تصویر کدہ :پُرانے یمن کا تصویری احوال

رضوان طاہر مبین  اتوار 19 اپريل 2015
2010ء میں یمن میں ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع ہوا،فوٹو : فائل

2010ء میں یمن میں ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع ہوا،فوٹو : فائل

یمن کا شمار مشرقی دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں کیا جاتا ہے۔ زرخیز زمین کی حامل اس دھرتی کو یونانی جغرافیہ دان بطلیموس Udaimon Arabia سے تعبیر کرتا ہے۔ یونانی زبان میں جس کے معنی خوش باش عرب کے ہیں۔ یعنی یہ علاقہ اُس زمانے میں بھی نمایاں طور پر خوش حال رہا۔

یہاں سے دریافت ہونے والی قدیم تحریروں کے توسط سے مورخین بارہویں تا آٹھویں صدی قبل مسیح میں قائم سلطنتوں کے تذکرے ملتے ہیں۔ بارہویں صدی قبل مسیح تا چھٹی صدی عیسوی اسے دنیا کی چھے بڑی تہذیبوں میں شمار کیا جاتا رہا۔ وہ تہذیب جو عالمی تجارت کی ایک بہت بڑی حصے دار تھی، اسلام کی آمد کے ساتھ اوائل میں ہی یہ خطہ مشرف بہ اسلام ہوگیا۔

جغرافیائی لحاظ سے طویل ساحل کا حامل اور زمینی لحاظ سے عُمان اور سعودی عرب کے ہم سائے میں واقع اس ملک کی تاریخ کا آغاز 5000 قبل مسیح سے ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’برونز ایج‘‘ سے ہی یہاں تجارتی چہل پہل شروع ہو گئی تھی۔

جدید تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ علاقہ خاصا سیاسی اتھل پتھل کا شکار نظر آتا ہے۔ مسلمان خلافت اور برطانوی راج ختم ہونے کے بعد سرزمین یمن مسلسل تبدیلیوں کا شکار ہے۔ حالیہ کچھ برسوں سے وہاں کے منظر نامے پر نئی تبدیلیوں کا آغاز ہوا ہے۔ اب یمن کے ہم سائے اور مسلمان ممالک سے لے کر عالمی سطح تک یمن کا تذکرہ زبان زدِ عام ہے، چناں چہ اسی مناسبت سے ہم نے تصویر کدے میں یمن کی تاریخ سے کچھ مناظر کا چناؤ کیا ہے۔

صنعا کے قریب واقع امام یحییٰ کی رہائش گاہ ’’دارالحجر‘‘کی موجودہ تصویر۔ دارالحجر کے معنی (پتھر کے گھر) کے ہیں۔ یحییٰ محمد حمید الدین (1869ء تا 1948ء) 1904ء میں اپنے والد کے انتقال کے بعد زیدیوں کے امام ہوئے، 1918ء میں وہ یمن کے امام قرار پائے۔ ان کا یہ گھر ایک چٹان پر آج بھی موجود ہے۔

قبل مسیح کی تاریخ میں یمن کے ’’سبیون‘‘ حکم راں جب برسر اقتدار آئے، تو انہوں نے بہت سے قبائل کو اپنے ساتھ حکومت میں شامل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے لیے ’’مکرب‘‘ کا لقب چنا، جس کے معنی متحد کرنے والے کے ہیں۔ سبیون کی حکومت نے 940 ق م میں ایک عظیم ڈیم مأرب بھی تعمیر کیا، جس کا مقصد وادی کو موسمی سیلاب سے محفوظ رکھنا تھا۔ ماہرین اسے دنیا کا قدیم ترین بند بھی گردانتے ہیں، مأرب ڈیم کی نہروں کی تعمیر کا کام 2000 ق م میں مکمل ہوا۔ کئی ہزار سال قدیم مأرب ڈیم کی یہ تصویر 1986ء کی ہے۔

ہاتھ اٹھائے ’’باغی‘‘ اور طیش میں آیا ہوا ایک گورا سپاہی، جو ایک ’’باغی‘‘ کو گھسیٹ کرلیے جا رہا ہے۔ یہ منظر یمن کے ساحلی شہر عدن کا ہے۔ قابض برطانوی حکومت نے ’’بغاوت‘‘ کو کچلنے کے لیے یہ کارروائی دسمبر 1963ء میں کی۔

یمن میں باہمی تصادم اور خانہ جنگی کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا ہے۔ زیرنظر تصویر میں 1962ء میں شہنشاہیت کے خلاف شمالی یمن کے قبائل برسرپیکار ہیں۔ اُس وقت کی نوزائیدہ ریاست ’’جمہوریہ یمن‘‘ نے شہنشاہیت کے خلاف بغاوت کی تھی، جس کے پشت پر مصری حکومت تھی، جب کہ شاہی خاندان کو سعودی حمایت حاصل تھی۔

1989ء میں شمالی اور جنوبی یمن کے اتحاد کے موقع پر جنوبی یمن کے صدر (بائیں) علی سلیم اور شمالی یمن کے صدرعلی عبداللہ صالح اظہار یک جہتی کر رہے ہیں۔ اتحاد کے بعد علی عبداﷲ صالح صدر جب کہ سلیم نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ علی سلیم 1994ء تک اپنے عہدے پر رہے۔ تاہم 76 سالہ علی سلیم اب ایک بار پھر ’’جنوبی یمن‘‘ کو ایک الگ ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔

امریکا کی جانب سے دنیا میں پاکستان کے علاوہ جس ملک میں تواتر کے ساتھ بغیر پائلٹ کے طیاروں (ڈرون) کے ذریعے حملے کیے جاتے ہیں، ان میں یمن سرفہرست ہے۔ یوں تو 3 نومبر 2002ء کو اس سلسلے میں امریکا کی جانب سے میزائل حملہ کیا گیا اور القاعدہ کے راہ نما ابو علی الحارثی کی گاڑی کو ہدف بنایا گیا۔

اس کے بعد 2010ء میں یمن میں ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ زیرنظر تصویر میں شمالی یمن میں بچے تجسس سے محو پرواز ڈرون کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ منظر 13 اکتوبر 2010ء کو تصویر ہوا، دوسری جانب ڈرون حملے کے بعد تباہ کاری عیاں ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔