اختر شیرانی

تشنہ بریلوی  جمعـء 17 اپريل 2015
tishna.brelvi@yahoo.com

[email protected]

تقسیم ہند سے دو تین برس قبل لاہور کے وائی ایم سی اے ہال میں ایک بڑا مشاعرہ ہو رہا تھا۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور اسٹیج پر نامور شعراء تشریف فرما تھے اچانک ایک شاعر صاحب پر غشی طاری ہو گئی وہ چند منٹ بعد ایک دوسرے شاعر کے سہار ے ہال سے باہر چلے گئے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ طبیعت کیسے خراب ہو گئی تو موصوف نے فرمایا

’’ میرے یار وہ حسن کا نشہ مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔‘‘
بات یہ تھی کہ کشمیری پنڈت خاندان کی ایک خوبرو خاتون سامعین میں کہیں آگے بیٹھی ہوئی تھیں اور حسن پر ست شاعر کے دل پر بجلیاں گرا رہی تھیں۔

چہرے پہ رقص فرما کشمیر کی بہاریں
حوریں ارم سے آ کر زلفیں تری سنواریں
(تشنہؔ بریلوی)

یہ شاعر تھے محمد داؤ خان ٹونکی یعنی جناب اخترؔ شیرانی جنہوں نے اردو شاعری میں ایک رومانی تحریک کے بڑھانے کے لیے وہ کردار اکیلے ادا کیا جو انگریزی تاریخ میں کیٹس ‘ شیلے اور بائرن نے مل کر ادا کیا تھا۔

اب ذرا ایک اور شخصیت پر نظر ڈالیں۔ خشک اور سخت مزاج استاد تحقیق و تدقیق کے بادشاہ حافظ محمود خان شیرانی یعنی اختر شیرانی کے والد بزرگوار، باپ بیٹے ایک دوسرے کی بالکل ضد تھے مگر دونوں ریاست ٹونک کی طرف سے لاہور اور اردو کے لیے دو قابلِ فخر تحفے تھے۔ حافظ محمود انیس سال لاہور میں اسلامیہ کالج اور اور نٹیل کالج میں فارسی کے پروفیسر رہے۔

افغانستان کے شیرانی قبیلے سے تعلق رکھنے والے اس خاندان کے آباء و اجداد سلطان محمود غزنوی کے ساتھ ہندوستان آئے تھے اور بعد میں راجپوتانہ میں بناس ندی کے کنارے نواب محمد امیر خان کی قائم کردہ چھوٹی سی ریاست ٹونک میں آباد ہوئے۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ شیرانی اور شیروانی دو الگ سلسلے ہیں چونکہ شیروانی خاندانوں کا تعلق داغستان کے ضلع ’’شیروان‘‘ سے ہے اور شیرانی ایک افغان قبیلے کا نام تھا۔

حافظ محمود خان شیرانی نے بہت اہم کتابیں لکھیں مثلاً پنجاب میں اردو، سرمایۂ اردو اور مقالات ِشیرانی وغیرہ۔ اس زمانے میں شبلی نعمانی سے سب مرعوب تھے جنہوں نے ’’موازنہ ٔ انیس و دبیر‘‘ میں سلامت علی دبیر ؔکے ساتھ کچھ زیادتیاں کی تھیں جب کہ دبیر ؔصاحب نہایت باکمال اور پر شکوہ شاعر تھے۔ شبلی کی ایک کتاب ’’’ شعر العجم‘‘ بھی بہت مشہور اور مستند مانی جاتی تھی۔

محمود خان شیرانی نے اس پر نہایت مدلل تنقید لکھی جس کو سب نے سراہا ’’پنجاب میں اردو‘‘ موصوف کا ایک تاریخی کارنامہ ہے انھوں نے ثابت کیا کہ اردو زبان پنجاب میں پیدا ہوئی۔ علامہ اقبال جو مولاناگرامی جالندھری کو اپنا فارسی کلام دکھایا کرتے تھے کبھی کبھی وہ حافظ محمود شیرانی سے بھی مشورہ کر لیا کرتے تھے لیکن ان دو عظیم شخصیتوں کے درمیان قربت پیدا نہ ہو سکی اس لیے کہ دو بلند بالا مینار تو الگ الگ ہی ایستاد ہ رہتے ہیں۔

حافظ محمود شیرانی شیخ عبدالقادر کے مشہور رسالے ’’مخزن‘‘ کے مستقل لکھنے والوں میں شامل تھے۔ انھوں نے شروع میں شاعری بھی کی۔ نظمیں اور غزلیں بھی لکھیں پھر خود کو تدریس اور تحقیق کے لیے وقف کر دیا۔ حافظ محمود کو ایک ہی غم تھا اپنے صاحبزادے داؤد کی ’’آوارہ مزاجی‘‘ اور حد سے بڑھی ہوئی مے نوشی، انھوں نے سختی بھی اختیارکی لیکن بے نتیجہ ۔ 1940ء تک حافظ صاحب لاہور میں رہے۔ پھر ریٹائر ہو کر ٹونک چلے گئے اس لیے کہ وہ اختر سے الگ رہنا چاہتے تھے اور انھیں دریائے روای کی شوخ موجوں کے بجائے بناس ندی کی پرسکون لہروں ہی میں سکون ملا۔

ویسے اختر شیرانی بھی ایک پڑھے لکھے نوجوان تھے ادیب فاضل اور مفتی فاضل وہ ہمدرد اور ’زمیندار‘ کے کالم نگار بھی رہے۔ کئی پرچوں کی ادارت کی جن میں رسالہ ’’رومان‘‘ سب سے زیادہ مشہور ہوا اور اس کے کئی شاندار خاص نمبر نکلے۔

جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے اختر شیرانی قدیم (کلاسیکی) شاعری اور جدید (ترقی پسند) شاعری کے درمیان ایک خوشبوؤں سے لپا ہوا پُل ثابت ہوئے۔ انھوں نے اردو میں Serending Poetry کو متعارف کرایا یعنی نوجوان اپنی محبوبہ (نوجوان لڑکی) سے اپنے عشق کا اظہار کرتا ہے۔ اردو اور فارسی کی روایتی غزل میں تو محبوبہ کے بجائے محبوب ہوتا ہے مگر اختر نے سلمیٰ ‘عذرا اور ریحانہ سے دل لگایا۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے ان کے اس انداز کو بے حد پسند کیا جب کہ ایسا کلام سامنے آیا :

تمہیں ستاروں نے بے اختیار دیکھا ہے
شریر چاند نے بھی بار بار دیکھا ہے
بہار حسن کا تو غنچہ شادا ب ہے سلمیٰ
یہی وادی ہے وہ وادی جہاں ریحانہ رہتی تھی
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

تو اردو شاعر ی میں ایک رنگین باب کھل گیا۔ اخترشیرانی سے جو شعراء متاثر ہوئے وہ یہ ہیںفیض احمد فیض، کرنل مجید ملک (مگر اے حسینۂ نازنیں) احمد ندیم قاسمی‘ ساحر لدھیانوی‘ ظہیر کاشمیری‘ عبدالحمید عدم‘ سیف الدین سیف، گوپال متل‘ سراج الدین ظفر‘ حفیظ ہوشیار پوری‘ واضح رہے کہcominform کی ہدایات کے تحت ترقی پسند وں میں بالشویک غزل کی جو روایت بھی اور تغزل کے خلاف جو تحریک اٹھی اس کا توڑ اختر شیرانی کی شاعری نے کیا اور فیض احمد فیض جیسے شاعروں کو مزدور شاعر بننے سے بچایا۔

اِس عشق نہ اُس عشق پہ نادم ہے مگر دل

یہیں سے ایک راستہ ’’ فلمی غزل‘‘ کی طرف بھی کرتے ہوئے شکیل، مجروح، ساحر، قتیل، سیف وغیرہ نے اتنی بلند پایہ فلمی شاعری پیش کی کہ سارا بر صغیر داد دینے پر مجبور ہو گیا کہاں تو ’’ مارکٹائی مر جانا ‘‘ جیسے گیت سامنے آتے تھے۔ ا ور کہاں ’’زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات‘‘ جیسے دلنشیں اشعار۔ اختر شیرانی کا شکریہ ادا کرو کہ اس نے اردو شاعری کو اتنا تابناک بنایا۔ اختر کے کلام میں کوئی جھول یا کوئی کمزوری ہرگز نہیں تھی اس لیے کہ و ہ زبان و بیان پر پوری قدرت رکھتے تھے۔

ان کے کلام کی دلکشی اور تغزل ہر ایک کو اپنی طرف کھینچتے تھے اور صرف اختر شیرانی سے متاثر ہو کر نہ جانے کتنے نوجوان شاعر بنے۔ جہاں تک اختر شیرانی کی شخصیت کا تعلق ہے تو جب شوکت تھانوی ان سے پہلی بار ملے تو انھیں کسی طرح یقین نہیں آیا کہ وہ رومانی شاعری اختر یہی شخص ہے اس لیے کہ ان کے سامنے ایک ’’کاروباری‘‘ ٹائپ کا شخص کھڑا تھا۔ اختر حسِ مزاح سے عاری نہیں تھے۔ وہ ایک دن صبح صبح اپنے ایک دوست حکیم واسطی سے ملنے گئے وہ دھوپ میں بیٹھے مریضوں کو دیکھ رہے تھے۔ اختر نے فوراً یہ شعر پڑھا:

دھوپ میں بیٹھ کے لوگوں کو دوا دیتے ہیں
کوئی شاعر اگر آئے تو پلا دیتے ہیں

حکیم صاحب مسکرا دیے اور اختر کو کچھ پیسے دے دیے تا کہ وہ اپنا غم غلط کر لیں۔

اختر اپنے باپ کی بے حد عزت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ’’وہ ایک عالم ہیں اور میں ان کا نالائق بیٹا ہوں۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ سلمی نے انھیں رد کیا مزید ستم یہ کہ ان کے صاحبزادے جاوید محمود (زبور) دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کے داماد ڈوب گئے اور ان کے عزیز دوست شیدن نے خود کشی کر لی۔ اس موضوع پر انھوں لکھا

بعد از غم جدائی سلمیٰ مرے لیے
یاد زبور و ماتم شیدن ہے آج کل

حافظ محمود شیرانی 1946ء میں انتقال کر گئے ۔ اختر اس وقت ٹونک میں تھے جب ملک تقسیم ہو گیا خبر اڑ گئی کہ ’’کام آ گئے‘‘ لیکن وہ خیریت سے لاہور آ گئے یہاں بھی زبردست مارا ماری تھی۔ اختر بہت پریشان رہے۔ ستمبر 1948ء میں انھوں نے ظہیر کاشمیری کے ہاتھ سے آخری جام پیا اور ایک دن بعد وہ’’آخری جام‘‘ بھی پی لیا جو ہر ایک کا مقدر ہے۔

زاہد خشک نکل رند بلا نوش سنبھل
اختر شیرانی کی محبوبہ ’سلمیٰ‘‘ خیالی تھی یا کوئی حقیقی شخصیت ‘ کون جانے مگر یہ بھی ہوا کہ چادر میں لپٹی ہوئی ایک اجنبی خاتون اخترکی میت پر ان کا چہرہ دیکھنے آئی تھی۔

تم کو نہ ملی جان جہاں فرصتِ دیدار
اب ہم جو چلے ساتھ چلی حسرتِ دیدار

ریاست ٹونک سے آنے والی علمی و ادبی شخصیات پاکستان میں بہت سرگرم رہی ہیں۔ مسعوداحمد برکاتی صاحب سے لے کر پروفیسر عنایت علی خان تک یہ بھی سب ٹونک کے تحفے ہیں۔ حافظ محمود شیرانی اور اختر شیرانی جیسے دو عظیم تحفوں کی طرح ( اختر شیرانی کے ایک اور بیٹے مظہر محمود شیرانی بھی بہت کام کر رہے ہیں۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔