حاضر سروس شوہر

جاہد احمد  جمعرات 16 اپريل 2015
ریحام خان کی نامزدگی کو تحریکِ انصاف کے کارکنان کو ٹھیک اسی طرح رد کردیا جانا چاہیے جیسا کہ محترمہ مریم نواز کے سلسلے میں کیا گیا۔ فوٹو: فائل

ریحام خان کی نامزدگی کو تحریکِ انصاف کے کارکنان کو ٹھیک اسی طرح رد کردیا جانا چاہیے جیسا کہ محترمہ مریم نواز کے سلسلے میں کیا گیا۔ فوٹو: فائل

خدانخواستہ محترمہ مریم نواز کہیں پنجاب کی صوبائی حکومت کی جانب سے سڑک چھاپ بچوں کے حقوق کی آگاہی کے حوالے سے صوبائی سفیر کی طرز کے کسی عہدے پر نامزد کر دی جاتیں تو پاکستان تحریک انصاف کس حد تک سینہ کوبی کرتی اور آہ و بکا مچاتی یہ تصور کرنا مشکل بات نہیں!

اس لئے اب تصور کیجئے اور دل ہی دل میں مسکرا کر بات وہیں دبا دیجئے گا۔ کیونکہ مسکراہٹ دل سے بڑھ کر ہونٹوں پر پھیلی اورآپ کی بیگم کی نظر کی زد میں آئی تو یقیناً سوال تیر کی طرح اُڑتا چلا آئے گا کہ کیوں صاحب کس کو یاد کرکے مسکرائے جاتے ہیں؟

بیگم خان کی خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے سڑک چھاپ بچوں کے حقوق کی آگاہی کے حوالے سے صوبائی سفیرکے طور پر نامزدگی اور سال سوا سال پہلے تک مریم نواز صاحبہ کی بطور سربراہ یوتھ لون اسکیم تقرری پر خان صاحب کی شعلہ بیانیوں و ’نیپوٹزم‘ کے نعروں میں نظر آنے والا عملی تضاد صرف اتنا ثابت کرتا ہے کہ اب خان صاحب کی حیثیت سیاسی قائد کے ساتھ ساتھ دیگر شادی شدہ حضرات کی طرح ایک عدد حاضر سروس شوہر کی بھی ہے۔

 

اِس فیصلے کہ بعد یہ قیاس بھی مشکل نہیں کہ بیگم صاحبہ کے سامنے خان صاحب کی اتنی ہی چلتی ہوگی جتنی تاریخ کے بڑے بڑے سورماوں سمیت کسی بھی قسم کے شوہروں کی اپنی بیگمات کے سامنے چلتی رہی ہے! بلاشبہ شادی شدہ افراد کے لئے یہ خبرمسکراہٹ کا سبب ہے اور بڑی بڑی باتیں بھگارنے والے غیر شادی شدہ مَردوں کے لئے باعثِ عبرت۔

ریحام خان صاحبہ کی مذکورہ صوبائی سفیر کے طور پر تقرری کیا خان صاحب کی مرتب کردہ ڈکشنری میں ’نیپوٹزم‘ اور لغت کے مطابق ’اقربا پروری‘ کے معنوں پر اب پوری نہیں اترتی؟ جبکہ ابھی چند دن پہلے تک مریم نواز صاحبہ کی تقرری بطور سربراہ یوتھ لون اسکیم وزیراعظم نواز شریف کے لئے اسی نیپوٹزم اور اقربا پروری کی بنیاد پر طعنہ بن چکی تھی۔

 

 

تب بجا طور پر اِس عمل کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے ایک رہنما نے کیس عدالت میں دائر بھی کیا اور پھر اسی دوران درست فیصلہ کرتے ہوئے محترمہ مریم نواز نے اپنے عہدے سے استعفی دے کر مستقبل کے حوالے سے اہلِ اقتدار اور عوام کے لئے اچھی مثال قائم کی تھی۔ اِس فیصلے سے یقینی طور پر مثبت دور کے آغاز کی اُمید دکھائی دینے لگی تھی جہاں مقتدر طبقہ ایسی ناقص روایات کو عوامی و سیاسی سطح پر مخالفت اور ردِعمل کے خوف سے ترک کرنے پر تیار نظر آنے لگا تھا۔

لیکن پھر ہوا یوں کہ انقلاب آیا، چند مہینوں اور ایک عدد ریکارڈ ساز دھرنے کے بعد خان صاحب کی زندگی میں حقیقی تبدیلی آگئی یا سلیس اردو میں یوں کہیے کہ حضرت پھر سے دولہا بن بیٹھے۔ اب کون سا نیپوٹزم اور کہاں کی اقربا پروری! بھلا بیگم کی خواہشات کی تکمیل کبھی نیپوٹزم یا اقربا پروری بھی گردانی جاتی ہیں؟ کم عقل راقم! یہ نیپوٹزم نہیں رن مریدی ہے! رن مریدی۔ بیگم کی خواہشات تو اعلی ظرف شوہر کے لئے حکم کا درجہ رکھتیں ہیں۔ کیونکہ ہر فرمانبردار شوہر یہ جانتا اور مانتا ہے کہ جنت ماں کے قدموں تلے نہیں بلکہ بیگم کے آنچل تلے ہے حضور۔

یقیناً محترمہ ریحام خان کی اس عہدے پر نامزدگی کوپاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنان کی جانب سے ٹھیک اسی طرح رد کردیا جانا چاہیے جیسا کہ محترمہ مریم نواز کے سلسلے میں کیا گیا، مزید براں اُمید کرنی چاہیے کہ حکومتی جماعت کے قائد کی بیگم کی اس حکومتی نامزدگی کو کسی کارکن کی طرف سے کسی بھی طریقے اور کسی بھی بنیاد پر درست عمل نہیں گردانا جائے گا۔ تحریک انصاف کے کارکنان کو اپنے رہنما کے سکھائے ہوئے موتی جیسے رہنما اصولوں ہی کی بنیاد پر ان سے اس بارے ضرور سوال کرنا چاہئے کہ اے رہنما یہ بھی ایک عدد یوٹرن ہے یا کہ نیپوٹزم کی اصطلاح بیگمات پر عائد نہیں ہوتی یا پھر پاکستان تحریک انصاف کو اقربا پروری کے معاملات پر ہر قسم کا استثنٰی حاصل ہے!

 

ضروری ہے کہ کارکنان انقلابی نوعیت کے جوابات وصول کرکے سیر حاصل دلائل تیار کرلیں کیونکہ انہی کارکنان اور پیروکاروں نے روز مرہ کی بنیادوں پر متنوع پلیٹ فارموں سے اپنے لیڈر کے انقلابی احکامات، اقوالِ زریں، پُرمغز فیصلوں اور حیران کن اقدامات کا بھرپور دفاع کرنا ہوتا ہے۔ لیکن کوئی بھی دلیل تیار کرنے سے پہلے یہ خیال کیا جانا بہرحال ضروری ہے کہ حکومتی عہدہ حکومتی عہدہ ہی ہوتا ہے چاہے اختیارات اور کام کے حوالے سے اس کی نوعیت کسی بھی قسم کی ہو!

بیگم خان براڈکاسٹنگ اور میڈیا کے شعبہ میں تجربہ اور اچھی شہرت رکھتی ہیں! اسی لئے اگر انہیں کام کرنے کی خواہش ہے تو پہلے کی طرح اپنا کام جاری رکھ سکتی ہیں اور اگر مقصد سیاست میں شوہر کا ہاتھ بٹانا یا عوامی و سماجی خدمات سرانجام دینا ہے تو بھی کوئی بندش نہیں کیونکہ ان کے پاس یہ امور سرانجام دینے کے لئے اب قابلِ ذکر غیر حکومتی پلیٹ فارم موجود ہیں۔ پر حکومتی جماعت کے قائد کی اہلیہ ہونے کے ناطے ایسی کسی خدمات کے نام پر بھی حکومتی نوعیت کی نامزدگیوں و عہدوں سے دور رہنا اس طور بہتر فیصلہ ہے کہ اقربا پروری کا خاتمہ اور اس مشق سے دوری ان کے شوہر کی پالیسی اور سیاسی لائحہ عمل کا حصہ ہے۔جبکہ عملی طور پر بہت سے حضرات انہی خطوط پر خان صاحب کے عتاب کا شکار بھی ہوئے ہیں۔

بہتر یہی ہے کہ بیگم صاحبہ خان صاحب کے اقوال پر عمل پیرا ہونے کے مقصد سے اور درست روایات کو آگے بڑھاتے ہوئے محترمہ مریم نواز کی طرح اپنی اس نامزدگی سے اصولی بنیادوں پر معذرت کرتے ہوئے صوبائی سفیر کے عہدے سے بجا طور پر سبکدوش ہو جائیں اس بات سے قطع نظر کہ تکنیکی بنیادوں پر وہ اس نامزدگی کے لئے مکمل اہلیت رکھتی ہیں یا نہیں۔

کیا آپ ریحام خان کو بطور بیگم عمران خان سرکاری منصوبوں میں شامل کرنے کے حامی ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

جاہد احمد

جاہد احمد

جاہد احمد ایک لکھاری، ادیب و صحافی ہیں۔ اردو مجلے ماہنامہ "بیاض" کے شریک ایڈیٹربھی ہیں۔ ان سے رابطہ [email protected] پرکیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔