کوّا اور کھوتا حلال یا حرام

عبدالقادر حسن  ہفتہ 18 اپريل 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

کوئی تیرھویں صدی عیسوی میں جب ہلاکو نے بغداد پر حملہ کر کے اس کو برباد اور تاراج کر دیا تو اس وقت مسلمانوں کی خلافت کے اس دارالحکومت میں علماء کی کونسل میں یہ بحث جاری تھی کہ کوا حلال ہے یا حرام۔ اس کا فیصلہ آج تک نہیں ہو سکا کیونکہ اس مشکل شرعی مسئلے کو حل کرنے کا موقع نہ مل سکا اور جاہل ہلاکو نے علمائے کرام کا مسئلہ ہی حل کر دیا اور کوے کی حلت و حرمت کا معاملہ بیچ میں ہی رہ گیا تھا البتہ خلافت کا مسئلہ حل ہو گیا علماء کرام کے مسئلے کی طرح۔

ان دنوں عالم اسلام کے سب سے اہم ملک پاکستان کے ایک بڑے شہر میں بھی علماء کرام کوے کی طرح ایک اور جاندار یعنی گدھے کے حلال و حرام کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں اگرچہ کوئی ہلاکو نہیں جو انھیں خاموش کرا سکے تلوار سے ان کے تمام مسئلے حل کر دے لیکن اس لاینحل مسئلے کے لیے کسی ہلاکو کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے۔

اس وقت دنیا میں کوئی 56 کے قریب مسلمان ملک موجود ہیں جن میں علماء کرام کی بھاری تعداد سرگرم علم ہے اگر آج کا یہ مسئلہ جو پاکستان کو درپیش ہے ان علماء کے سامنے پیش کیا جائے تو ممکن ہے وہ ہم حلال خور مسلمانوں کی کوئی رہنمائی کر سکیں ورنہ صرف پاکستان کے علماء تو اس مشکل شرعی مسئلے کے حل میں بے بس نظر آتے ہیں چنانچہ وہ خاموش ہیں اور کوئی رائے ظاہر نہیں کر رہے۔

پاکستان کے حلال و حرام میں تمیز کرنے والے مسلمان شہری اضطراب اور گومگو کی کیفیت میں ہیں وہ اپنی تسلی کے لیے زیادہ سے زیادہ جو کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ گوشت فروش قصاب سے پوچھیں کہ یہ گوشت بکرے کا ہے یا گدھے کا، جواب ظاہر ہے کہ یہ گوشت خالص بکرے کا ہے لیکن کسی بھی دن کے اخبار میں خبر چھپتی ہے کہ آج کتنے لوگ کسی گدھے کی کھال اتارتے پکڑے گئے اور نہ جانے کتنے لوگوں نے اس کھال کے اندر گوشت کو بکرے کا گوشت بنا کر قصاب کو بیچ دیا جو اس نے مناسب سودا بازی کے بعد خرید لیا تاکہ لاہور کے گوشت خوروں کے کام و دہن کی تسکین کر سکے۔

اب جب آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہیں تو خدا جانے آپ کے معدے میں کس کا گوشت ہے اور وہ حلال ہے یا حرام بکرے کا ہے یا گدھے کا۔ اس حلت و حرمت کا فیصلہ تو سات آٹھ سو برس پہلے بھی نہیں ہو سکا تاآنکہ ہلاکو نے یہ مسئلہ ہی سرے سے ختم کر دیا یعنی جن علماء نے مسئلہ پیدا کیا تھا وہی نہ رہے تو پھر یہ مسئلہ کہاں رہتا۔ اگر ہمارا کوئی وزیر خارجہ ہوتا تو ہم اس کی خدمت میں عرض کرتے کہ وہ کوئی چھوٹے بڑے 56 مسلمان ملکوں کے سامنے ہم پاکستانیوں کا یہ مسئلہ پیش کریں۔

ممکن ہے ان کے علماء کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل موجود ہو جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پاس نہیں ہے مگر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ یکایک پیدا کیسے ہو گیا اور وہ کون ایسے ذہین لوگ تھے جن کے ذہنوں میں یہ نادر خیال پیدا ہوا اور انھوں نے پاکستانیوں کے لیے گدھے کے گوشت کو زیادہ مفید اور مناسب پایا۔ کاروباری لحاظ سے تو اس کا جواب ہی نہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ایک گدھے کی کھال پانچ چھ سو روپے میں بک جاتی ہے اور گوشت الگ، اگر بکرے کا بنا کر بیچا جائے تو مٹن آج سب سے مہنگا گوشت ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس گوشت کو کھانے والے بھی بہت ہیں جو رفتہ رفتہ گدھا بنتے جا رہے ہیں۔

قوموں پر بڑے بڑے مشکل وقت آتے ہیں مثلاً ایک مشکل وقت تو یہی تھا کہ جب بغداد میں کوے کے حلال و حرام کی بحث چل رہی تھی کہ اوپر سے ہلاکو نازل ہو گیا تھا اس نے سروں کے جو مینار بنائے تھے ان میں ہو سکتا ہے علماء کے چند سر بھی جوڑ دیے ہوں۔

پاکستان میں گدھے کے گوشت کی فروخت کا سلسلہ کئی دنوں سے چل رہا ہے بلکہ اب تو اس پر کئی ہفتے گزر گئے ہیں لیکن نہ پولیس نے اس مسئلے پر توجہ دی ہے نہ ہی ہماری حکومت نے اس طرف مڑ کر دیکھا ہے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت نے اسے اپنا مسئلہ بنایا ہے چنانچہ یہ سب چل رہا ہے اور ہم لاہوری گدھے کا گوشت بھی کھاتے چلے جا رہے ہیں اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو کہیں ہمارے اندر گدھے کی خصوصیات اور صفات بھی پیدا ہونی شروع نہ ہو جائیں۔

ویسے ہم سوجھ بوجھ کے معاملے میں تو پہلے سے ہی گدھے بن چکے ہیں اور حکومتیں ہمارے ساتھ جو سلوک بھی کریں ہم بسر و چشم اسے قبول کر رہے ہیں۔ اس سلوک میں گدھے کا گوشت ہی سہی۔ زندہ گدھا ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ ہمارے کتنے ہی وزنی بھاری کام یہ گدھا کر رہا ہے۔ ہمارے ایک مشہور افسر تھے ممتاز حسن۔ یہ کسی وزارت کے ایڈیشنل سیکریٹری تھے کسی نے ان سے پوچھا کہ سیکریٹری تو ہوتا ہے لیکن یہ ایڈیشنل سیکریٹری کیا ہوا۔

اس پر انھوں نے جواب دیا کہ تم لوگوں نے ریڑھا کھینچتے ہوئے کسی گدھے کو دیکھا ہو گا اس کے ساتھ ایک چھوٹا گدھا بھی باندھ دیا جاتا ہے جو گدھا گاڑی کے ساتھ ساتھ چلتا ہے بڑا گدھا یہ سمجھتا ہے کہ یہ گاڑی میں نہیں یہ چھوٹا گدھا کھینچ رہا ہے۔ اس چھوٹے گدھے کو پخ کہاجاتا ہے بس یہ ایڈیشنل سیکریٹری بھی پخ ہوتا ہے کہ آگے آپ خود سمجھ لیں۔ یہ گدھے کی بے وقوفی کی ایک مثال ہے جو اس معصوم جانور کی بے شمار حماقتوں میں سے ایک ہے۔کسی انسان کو سمجھ بوجھ سے فارغ کہنا ہو تو اسے گدھا کہہ دیتے ہیں جس کے بعد وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

گدھا خدا نے ایک ایسا جانور بنایا ہے جو انسانوں کی صفات بھی رکھتا ہے مثلاً یہ خوب مار کھاتا ہے عوام کی طرح۔ بھوک بھی برداشت کرتا ہے عوام کی طرح، دن رات کام بھی کرتا ہے عوام کی طرح، ہر قسم کی گالیاں بھی کھاتا ہے عوام کی طرح، ہر قسم کی جسمانی مشقت بھی برداشت کرتا ہے عوام کی طرح اور جہاں اسے باندھ دیا جاتا ہے وہاں بڑی تابعداری سے کھڑا رہتا ہے۔

عوام کی طرح، غرض اس میں عوام کی بہت ساری خصوصیات ہوتی ہیں وہ جو مشہور محاورہ ہے کہ عوام  کالانعام یعنی عوام جانوروں کی طرح ہیں تو یہ محاورہ بھی غالباً گدھے کی خصوصیات کو سامنے رکھ کر وضع کیا گیا ہے اور ہم پاکستانی اگر اس کی کھال بھی بیچتے ہیں اور گوشت بھی تو ٹھیک کرتے ہیں۔ گدھے کے ساتھ یہی سلوک مناسب ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔