اچانک نقصان میں چلے گئے ہیں۔

تازہ مثال اس بڑے ادارے کی ہے اور اسی ادارے میں میرا اکاؤنٹ بھی ہے۔ میاں صاحب نے اپنے ایک سابقہ اقتدار میں غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹ والوں کو آن واحد میں ’کنگال‘ کر دیا تھا اور یہ اکاؤنٹ ضبط ہو گئے تھے خطرہ ہے کہ اب مقامی کرنسی کے اکاؤنٹ بھی ضبط ہو جائیں اور میں اپنے دوستوں سے قرض مانگتا پھروں اور میرے جیسے فُقرے کو قرض کون دیتا ہے۔

تنخواہ کم رہی یا زیادہ قرض کبھی نہیں لیا۔ اُس وقت بھی جب میری ماہوار تنخواہ ایک سو بیس روپے تھی اور اِس وقت بھی جب میری تنخواہ جتنی بھی ہے میں یہ بتاؤں گا نہیں، قرض نہیں مانگتا مگر میاں صاحبان کا کیا پتہ وہ ہمیں قرض مانگنے کے قابل بھی نہ چھوڑیں۔ میری میاں صاحب کے ساتھ بہت پرانی نیاز مندی ہے جو ان کی جلا وطنی پر معطل ہو گئی ہے نہ جانے کیوں لیکن بہر حال اس وقت یہ سکتے میں ہے حالانکہ ان کی جلاوطنی میں میرا ذرہ بھی قصور نہیں تھا اور قصور ہو بھی کیسے سکتا تھا کیونکہ میں کسی بھی صورت میں اس قابل ہر گز نہیں تھا کہ ان کا بال بھی بیکا کر سکتا۔

یہ بال بیکا کرنے کی بات محاورتاً عرض کی ہے ورنہ ایک مزدور کارکن صحافی کی جو وقعت ہوتی ہے وہ کون نہیں جانتا میری ایک پاکستانی کی کیا میرے پاکستان کی وقعت بھی جتنی ہے وہ ہمیں ہمارے کرمفرما اور ان داتا قسم کے دوستوں نے بتا دی ہے۔ جب ہاتھ پھیلاؤ گے تو جو سامنے والوں کی مرضی وہ اس میں کچھ نقد ڈالتے ہیں یا جوتا۔ فی الوقت تو ایک ٹوٹا ہوا جوتا ڈال دیا ہے جسے ہم نے تبرک کے طور پر سنبھال کر رکھ لیا ہے۔

ایک بات اب تک میری سمجھ میں نہیں آئی اور اب ایک ایٹمی طاقت بننے کے بعد تو بالکل ہی میری سمجھ سے باہر ہے کہ ہم کسی سے بھی مانگتے کیوں ہیں۔ ہم اگر کرپشن سے بچ جائیں ہم دیانت کے کسی کمزور سے درجے پر ہی رہ جائیں تو پھر بھی ہم ایک غریب ملک نہیں ہیں جو کسی دولت مند سے مانگتا پھرے۔ ہمیں تو ہمارے بڑوں نے غریب بنا دیا ہے اور بنائے چلے جا رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہمیں بھگتنا پڑتا ہے۔

ہمارے لیڈر تو ماشاء اللہ غریبی جانتے ہی نہیں ہیں اور ہماری جتنی بے عزتی بھی ہوتی ہے وہ ہم غریبوں کی ہوتی ہے کیونکہ عزت و بے عزتی کا احساس صرف ہم غریبوں کے پاس ہے ہمارے بڑوں کے پاس ایسی باتوں سے پریشان ہونے کا وقت ہی نہیں ہے۔ ہم پاکستانی انتظار کرتے رہے کہ عرب ملکوں کے اتحاد کے ایک وزیر اپنی بات پر شاید کچھ پریشان ہوں گے یا سیاسی قسم کا کوئی عذر پیش کر دیں گے لیکن انھوں نے اپنے ان بھکاریوں کی طرف مڑ کر دیکھا بھی نہیں ۔ اگر کسی نے ان کے ردعمل کا بتایا ہے تو ایک قہقہہ لگا کر منہ دوسری طرف کر لیا ہے۔

ہم پاکستانیوں کو معلوم ہے کہ ہمارے جو لوگ محنت مزدوری یا نوکری کے لیے عرب ملکوں میں جاتے ہیں ان کا پاسپورٹ ان کے عرب مالکان اپنے پاس رکھ لیتے ہیں جنھیں عربی میں کفیل کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص ایک ملازم نہیں غلام کی حیثیت سے یہاں نوکری کر رہا ہوتا ہے اور وہ کسی حال میں بھی آزاد نہیں ہوتا وہ نوکری ترک کر کے واپس بھی آنا چاہے تو یہ صرف کفیل کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ اس کی اجازت دیتا ہے یا نہیں اور اس کا پاسپورٹ یعنی اس کی قانونی دستاویز اسے واپس کرتا ہے یا نہیں۔

جس قوم کے لاکھوں فرد غلامی کی یہ زندگی بسر کر رہے ہوں اور اس پر خوش بھی ہوں اس قوم کی اگر کسی کفیل ملک کا کوئی وزیر بے عزتی کر دیتا ہے تو ہمیں یہ چپ کر کے برداشت کر لینا چاہیے نخرے نہیں کرنے چاہئیں۔ ہماری عزت کا جامہ تار تار کر دینے والے ایک عرب نے اگر کوئی عذر نہیں کیا ہے تو اس نے درست کیا ہے ملازموں بلکہ غلاموں سے معافی کون مانگتا ہے۔

آج ہر پاکستانی اپنے عرب دوستوں کی طرف سے اس توہین پر برہم ہے لیکن اپنی حالت ہم خود ملاحظہ کریں تو ہماری برہمی بے کار ہے اور بلاوجہ ہے۔ ہم نے ان دولت مند عربوں کے سامنے اپنا جو کردار پیش کیا ہے وہ اسی لائق ہے کہ اس کی عزت نہ کی جائے ورنہ یہی عرب تھے جو سال بھر حج کا انتظار کرتے تھے اور حاجیوں کی بخشیش کی امید پر زندہ رہتے تھے۔

حاجی خربوزہ کھا کر جو چھلکے زمین پر پھینک دیتے تھے وہ ان کے منتظر عرب فوراً اٹھا لیتے تھے انھیں چوستے تھے یا گھر لے جا کر انھیں ابال کر کھاتے تھے لیکن یہ تیل سے پہلے کی بات ہے۔ آج وہ ان حاجیوں کی بلا تامل بے عزتی کرتے ہیں لیکن ہماری سرشت میں نہ جانے کیا غلامی بھر دی گئی ہے کہ تیل سے بڑی نعمت ایٹم بم مل جانے پر بھی ہم سب کچھ برداشت کر لیتے ہیں اور گھر بیٹھے بھی کسی عرب کو اپنا کفیل سمجھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔