بزدل، گیدڑ دل اور بھیڑ دل

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 18 اپريل 2015
barq@email.com

[email protected]

اگر ہمارا یہ عقیدہ نہ ہوتا کہ ’’خطائے بزرگان گرفتن خطاست‘‘ یعنی بزرگوں کی غلطیاں پکڑنا غلط ہے تو اردو میں ایسے بہت سارے محاورے روز مرے لاحقے سابقے اور کہاوتیں ہیں جو ہمیں کچھ زیادہ ٹھیک نہیں لگتے، مثلاً یہ جو ڈرپوک آدمی کے لیے ’’بزدل‘‘ کا لفظ وضع کیا گیا ہے۔

اس سے ہمیں بالکل بھی اتفاق نہیں ہے اس کی جگہ بہترین لفظ تو ’’گیدڑ دل‘‘ ہے جو شیر دل کے مقابلے میں جچتا بھی ہے لیکن گیدڑ چونکہ صحرائی جانور ہے اور سیاسی لیڈروں کی طرح آبادی اور شہروں میں نہیں پایا جاتا ہے اس لیے بہت سارے لوگوں کو ناراض کرنے سے بہتر ہے کہ گیدڑ دل کا لفظ استعمال نہ کیا جائے لیکن بزدل کا لفظ بھی کچھ زیادہ صحیح نہیں ہے کیونکہ ’’بز‘‘ یعنی ’’بکرا بکری‘‘ اتنے زیادہ ڈرپوک بھی نہیں ہوتے، بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ بکری کے ایک چھوٹے سے بچے نے بھی شیر جیسے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق بلند کیا، ٹھیک ہے نتیجے میں وہ شیر کے پیٹ میں پہنچ گیا تھا لیکن حق گوئی اور بہادری کی تاریخ تو رقم کر گیا۔

اب بات آگئی ہے تو لگے ہاتھوں اس غزل کا مطلع بھی ہو جائے جس میں ہم نے اپنی طرف سے تھوڑی سی اصلاح بھی کی ہوئی ہے کیونکہ اصل مطلع میں پرانے خیالات کے اس شاعر نے ’’محبت‘‘ کا ذکر کیا تھا جو فی زمانہ مفقود و متروک ہو چکی ہے، اصلاح شدہ صورت میں مطلع یوں ہے کہ

سیاست کرنے والے کم نہ ہوں گے
مگر وہ اتنے ’’چیونگم‘‘ نہ ہوں گے

اس غزل میں ایک اور شعر بھی بڑے کمال کا ہے جو کافی دیر سے بنچ پر کھڑا ہو کر ہاتھ ہلا رہا ہے اور اپنی طرف اشارہ کر رہا ہے کیونکہ اس شعر میں جس ’’کام‘‘ کا ذکر ہے وہ آج کل قدم قدم پر ہو رہا ہے ابھی پچھلے دنوں بمقام اسلام آباد اس کا ایک بہت بڑا ’’مظاہرہ‘‘ ہو چکا ہے جس پر بعد میں ایک ملک گیر مشاعرہ بھی بمقام پارلیمان برپا ہوا تھا چلیے شعر سن لیجیے

’’دلوں‘‘ کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ ’’مک مکے‘‘ باہم نہ ہوں گی

پھر وہی بات ہوئی ذکر ہم نے لفظ ’’بزدل‘‘ کا شروع کیا تھا اور بات ’’لیڈر دل‘‘ تک پہنچی (کمپوزر سے عرض ہے کہ ’’دل‘‘ کا حرف دھیان سے اور صاف صاف کمپوز کرے کہیں آگے پیچھے ہو کر کچھ اور نہ بن جائے) کہنا ہم یہ چاہتے تھے کہ ڈرپوک کے لیے بزدل کا لفظ بالکل موزوں نہیں ہے کیونکہ ہم نے ’’بکریاں‘‘ اور بکرے بہت پالے ہیں جو ڈرپوک بالکل بھی نہیں ہوئے ہر فصل اور پیڑ پودے پر بڑے بہادرانہ انداز میں حملہ آور ہوتے ہیں بلکہ ہر پیڑ پودے پہ منہ مارنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ڈرپوک کے لیے بزدل کا لفظ اگر موزوں نہیں ہے اور گیدڑ دل اس لیے درست نہیں کہ گیدڑ شہروں میں، بازاروں میں، بستیوں میں اور جلسے جلوسوں میں نظر نہیں آتے تو بزدل کا دوسرا متبادل لفظ کیا ہو، تو ہم ہیں نا ایسا لفظ ہم نے ڈھونڈ لیا ہے بلکہ کولمبس کی طرح دریافت کیا ہوا ہے اور وہ لفظ ہے ’’بھیڑ دل‘‘ کیونکہ بکرے اور بھیڑ تقریباً ایک ہی کیٹیگری کے جانور ہیں دونوں ہی ہر ’’پیڑ پودے‘‘ پر منہ مارتے ہیں دونوں ہی دودھ دیتے ہوئے مینگنیاں ڈالنا نہیں بھولتے جیسے پختونخوا نام کے دودھ میں خیبر نام کی ایک مینگنی ڈالی گئی تھی۔

لیکن سب سے بڑی دلیل جو ’’بز‘‘ کے بجائے بھیڑ کے حق میں جاتی ہے یہ ہے کہ کسی بھی تاریخ یا افسانے میں ’’بکری‘‘ کی بزدلی کا ذکر موجود نہیں ہے جب کہ بھیڑ کی نسل میں بزدلی کا تاریخی ثبوت موجود ہے، ظاہر ہے کہ آپ تب تک نہیں مانیں گے جب تک ہم اس کا باقاعدہ حوالہ نہ دیں اس لیے حوالہ حاضر ہے، علامہ بریانی کی مشہور تصنیف واضح البیان عرف خرافات عالیہ میں لکھا ہے کہ مملکت اللہ داد ناپرسان میں ایک مرتبہ ایک بادشاہ کو اپنے ’’وزیر‘‘ پر سخت غصہ آیا۔

جواب میں بادشاہ کے غصے پر پیار آیا لیکن بادشاہ کا شاہی غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا اور اس نے حکم دیا کہ وزیر کا سر پہلے قلم کیا جائے پھر فوٹین پن کیا جائے اور بعد ازاں بال پن یا پوائنٹر کر دیا جائے، نزدیک تھا کہ بادشاہ کے جلاد حرکت میں آتے اور وزیر کا سر اسٹیشنری کا بنا دیتے وزیر نے دست بستہ گزارش کی کہ میں آپ کے والد محترم کا نمک کھا چکا ہوں، اب آپ اگر اپنے والد محترم کا نمک بہانا ہی چاہتے ہیں تو کم از کم کوئی ایسا قانونی جواز تو پیدا کیجیے کہ میرے قتل سے آپ کی بدنامی نہ ہو۔

بادشاہ سلامت نے فوراً اپنے پیر الدین شریف زادہ کو حکم دیا کہ قانون کی مکمل تلاشی لے کر کوئی جواز نکال لو۔ پیر الدین شریف زادہ کے لیے یہ کام کیا مشکل تھا کیونکہ اس کا تو پیشہ ہی آئین کی مرغیوں سے، چوزوں کے انڈے اور پھر ان انڈوں سے چوزے نکالنا تھا، مطلب یہ کہ اس کا اپنا ایک آئینی و قانونی پولٹری فارم تھا چنانچہ نظریہ ضرورت نامی مرغی کو اس نے ہشکارا تو اس کے نیچے قانونی جواز کا انڈا موجود تھا جو یہ تھا کہ وزیر کو ایک عدد دنبہ دیا جائے اور سرکاری نگرانی میں روزانہ ایک سیر چنا اس دنبے کا راتب مقرر کیا جائے اور وزیر کو پابند کیا جائے کہ ایک سال میں اس دنبے کا وزن اتنا ہی رہے جتنا اب ہے۔

بادشاہ کے حکم پر فوراً عمل درآمد ہو گیا ایک دنبہ تول کر وزیر کے حوالے کیا گیا اور ایک کوتوال کی ڈیوٹی لگا دی گئی کہ وہ اپنے سامنے دنبے کو ایک سیر چنے وزیر کے ہاتھ سے کھلوائے، وزیر یہ حکم سن کر گھر آیا تو مارے فکر کے اپنے خاص الخاص غور کی جھلنگی چارپائی میں پڑ گیا اس زمانے میں وزیر چونکہ اکثر ایک ہی ہوتا تھا اس لیے وہ غور کرنے کے لیے گھر میں ایک جھلنگی چارپائی ہمیشہ رکھتا تھا وہ تو بعد میں جب ممالک چھوٹے اور وزیر زیادہ ہو گئے تو جھلنگی چارپائیوں کی جگہ تھنک ٹینک یعنی غور کے حوض ایجاد ہوئے۔

پرانے زمانے کے اکلوتے وزیروں کی ہمیشہ ایک اکلوتی دختر نیک اختر بھی ہوتی تھی جو غور و حوض اور عقل میں اپنے باپ کی بھی ماں ہوتی تھی اور جب بھی وزیر کے غور کا خچر دلدل میں پھنستا وہی بیٹی ہی ٹو چین کر کے اسے نکال دیتی تھی۔ اس وزیر کی بھی ایک ایسی ہی ایک چندے آفتاب و چندے مہتاب بیٹی تھی اس نے فوراً باپ کی پریشانی کو بھانپ لیا، سبب پوچھنے پر وزیر نے اپنی دبدا بتائی کہ آخر ایک سال تک روزانہ ایک سیر چنے کھانے کے باوجود یہ کم بخت دنبہ اتنا ہی رہے گا یہ کوئی پاکستانی لیڈر ہے جو کھائے اور دکھائی نہ دے۔

بیٹی نے کہا بس اتنی سی بات ہے پھر چٹکی بجا کر اس کا حل بھی پیش کر دیا کہ دنبے کو یہاں باندھئے اور نہایت ہی خونخوار کتے کو وہاں باندھئے، پھر دنبے کو کھلایئے اور کتے کو بھوکا رکھئے، کتا بھونکے گا اور دنبے کا کھایا پیا ڈر ڈر کر نکلتا رہے گا اور واقعی جب ایک سال بعد دنبے کو تولا گیا تو وہ پاکستان کی طرح جتنا اٹھاسٹھ سال پہلے تھا اتنا ہی اب بھی نکلا، اس کہانی سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ دنبہ بکرے سے زیادہ ڈرپوک ہوتا ہے اس لیے اگر کسی ڈرپوک کا نام رکھنا ہو تو اسے بزدل کے بجائے بھیڑ دل یا دنبہ دل کہنا چاہیے۔

لیکن آپ تو جانتے ہیں ہم تحقیق کے دھنی ہیں اس لیے صرف ایک حوالے پر نتیجہ نہیں نکالتے بلکہ سیاق و سباق اور تازہ ترین حالات کو بھی مدنظر رکھتے ہیں چنانچہ جو اقتباس ابھی ابھی ہم نے علامہ بریانی عرف برڈ فلو کی کتاب خرافات عالیہ سے پیش کیا ہے اس کی پشتی موجودہ یعنی کرنٹ افیئر سے بھی ہوتی ہے ۔

آج کل بھی ایک دنبہ ویسا ہی ہے جیسا کہ اس وزیر کا دنبہ تھا بلکہ اس سے بھی کچھ بڑھ کر ہے کیونکہ وہ دنبہ تو ایک سال کے بعد تولا گیا ہے اور موجودہ دور کا دنبہ جسے پاکستانی عوام کہا جاتا ہے اٹھاسٹھ سال سے کھائے چلا جارہا ہے لیکن مجال ہے جو ذرا بھر گوشت بھی چڑھے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وزیر کے سامنے صرف ایک ’’کتا‘‘ باندھا گیا تھا اور یہ جو موجودہ پاکستانی دنبہ ہے اس پر چاروں اطراف سے کتوں کی یلغار ہو رہی ہے اور سب سے زیادہ خاص بات یہ ہے کہ یہ کتے بندھے ہوئے بھی نہیں ہیں کیونکہ بعد میں کسی اور پیر الدین شریف زادہ نے کتوں کی جگہ پتھروں کو باندھنے اور کتوں کو کھلا چھوڑنے کا قانون نکالا جس کا ذکر شیخ سعدی اور فیض احمد فیض دونوں نے کیا ہے

ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ وخشت مقید ہیں اور سنگ آزاد

لیکن ’’کتوں‘‘ کے نام سے اگر آپ کا خیال یہاں وہاں بھٹک رہا ہے تو اسے لگا دے دیجیے ہمارا اشارہ مہنگائی بیروزگاری اور لوڈ شیڈنگ وغیرہ کی طرف ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔