جنازوں کے ساتھ بھی سیلفی!

 اتوار 19 اپريل 2015
سوشل میڈیا کا رجحان ظالمانہ چلن کا روپ اختیار کرگیا ۔  فوٹو : فائل

سوشل میڈیا کا رجحان ظالمانہ چلن کا روپ اختیار کرگیا ۔ فوٹو : فائل

سوشل میڈیا کے فروغ کے بعد جس طرح سیلفی کا چلن عام ہوا ہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔

عام لوگوں سے لے کر زندگی کے مختلف شعبوں کی نام ور شخصیات تک سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کی رنگارنگ دنیا سے وابستہ ہر شخص اپنی تنہا یا کسی کے ساتھ تصویر بناکر کسی سوشل میڈیا سائٹ پر دیتا ہے اور بعض لوگ تو یہ عمل روز سرانجام دیتے ہیں۔ ماہرین نفسیات سیلفی کی لت کو نفسیاتی عارضہ قرار دے چکے ہیں، لیکن بعض صورتوں میں یہ رجحانات سخت نکتہ چینی کا نشانہ بنتا ہے، جیسے عمرے اور حج کے دوران لوگوں کے سیلفی بنانے پر کڑی تنقید کی جاتی رہی ہے۔

اسی طرح بعض اور مواقع پر بھی ایسا کرنا قابل مذمت قرار پاتا ہے۔ مثال کے طور پر کیا ایک جنازے پر، کسی قتل عام کی یاد گار کے ساتھ یا پھر ایک جلتے ہوئے مکان کے سامنے ’سیلفی‘ لینا حد سے تجاوز کرنے کے مترادف نہیں ہے؟ مگر ہوا یہ ہے کہ یہ رجحان ظالمانہ چلن کا روپ دھار چکا ہے اور لوگ جنازوں کے ساتھ اور جائے حادثات پر بھی سیلفی بنانے سے گریز نہیں کرتے۔

یہ سب حقیقی مثالیں ہیں اور ٹمبلر‘ کی ویب سائٹ پر سنجیدہ جگہوں پر سیلفیز کے عنوان کے نیچے اور نیویارک کے جیسن فیفر کی ’جنازوں پر سیلفیز‘ نامی ویب سائٹ پر موجود ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیلفی کے شوقین غم کے مواقع اور کسی کی موت کے موقع پر بھی سیلفی لینے سے گریز نہیں کرتے۔

جیسن کی ویب سائٹ پر شائع یہ تصاویر وہ ہیں جنھیں سوشل میڈیا پر عوامی پذیرائی ملی ہے۔ ان میں سے ایک تصویر لاس ویگاس کے شہر میں ایک نوجوان کی زمین پر پڑے ہوئے ایک بے گھر شخص کے ساتھ سیلفی ہے، جس کے نیچے لکھا ہوا ہے ’بنا قمیص اور بے گھر سیلفی۔‘

جیسن کہتے ہیں کہ ’’یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں وہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ایک شخص کیسے بنا سوچے سمجھے کسی بھی چیز کا اظہار کر سکتا ہے۔ یہ ایک سیکنڈ کی سوچ کا اظہار ہے۔‘‘

خیال رہے کہ سیلفیز لوگوں کی اپنی خود سے کھینچی ہوئیں تصاویر ہوتی ہیں۔ انٹرنیٹ پر ایسی تصاویر کی بھرمار ہے اور تصاویر کو شیئر کرنے والی ایپ انسٹاگرام پر بھی کروڑوں سیلفیز شیئر اور ٹیگ کی جاتی ہیں۔ موبائل فونز بھی اب سیلفی لینے والے کیمروں کے ساتھ ہی ڈیزائن کیے جاتے ہیں۔ یہ سب حقیقی مثالیں ایک ’ٹمبلر‘ ویب سائٹ ’سنجیدہ جگہوں پر سیلفیز‘ اور نیو یارک کے جیسن گیفر کی ویب سائٹ ’جنازوں پر سیلفیز‘، پر موجود ہیں۔

جیسن کے مطابق انھوں نے لوگوں کی تصاویر کے بیک ڈراپ (پس منظر) کے بارے میں تب سوچنا شروع کیا جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ یورپ چھٹیاں منانے گئے تھے۔ جب جیسن نے ایمسٹرڈیم میں ’این فرینک‘ کی یادگار (وہ یہودی بچی جو جس کی روپوشی میں لکھی جانے والی ڈائری کو عالم گیر شہرت حاصل ہے) اور اس جیسی دیگر جگہوں کا دورہ کیا تو انھوں نے وہاں پر لوگوں کو اپنے کیمرے نکال کر سیلفیز لیتے ہوئے دیکھا۔

جیسن کی ویب سائٹ پر سیلفیز کے شائع ہونے کے بعد جہاں کچھ افراد نے ان سے رابطہ کرکے اپنے اس عمل پر شرمندگی کا اظہار کیا تو کچھ لوگوں نے تصاویر کھینچنے کے جواز پیش کیے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی کی نیت پر شک نہیں کر رہے اور ان کو اس بات کا احساس ہے کہ اکثر لوگ اپنے دوروں کی یاد گار رکھنا چاہتے ہیں اور اسی لیے سیلفی لیتے ہیں۔

جیسن نے سیلفی لینے کو ایک دل چسپ سماجی رجحان قرار دیا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’تاریخ میں پہلی دفعہ لوگوں کے پاس یہ صلاحیت آئی ہے کہ وہ جو دیکھتے ہیں اسے وہ اسی وقت شیئر کر سکتے ہیں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ معلوم کریں کہ اس طرح ہر تصویر کو شیئر کرنے کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے اور کیا شیئر کیا جانا چاہیے اور کیا شیئر نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔