وہ قتل میں نے نہیں کیے!

اویس حفیظ  اتوار 19 اپريل 2015
میں ٹارگٹ کلر یا دہشت گرد نہیں میں ایک عام سا بس ڈرائیور ہوں مگر پھر بھی میرا دوست، میرا کنڈیکٹر مجھے اکثر قاتل کہتا ہے۔

میں ٹارگٹ کلر یا دہشت گرد نہیں میں ایک عام سا بس ڈرائیور ہوں مگر پھر بھی میرا دوست، میرا کنڈیکٹر مجھے اکثر قاتل کہتا ہے۔

میں کوئی سیریل کلر، کوئی ٹارگٹ کلر یا دہشت گرد نہیں ہوں، میں ایک عام سا بس ڈرائیور ہوں مگر اس کے باوجود میرا دوست، میرا ہمراہ، میرا کنڈیکٹر مجھے اکثر یہ کہتا ہے کہ میرے ہاتھ 18 بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ۔اس میں کس قدر سچائی ہے یہ فیصلہ آپ میری کہانی سن کر خو دکیجیے گا۔

میں ایک مضبوط اعصاب، تنو مند جسم کا سیدھا سادہ سا آدمی ہوں۔ میٹرک کرنا چاہتا تھا مگر انگریزی کے ایک لازم مضمون ہونے کے باعث کر نہیں پایا۔ ڈرائیونگ کا شوق تھا اور اسی پیشے میں آگیا، یا یوں کہیے کہ اس کے علاوہ اور کوئی کام میرے سے ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اس پیشے میں آیا تو اسے ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور کوشش کی کہ ہمیشہ اپنی محنت سے کما کر کھاوں۔ لہٰذا ایمانداری سے میں نے اپنا کام شروع کردیا اور پہلے ویگن اور اب ایک بس چلاتا ہوں۔

گزشتہ ایک دہائی سے میں سڑکوں پر بس دوڑا رہا ہوں۔ صبح سواریوں کو ان کی منزل تک پہنچانے کی غرض سے میں سٹرک پر آتا ہوں، پھر چاہے طوفان ہو، آندھی ہو، بارش ہو، پیٹرول، سی این جی، ایل پی جی وغیرہ کی ہڑتال ہو یا پھر میری اپنی طبیعت خراب ہو، تو بھی پیٹ کا جہنم مجھے سڑکوں پر آنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

میں ایک مستقل مزاج کا شخص ہوں، میں نے دوران ڈرائیونگ کبھی جلدبازی کا مظاہرہ نہیں کیا۔کبھی سگنل جان بوجھ کر نہیں توڑا، ہاں کبھی رات دیر گئے کی بات ہو یا لوڈشیڈنگ کے باعث سگنل ہی آف ہو یا ٹریفک کانسٹیبل و ٹریفک وارڈن کا اشارہ اَن دیکھا ہوجائے یا سگنل بند ہونے کا علم دیر سے ہوا ہو تو الگ بات ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میں نے کبھی قصداً اشارہ بھی نہیں توڑا اور میں اشارہ توڑوں بھی کیوں؟ مجھے پتہ کہ جو لوگ اشارہ توڑ کر آگے نکلنا چاہتے ہیں، اگلے سگنل سے پہلے ہی میں انہیں زیر کرلوں گا، ہاں! میں اپنی ایک بری عادت کا ذکر کرنا بھول گیا کہ میں تیزرفتاری کا شیدا ہوں بالخصوص جب میں سگنل میں سب سے آگے کھڑا ہوں تو میں سگنل کھلنے پر پوری رفتارسے آگے جاتا ہوں۔ مجھے یہی لگتا کہ رفتار تو مردوں کا ہی خاصہ ہے، یہ جی داری کی علامت ہے مگر احتیاط ملحوظ ہو تو پھر۔ میں نے کبھی اپنی بس میں سواریوں کو بٹھا کر ، سب کی جان ہتھیلی پر رکھ کر تیز رفتاری کا شوق پورا نہیں کیا۔

اب اگر میری ذات کا تصور آپ کے ذہنوں میں راسخ ہوچکا ہو تو میں آپ کو وہ واقعات سناتا ہوں جس کے باعث میرا کنڈیکٹر مجھے الزام دیتا کہ تمھارے ہاتھ پر 18 بے گناہوں کا خون ہے۔
یہ چھٹی کا دن تھا، اس دن اتوار نہیں تھی مگر پھر بھی کوئی چھٹی تھی، دن مجھے اچھے سے یاد نہیں، یہ پتہ ہے کہ یہ چھٹی اچانک اور بلاوجہ آئی تھی۔ جس دن چھٹی ہو اس دن سٹرکوں پر ٹریفک کم ہوتی ہے، مارکیٹیں، دکانیں، اسکول، کالجز، آفس وغیرہ تو بند ہوتے ہیں جس وجہ سے رش کم ہوتا ہے مگر اکثر لوگ سیر و تفریح کی غرض سے بھی باہر نکل آتے ہیں۔

خیر یہ چھٹی کا دن تھا، میں صبح جب اڈے سے بس لیکر نکلا تو اکثر سٹرکوں پر بچے کرکٹ کھیلتے نظر آئے۔ میں انہیں دیکھ کر آگے بڑھ گیا، اچانک ایک سڑک پر دیکھتا کیا ہوں کہ سامنے سے ایک نوجوان لڑکا، بائیک پر ون ویلنگ کرتا ہوا آ رہا ہے اور خطرے کی بات یہ تھی کہ وہ میری سڑک پر تھا جو کہ ون وے کی بھی خلاف ورزی تھی اور وہ میرے بالکل دائیں طرف بائیک چلا رہا تھا۔ میں اسے کسی خاطر میں نہیں لایا اور بس ویسے ہی چلاتا رہا، بلکہ خالی سڑک دیکھ کر رفتار کچھ اوربڑھا دی، وہ لڑکا میری بس پاس سے گزرنے پر سنبھل نہیں پایا اور بس سے ٹکرایا، پھر اس کی بائیک فٹ پاتھ سے ٹکرائی، چونکہ وہ بالکل سامنے سے نہیں ٹکرایا تھا، اس وجہ سے میں دیکھی ان دیکھی کرکے آگے بڑھ گیا البتہ کنڈیکٹر کچھ دیر اسے دیکھتا رہا۔

اگلے دن میرا کنڈیکٹر آیا تو اس کے ہاتھ میں اخبار تھا، جو اس نے میری طرف غصے سے پھینکا، میں نے اخبار اٹھا کر دیکھا تو اس حادثے اور اس سترہ سالہ لڑکے کی ہلاکت کی خبر چھپی تھی، کنڈیکٹر خونخوار نگاہوں سے مجھے گھور رہا تھا۔

بھلا اب آپ خود ہی بتائیے کہ بھلا اس میں میرا کیا قصور تھا؟ وہ لڑکا ایک تو ون ویلنگ کر رہا تھا، پھر ون وے کی خلاف ورزی اور پھر تیسری بات کہ وہ میرے انتہائی دائیں جانب تھا۔ قصور تو اس کا اپنا تھا۔

اگلا قصہ اس حوالے سے کچھ خطرناک ہے کہ اس میں مجھے بھی چوٹیں آئی تھیں ۔ایک دفعہ جب میں انٹر سٹی کے ایک روٹ پر تھا تو ایک چھوٹے سے شہر سے گزرتے ہوئے ایک ڈبل روڈ پر تھا کہ اچانک ایک موڑ پر سامنے سے آکر ایک وین میری بس سے ٹکرائی، مجھے تو اسپتال میں ہی ہوش آیا اور یہ خبر ملی کہ دو ویگنیں آپس میں ریس لگا رہی تھیں، ایک نے موڑ پر دوسری کو اوور ٹیک کرنے کی کوشش کی تو سامنے سے آنے والی بس سے ٹکرا گئی۔ اس حادثے میں 11 افراد ہلاک ہوئے تھے جس میں سے 9 اس وین میں سوار تھے اور دو پاس سے گزرنے والے وہ موٹر سائیکل سوار تھے، جن سے وین بس سے ٹکرانے کے بعد ٹکرائی تھی۔

میرے کنڈیکٹر کا یہ کہنا ہے کہ میں نے دور سے یہ دیکھ لیا تھا کہ وین والے ریس لگا رہے ہیں اگر میں بس کی رفتار آہستہ کر لیتا تو دونوں وینیں گزر جاتیں اور کوئی حادثہ نہ پیش آتا، اس میں بھی ذمہ دار میں ہوں۔

فیصلہ آپ کریں۔ سب یہ بات جانتے ہیں کہ سڑک پر ریس لگانے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے اور کسی کو اوورٹیک کرنا بالخصوص اس وقت جب کوئی موڑ ہو اور آپ کو علم نہ ہو کہ سامنے سے کیا چیز آ رہی ہے، سیدھی سادی خودکشی کو کوشش نہیں؟ میں تو تمام ضابطوں کی پابندی کرتے ہوئے آرہا تھا، میں اپنی رفتار کیوں آہستہ کرتا۔

تیسرا اور چوتھا واقعہ ملتے جلتے ہیں۔ یہ دونوں اشاروں پر پیش آئے۔ ہوا یوں کہ ایک دن میں اشارے پر کھڑا تھا، سگنل گرین ہوا تو میں پوری رفتار سے بس آگے بڑھائی اور بس ابھی چوک کے درمیان میں ہی پہنچی تھی کہ میرے دائیں جانب سے آنے والی ایک گاڑی تیز رفتاری سے بس سے ٹکرائی اور الٹ گئی، ایک راہگیر سمیت 4افراد اس حادثے میں ہلاک ہوئے۔

کنڈیکٹر الزام دیتا ہے کہ مجھے سگنل سے اس طرح تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے نہیں بڑھنا چائیے تھا اور انتظار کرنا چاہئے تھا کہ دائیں جانب سے آنے والی ٹریفک، جس کا ابھی سگنل بند ہوا ہی تھا، وہ گزر جائے۔ مگر کیوں؟ میں کیوں انتظار کرتا جبکہ میرا سگنل سبز ہوگیا تھا اور شہر میں جگہ جگہ یہ لکھ کر لگایا گیا ہے کہ سگنل کی پابندی نہ کرنا آپ کیلئے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ گاڑی والے نے سگنل توڑا اور اس کی اپنی زندگی کا پتہ کٹ گیا۔ میں تو سگنل دیکھ کر، پوری احتیاط سے چلتا ہوں۔

چوتھا واقعہ میرے کنڈیکٹر کے نزدیک صریح قتل تھا، حالانکہ اس واقع کے نتیجے میں مجھے جیل بھی کاٹنی پڑی اور کیس تک عدالت گیا۔ ہوا یوں کہ جیسے ہی سگنل سے بتی سبز ہوئی میں نے بس تیزرفتاری سے آگے بڑھائی۔ بس سامنے سڑک پار کرنے والے چند افراد سے ٹکرا گئی اور 2 افراد موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔ میں نے قطعاً بھاگنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ میں بے گناہ تھا۔ پولیس نے مجھے گرفتار کیا، کیس عدالت میں گیا جہاں ٹریفک کانسٹیبل نے بھی میری بات کی تائید کی اور تفتیش میں بھی یہی بات ثابت ہوئی کہ راہگیر غلط وقت پر سڑک کراس کر رہے تھے۔ میرا سگنل گرین تھا اور میں قواعد و ضوابط کے مطابق ڈرائیونگ کر رہا تھا اور ایسی جگہ جہاں پر اوور ہیڈ برج موجود تھا، وہ افراد نیچے سڑک سے روڈ کراس کر رہے تھے۔ میں دوسری سماعت پر ہی باعزت بری ہوگیا اور دوبارہ بس ڈرائیوری کرنے لگا۔

میری کمپنی نے مجھے نہ صرف دوبارہ نوکری دی بلکہ مجھے ایک ماہ کی اضافی تنخواہ بھی دی۔ آخر میں پچھلے کئی برسوں سے ان کے ساتھ کام کر رہا تھا اور میرا ریکارڈ بہت صاف تھا مگر میرا کنڈیکٹر اسے واضح قتل کہتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مجھے علم تھا کہ سامنے سے لوگ روڈ کراس کر رہے ہیں، مجھے رک جانا چاہئے تھا۔ میرا خیال ہے کہ وہ انہی باتوں کی وجہ سے کبھی کامیاب ڈرائیور نہیں بن سکتا کہ وہ اپنی ڈرائیونگ، سگنل، ٹریفک سائنز چھوڑ کر لوگوں کو دیکھنے لگتا ہے۔

میں نے ہر بات کھول کر آپ کو بیان کر دی ہے، آپ لوگ خود فیصلہ کریں کہ کیا میں واقعی قاتل ہوں؟ کیا واقعی میرے ہاتھ پر 18 بے گناہوں کا خون ہے؟ میرے کنڈیکٹر کو سمجھائیے کہ وہ تمام کے تمام اپنی اپنی غلطیوں کی وجہ سے مارے گئے اور ویسے بھی جنہیں خود کشی کا شوق ہو انہیں اس طرح حادثات میں مرنے سے کون بچا سکتا؟ مخالف سڑک پر ون ویلنگ کرنا، سڑک پر ریس لگانا، سگنل توڑنا اور سگنل دیکھے بغیر سڑک پار کرنا، یہ سب خود کشی کے واقعات تھے، ان لوگوں کے قتل میں نے نہیں کیے۔

آپ اِس ڈرائیور کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کیا یہ واقعی قاتل ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

اویس حفیظ

اویس حفیظ

ایک موقر ملکی روزنامے اورمقامی جریدے سے قلم کاتعلق قائم رکھنے والا اویس حفیظ، جو اپنی قلم طرازیوں کی بدولت ادب و صحافت سے تعلق جوڑنے کی ایک ناکام سعی میں مصروف ہے، خود بھی نہیں جانتا کہ وہ کون ہے۔ جامعہ پنجاب سے ترقیاتی صحافیات میں ایم ایس سی تو ہوگئی تھی مگر تعلیم کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔