ہم آپ کی حفاظت نہیں کر سکتے

جاوید چوہدری  منگل 21 اپريل 2015
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

وہ کیلی فورنیا کے چھوٹے سے ٹاؤن ’’سین فرنیڈوویلی‘‘ میں پیدا ہوئی، وہ جوانی میں مذہب کی طرف راغب ہوئی، بائبل کا مطالعہ کیااور دکھی انسانیت کی خدمت کا فیصلہ کر لیا، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس سے میڈیکل ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کی اور 1985ء میں پاکستان آ گئی، وہ پاکستان کیوں آئی؟ یہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے۔

1980ء کی دہائی ’’افغان وار کا دور تھا، امریکا میں روزانہ پاکستان، افغانستان اور افغان روس جنگ کی خبریں اور تجزیے شائع ہوتے تھے، وہ روز اخبارات اور ٹیلی ویژن پر پاکستان اور افغانستان کے بارے میں رپورٹس دیکھتی تھی، وہ یہ خبریں اور یہ رپورٹس پڑھتے پڑھتے پاکستان کی طرف متوجہ ہوئی اور ایک دن اپنا سامان باندھ کر کراچی آ گئی، کراچی اس کا دوسرا گھر بن گیا، کراچی میں اس نے پاکستانی سے شادی کی۔

اللہ تعالیٰ نے اسے دوبیٹیوں سے نوازا۔ اس نے 1996ء میں جناح میڈیکل کالج میں پڑھانا شروع کر دیا، یہ کالج میں ایسوسی ایٹ پروفیسر بھی تھی اور اسٹوڈنٹ افیئرز کی انچارج بھی۔ یہ 30 برسوں میں مکمل پاکستانی بن گئی، یہ اردو سمجھتی بھی تھی اور بولتی بھی تھی، یہ پاکستانی کھانے بھی کھاتی تھی اور یہ پاکستانی لباس بھی پہنتی تھی،پاکستان میں پچھلے دس برسوں سے دہشت گردی عروج پر ہے، امریکی اور یورپی باشندے دہشت گردوں کے خصوصی ٹارگٹ ہیں، امریکی سفارت خانے نے درجنوں مرتبہ اس سے رابطہ کیا اور اسے امریکا واپس جانے کا مشورہ دیا۔

امریکی سفارت کاروں نے اسے سیکیورٹی کا خصوصی بندوبست کرنے کی ہدایت بھی کی لیکن یہ نہ مانی، یہ معمول کے مطابق کالج آتی اور گھر واپس جاتی رہی، یہ کراچی کے مختلف علاقوں میں ویلفیئر کے چھوٹے بڑے منصوبے بھی چلا رہی تھی، یہ غریب مریضوں کا مفت علاج بھی کرتی تھی، یہ انھیں مفت ادویات بھی دیتی تھی اور یہ ان مریضوں کی مالی امداد بھی کرتی تھی۔

یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ 16 اپریل کا دن آ گیا، یہ کالج سے گھر جارہی تھی، یہ جب شہید ملت روڈ پر پہنچی تو دو نوجوان موٹر سائیکل پر آئے، گاڑی رکوائی اور اس پر فائر کھول دیا، اس کو دو گولیاں لگیں، ایک گال پر اور دوسری بازو پر۔ نوجوانوں نے گاڑی میں ایک کاغذ پھینکا اور فرار ہو گئے، کاغذ پر لکھا تھا ’’ ہم امریکا کو جلا دیں گے‘‘ داعش۔ پولیس آئی، ایمبولینس آئی، اسے اسپتال لے جایا گیا، اس کی جان بچ گئی مگر یہ زخمی ہے۔

اس کو تین زخم ہیں، گال پر، بازو پر اور روح پر۔ گال اور بازو کا زخم جلد ٹھیک ہو جائے گا لیکن روح کا زخم شاید ہمیشہ زندہ رہے گا اور یہ زخم اس سے مرتے دم تک یہ پوچھتا رہے گا ’’ تم نے اپنی عمر کا بڑاحصہ ایسے ملک میں کیوں ضایع کر دیا جس کے لوگ تمہیں 30 سال بعد بھی اپنا دشمن سمجھتے ہیں‘‘ مجھے یقین ہے ڈاکٹر ڈیبرا لوبو کی باقی زندگی اس سوال سے الجھتے گزرے گی۔

یہ ڈاکٹر ڈیبرا لوبو کی کہانی تھی، آپ اب برگریٹا ایل میبائی کی کہانی بھی ملاحظہ کیجیے، یہ خاتون سویڈن میں پیدا ہوئی، سویڈن میں جوان ہوئی اور پھر پاکستان آ گئی، یہ پاکستان میں یتیم بچوں کی بہبود پر کام کرتی تھی، یہ لاہور ماڈل ٹاؤن میں رہتی تھی، کچی آبادیوں اور کرسچین کالونیوں میں یتیم اور بے سہارا بچوں کو تعلیم اور تربیت دیتی تھی۔

یہ بھی مکمل طور پر پاکستانی ہو چکی تھی، آپ کو 2005ء کا زلزلہ یاد ہو گا، اس زلزلے نے پوری دنیا کو متاثر کیا، برگریٹا سویڈن گئی، اپنے تمام رشتے داروں، دوست احباب اور مخیر حضرات کے سامنے جھولی پھیلائی، تین کروڑ روپے جمع کیے اور یہ رقم لے کر پاکستان واپس آ گئی، یہ 2012ء میں 71 سال کی ہو گئی، یہ بیمار بھی رہنے لگی، اس کے عزیز رشتے دار اور دوست احباب اسے واپس بلانے لگے۔

سویڈن ایمبیسی بھی برگریٹا کو سیکیورٹی کا خیال رکھنے کا مشورہ دیتی رہی لیکن برگریٹا نے دوستوں کی بات مانی اور نہ ہی سفارت خانے کی یہاں تک کہ 3 دسمبر 2012ء کا دن آ گیا، برگریٹا ماڈل ٹاؤن میں اپنے گھر سے نکلی، یہ ابھی زیادہ دور نہیں گئی تھی کہ اس کی گردن پر گولی داغ دی گئی، برگریٹا گری اور اپنے ہی لہو میں تر ہونے لگی، یہ گولی ایک ستم ظریفی تھی مگر گولی سے بڑی ستم ظریفی لوگوں کا رویہ تھا، برگریٹا سڑک پر گری رہی لیکن کوئی شخص اس کی مدد کرنے، اسے اٹھانے، اسے اسپتال پہنچانے کے لیے تیار نہ ہوا، لوگ کھڑے ہو کر تماشا دیکھتے رہے۔

وہ چیختی رہی، اس کا لہو بہتا رہا، ایمبولینس اور پولیس آئی، برگریٹا کو اسپتال پہنچایا گیا، ٹیلی ویژن پر خبریں چلیں، سویڈن ایمبیسی کو اطلاع ہوئی، سفارت خانے نے اپنی حکومت سے رابطہ کیا، سویڈش حکومت نے برگریٹا کے لیے ائیر ایمبولینس بھجوائی، برگریٹا کو اسٹاک ہوم لے جایا گیا، اس کا علاج شروع ہوا لیکن جسم کا زخم چھوٹا اور روح کا گھاؤ گہرا تھا چنانچہ برگریٹا جانبر نہ ہو سکی، وہ چند دن بعد دارفانی سے کوچ کر گئی، اس کے خاندان نے اسے ایک خوبصورت اور خاموش قبرستان میں دفن کر دیا، وہ پاکستانی تھی لیکن پاکستانیوں نے ڈاکٹر ڈیبرا لوبو کی طرح اس کی بھی قدر نہ کی، یہ بھی اپنے خوابوں کے ساتھ مٹی میں مل گئی۔

یہ ہماری سنگدلی، بے مہری اور احسان فراموشی کی صرف دو کہانیاں ہیں، یہ کہانیاں پہلی اور آخری نہیں ہیں، ہمارے ملک میں ڈاکٹر ڈیبرا اور برگریٹا جیسے سیکڑوں لوگ آئے، ہماری خدمت کی اور ہم سے پتھر، گالیاں اور گولیاں کھا کر واپس چلے گئے، کیوں؟ میں آج تک اس کیوں کا جواب تلاش نہیں کر سکا، شاید اس کا جواب ہمارے رویئے ہیں، ہم ظالم لوگ ہیں۔

آپ کو یقین نہ آئے تو آپ اپنی تاریخ نکال کر پڑھ لیجیے، ریاست مدینہ سے لے کر یمن کے موجودہ بحران تک ساڑھے تیرہ سو سال میں ہماری 129 ریاستیں ختم ہوئیں، ہم نے حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت سے لے کر کل جلال آباد میں داعش کے حملے تک اپنی تلواریں نیام میں واپس نہیں رکھیں، ہم ساڑھے تیرہ سو سال سے اپنی اور اپنوں کی گردنیں کاٹتے آ رہے ہیں، ہم آج تک امن سے محروم ہیں، ہماری تاریخ میں امن اور سکون کے صرف 13 جزیرے ہیں اور یہ جزیرے بھی تین چار سال سے زیادہ لمبے نہیں ہیں، کیوں؟ کیونکہ ہم ظالم لوگ ہیں۔

اللہ نے ہمیں امن کا مذہب، سکون کا دین دیا تھا لیکن ہم آج تک سکون پا سکے اور نہ ہی امن۔ ہم جوں ہی کسی اسلامی ریاست میں داخل ہوتے ہیں، ہمیں وہاں جبربھی ملتا ہے، بدامنی بھی اور خوف بھی جب کہ اسلامی دنیا کی سرحدوں سے باہر امن بھی ہے، سکون بھی، انصاف بھی اور مساوات بھی،کیوں؟ کیونکہ ہم ظالم لوگ ہیں، ہم اس قدر ظالم لوگ ہیں کہ جب ڈاکٹر ڈیبرا اور برگریٹا جیسے چند لوگ اپنے معاشروں کی مساوات، انصاف، سکون اور امن چھوڑ کر ہماری خدمت کے لیے آتے ہیں، یہ ہمارے ان یتیم بچوں کے آنسو پونچھتے ہیں جنھیں ہم پیدا کر کے بھول گئے تھے۔

جنھیں ہم نے مسلمان ہونے کے باوجود اپنے بچوں کے برابر حقوق نہیں دیے، یہ یتیم عمر بھر یتیم اور مسکین رہے، یہ لوگ اسلامی ملکوں میں آ کر ان مسلمان مریضوں کا علاج کرتے ہیں جنھیں ہم اٹھارہ اٹھارہ کروڑ مسلمان مل کر ایک گولی، ایک نرس اور اسپتال کا ایک بستر فراہم نہیں کرسکتے، یہ لوگ ان اسلامی ملکوں میں آ کر ان مسلمان بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں جنھیں ہم جاہل رکھ کر مومن بنانا چاہتے ہیں اور یہ ان اسلامی معاشروں میں انسانیت کی تبلیغ کے لیے آتے ہیں ۔

جہاں آج بھی عورتوں کو قرآن مجید سے بیاہ دیا جاتا ہے، جہاں آج بھی ونی اور سوارہ جیسی رسمیں موجود ہیں اور جہاں آج بھی مسجدیں اللہ کے گھر کے بجائے سنیوں، وہابیوں اور شیعوں کی عبادت گاہیں ہیں لیکن ہم انھیں شکریہ کے بجائے گولی کا تحفہ دیتے ہیں، کیا ہم ظالم نہیں ہیں؟، آپ سکون سے بیٹھئے اور چند لمحوں کے لیے سوچئے ہم دنیا کے اتنے خلاف کیوں ہیں؟ ہم پہلے امریکا کے خلاف ہیں، پھر ہم یورپ، مشرق بعید اور سینٹرل ایشیا کے خلاف ہیں، پھرہم ایک دوسرے کے خلاف ہیں، ہم خود کو مانتے ہیں اور نہ ہی دوسرے اسلامی ملکوں کو مانتے ہیں، ایران کویت، عراق اور سعودی عرب کے خلاف ہے۔

سعودی عرب عجم کو نہیں مانتا، یمن کو قطر اور یو اے ای سے خطرہ ہے اور یو اے ای شیعہ انقلاب سے خوفزدہ ہے، ہم عیسائیوں، یہودیوں، ہندوؤں اور بدھوں کے بھی خلاف ہیں اور ہم مسلمان ہو کر مسلمانوں کے بھی خلاف ہیں،ہم سندھی ہیں تو ہم مہاجروں کو خوف سے دیکھتے ہیں، مہاجر ہیں توپنجابیوں،سندھیوں اور بلوچوں سے خائف ہیں، پنجاب سے سارے صوبوں کو اختلاف ہے اور پنجاب کو دوسروں صوبوں سے شکایات ہیں، ہم سید ہیں، ہم آرائیں ہیں، ہم گجر، جاٹ اور راجپوت ہیں اور ہم کمی اور چوہدری بھی ہیں، ہم سید اور راجپوت بھی ایک دوسرے کے خلاف ہیں ، ہم ایک دوسرے کے اسلام کے بھی خلاف ہیں۔

ہم دوسرے مسلمان کو کافر بھی سمجھتے ہیں اور اسے قابل گردن زنی بھی اور ہم اگر ان سب سے فارغ ہو جائیں تو ہم اپنے آپ کے بھی خلاف ہیں،آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے، ہم اگر اپنے آپ کے خلاف نہ ہوتے تو کیا ہم یوں اپنے اوپر سیکھنے کے دروازے بند کرتے؟ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو نئی بات سیکھنا چاہتے ہیں، جو اپنے جسم، اپنے ذہن اور اپنی روح کی عزت کرتے ہیں، ہم لوگ بس خلاف ہیں۔

آسمان سے لے کر زمین تک اور اوبامہ سے لے کر نقوی تک اور یمن سے لے کر سندھ تک اور سیدوں سے لے کر راجپوتوں تک اور اپنی بیگم سے لے کر ہمسایوں تک ہم سب کے خلاف ہیں اور انسان جب اتنے بڑے پیمانے پر خلاف ہو جائے تو پھروہ انسان نہیں رہتا، وہ ظالم ہو جاتا ہے، ایسا ظالم جسے ڈاکٹر ڈیبرا لوبو اور برگریٹا ایل میبائی نظر آتی ہیں اور نہ ہی ان کے احسانات دکھائی دیتے ہیں۔

میری ڈاکٹر ڈیبرا لوبو اور برگریٹا ایل میبائی جیسے تمام لوگوں سے درخواست ہے آپ اپنے اپنے ملک واپس چلے جائیں، ہم اپنے ملک میں آپ کی جان کی حفاظت نہیں کر سکیں گے کیونکہ ہم وہ لوگ ہیں جو ویکسین کو حرام اور پولیو کو حلال سمجھتے ہیں اور جس قوم کی نظر میں بیماریاں حلال اور علاج حرام ہوں اس قوم سے محسنوں کی عزت کی توقع فضول ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔