’’انسان وغیرہ‘‘

شمع زاہد  اتوار 19 اپريل 2015
 کالے رنگ کی کئی گاڑیاں، دن میں ہیڈلائیٹس آن کئے ٹریفک قوانین کی دھجیاں بکھیرتی، عام لوگوں کو اُن کی اوقات یاد دلاتی سامنے سے گُزرنے لگیں۔

کالے رنگ کی کئی گاڑیاں، دن میں ہیڈلائیٹس آن کئے ٹریفک قوانین کی دھجیاں بکھیرتی، عام لوگوں کو اُن کی اوقات یاد دلاتی سامنے سے گُزرنے لگیں۔

اس دن خلافِ توقع سارے کام اپنے وقت پر انجام پاگئے۔ اسکول کے بعد ظہر کی نماز بھی وقت پر ادا ہوگئی۔ جن بچوں کی گاڑیاں انہیں لینے آچکی تھیں ان کے نام مائیک پر پکارے جانے لگے۔

اگرچہ ہمارا نام پکارا نہیں گیا پھر بھی ہم باہر کی طرف لپکے اور گیٹ کے قریب کھڑے ہو کر باقی مسافروں کا انتظار کرنے لگے۔ جلد ہی وہ تینوں بھی آگئے۔ خوش قسمتی سے آج ان میں سے بھی کوئی تاخیر کا شکار نہ تھا۔ چنانچہ ہم سب جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گئے۔ آج تو یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ ہماری گاڑی کے پیچھے کسی نے گاڑی پارک نہیں کی تھی اور یوں ہم فوری طور پر منزل کی جانب رواں دواں ہوگئے۔

ہم سب خوش تھے کہ آج کئی دنوں بعد ہم وقت پر گھر پہنچ جائیں گے۔ لیکن وقت پر نکلنے کے باوجود خدشہ تھا تو اُس ناکے کا جس نے کئی دنوں سے ہماری ناک میں دم کیا ہوا تھا۔ جب ہم سیکٹر ایچ الیون سے نکل کر پولیس لائن پر آتے ہیں اور دائیں ہاتھ مڑ کر کشمیر روڈ کی طرف بڑھتے ہیں تو راستے میں یہ ناکا آتا ہے۔ ناکا کیا یوں سمجھیں سوئی کے ناکے سے گزر کر آنا پڑتا ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر تیز سے تیز رفتار گاڑی کے بھی پر کٹ جاتے ہیں۔ یہاں ہمیں ہر روز نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے صبر کا امتحان دینا پڑتا ہے اور سو میں سے ایک سو دس نمبر حاصل کرنا پڑتے ہیں۔ لیکن اس دن یہ دیکھ کر ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ آج اس ’’امتحانی مرکز‘‘ پر خلافِ توقع انتہائی کم رش تھا۔

چناںچہ ہم اپنے اور گھر کے درمیان حائل رکاوٹوں میں سے اس سب سے بڑی رکاوٹ کو پلک جھپکنے میں عبور کرگئے لیکن افسوس کہ ابھی ہم نے ٹھیک سے اُڑان بھری بھی نہ تھی کہ گرفتا ر ہوئے۔ اچانک دائیں طرف سے ایک ٹریفک سارجنٹ ہاتھ میں ’’سٹاپ‘‘ کا سائن بورڈ پکڑے نمودار ہوا۔ ہم نے فوراََ بریک لگائی اور حیران و پریشان سامنے دیکھنے لگے۔ کیونکہ سِگنل ابھی کچھ فاصلے پر تھا۔ ہمیں بالکل سمجھ نہ آیا کہ یہاں ہمیں کیوں روکا گیا ہے۔

ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اُس سارجنٹ نے ہمارے دائیں ہاتھ کھڑی پِک اپ کو سڑک کے بیچوں بیچ اس طرح کھڑا کر دیا کہ پیچھے سے آنے والی ٹریفک کا راستہ بلاک ہوگیا۔ ہم ٹریفک سارجنٹ کی اس پھُرتی اور حاضر دماغی پر عَش عَش کر اُٹھے۔ برسوں طلباء کو پڑھاتے اور سمجھاتے اس مقولے کا عملی مظاہرہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ ’’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘‘۔

ذرا سی دیر میں ہمارے پیچھے گاڑیوں کی تاحدِ نظر طویل قطاریں لگ گئیں۔ یعنی ؎

پھوُل ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اُودے اُودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیر ہن

اُودی اُودی، نیلی نیلی گاڑیاں اور اُن کے بیچ بیچ میں پیلی پیلی ٹیکسیاں۔ فوراً ہی کہیں سے مزید تین چار ٹریفک سارجنٹ نمودار ہوئے اور ٹریفک کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اُنہوں نے اسلام آباد سے گولڑہ موڑ کی طرف جانے والی ٹریفک بھی روک دی۔ ابھی تک ہمیں سگنل کی بتیاں جلتی بجھتی دکھائی دے رہی تھیں لیکن اب وہ بھی بند کردی گئیں۔ یعنی چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اب صرف گولڑہ موڑ سے اسلام آباد آنے والی ٹریفک کھُلی تھی۔ باقی تمام راستے بھی بند تھے اور گاڑیوں کی قطاروں کی طوالت میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ ہم سب منتظر تھے کہ پردۂ غیب سے کیا نمودار ہوتا ہے۔

چونکہ یہ چھُٹی کا وقت تھا اس لئے زیادہ تر گاڑیوں میں طلباء دکھائی دے رہے تھے۔ صُبح سے جاگے ہوئے علم کے مُتلاشی طلباء، رات سے جاگے ہوئے طلباء (موبائل فون اور کمپیوٹر کی برکت سے) زبردستی اسکول بھیجے گئے طلباء، علم کے بوجھ سے جھُکے ہوئے طلباء، (علم سے کم کتابوں سے زیادہ) نئے ماڈل کی گاڑیوں کی آرام دہ سیٹوں پر بیٹھے ہوئے بے آرام طلباء، آخری سانسیں لیتی پک اپ کے پائدان پر لٹکے ہوئے طلباء، یا پھر ہم جیسے ــ’’معزز اساتذہ کرام‘‘ (ہر تقریر کا آغاز ایسے ہی کیا جاتا ہے) اورباقی تمام مسافر اس بے موقع روکے جانے پر پیچ وتاب کھا رہے تھے۔ ہماری گاڑی کے تمام مُسافر جو کُچھ دیر پہلے وقت پر گھر پہنچ جانے کی آس میں انتہائی شاداں وفرحاں تھے، اُن کے ارمانوں پر بھی اوس پڑ گئی۔

گاڑی میں مختلف قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ ٹریفک کیوں روکی گئی ہے۔ اسٹوڈنٹ مسافر کی رائے سب سے مختلف تھی۔ اُن کے خیال میں یہ ٹریفک چینی صدر کی آمد کی وجہ سے روکی گئی تھی جن کا آنا اب شیر آیا! شیرآیا! کی کہاوت بن چکا ہے۔ ہم نے اُسے سمجھایا کہ بیٹا! چینی صدر کا اس شاہراہ پرکیا کام! وہ تو ہمارے ایف سولہ طیاروں کے جلووں میں چکلالہ ائیر بیس پر قدم رنجا فرمائیں گے۔ پھر ہیلی کاپٹر میں تشریف فرما ہو کر ہمارے سر آنکھوں پر سے گزرتے ہوئے پریذیڈنسی میں جلوہ افروز ہوجائیں گے۔ لیکن وہ مُسافر اپنی رائے پر مُصرر ہے۔ اس وقت مُجھے ان کے چہرے پر انجانی سی خوشی دکھائی دی۔ بعد میں پتہ چلا کہ ان کی خوشی کی وجہ یہ تھی کہ کسی نے انہیں یہ ’’مبینہ‘‘ خبر دے تھی کہ چینی صدر کی آمد کے موقع پر اسلام آباد میں عام تعطیل ہوگی۔ واللہ اعلم باالصواب۔ خیر! میں نے انہیں کہا کہ دیکھو اور انتظار کرو۔ چنانچہ وہ دیکھنے لگے اور انتظار بھی کرنے لگے۔ آخر کُفر ٹوٹا خُدا خُدا کرکے۔

کوئی پندرہ بیس منٹ کے انتظار کے بعد گولڑہ موڑ کی طرف سے ہُوٹر کی فلک شگاف آوازیں سُنائی دینے لگیں اور پھر تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آگیا۔ شاہکار کیا تھا ایک وی آئی پی اسکواڈ جو اپنے وی آئی پی ’’صاحب‘‘ کو لئے وی اے پی (ویری عام پرسن) لوگوں کا تمسخر اُڑاتا سامنے سے نمودار ہوا۔ ایک ہی جیسی کالے رنگ کی کئی گاڑیاں، دوپہر کے وقت بھی اپنی ہیڈلائیٹس آن کیئے ٹریفک قوانین کی دھجیاں بکھیرتی، وی اے پی لوگوں کو اُن کی اوقات یاد دلاتی سامنے سے گُزرنے لگیں۔ یوں ہماری گناہگار نگاہیں جس منظر کی منتظر تھیں پردہ اُٹھتے ہی وہ ’’سِین‘‘ انہوں نے دیکھ لیا۔ یہ منظر پاکستانی عوام کے لئے نیا نہیں ہے لیکن پھر بھی نجانے کیوں ہم کچھ سوچنے لگے۔ کیا سوچنے لگے، پڑھیئے، وی آی پی کلچر کے ثمرات و مضمرات پر غور کیجیے اور سر دُھنئیے۔

پُورے ہوں کبھی اپنے بھی ارمان وغیرہ
ہو اپنی خوشی کا بھی کبھی سامان وغیرہ
تم کو ہی فقط عزیز نہیں زندگی اپنی
ہم کو بھی پیاری ہے یہ جان وغیرہ
دل کی طرح جاتے ہو سِگنل کو بھی تم توڑ
ہوتا نہیں تمہارا کبھی کیوں چالان وغیرہ
دَم سے ہی ہمارے ہے قائم تیری شان
مانو کبھی بھُولے سے ہمارا یہ احسان وغیرہ
ہر مُشکل میں ہمیں چھوڑ کے ہوجاتے ہو تم گُم
حالانکہ تم کہنے کو تو ہو ہمارے نگہبان وغیرہ
تکلیفوں کا ہماری تمہیں ہو جائے کچھ احساس
اس بات کا کچھ نظر آتا نہیں امکان وغیرہ
صرف تم ہی تو اشرف المخلوقات نہیں ہو
ہوتے ہیں کچھ ہم بھی ’’انسان‘‘ وغیرہ

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔