سید مودودی کے سرفروش

عبدالقادر حسن  منگل 21 اپريل 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

وقت اور تاریخ کے نظام کو بدلا نہیں جا سکتا مگر کاش کہ کوئی گزشتہ صدی کے کیلنڈر سے وہ تاریخ حذف کر دیتا جس میں سقوط ڈھاکہ کا سانحہ رونما ہوا تھا، ایک ایسا سانحہ جو پاکستانیوں کی ملک دشمن حماقتوں اور دشمن کی پاکستان دشمن پالیسیوں کی کامیابی کا دن تھا۔ بھارت کے دل میں یہ حادثہ پوری طرح بیٹھ چکا ہے اور وہ یہ کہ پاکستان ان کی بھارت ماتا کے ایک ٹکڑے پر زبردستی بنایا گیا ہے اور اس کو ختم اور نیست و نابود کرنا بھارت ماتا کے ہر بیٹے کا قومی فرض ہے۔

بھارت نے بڑے طنطنے کے ساتھ اعلان کیا کہ ہم نے نصف پاکستان کو ختم کرکے پرانی ذلتوں اور غلامی کا بدلہ چکا لیا ہے اور وہ نظریہ جس کا نام پاکستان تھا خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے مگر یہ نظریہ پاکستان اس قدر قدرتی اور اس خطے کے مسلمانوں کا ایک فطری نظریہ تھا جو کسی سمندر میں غرق نہیں ہو سکتا تھا۔ بنگالیوں نے چاروناچار الگ سے ایک وطن اور ملک تو بنا لیا مگر اپنے جیسے کلچر اور زبان و مزاج والے دوسرے پڑوسی بنگال کا حصہ نہ بنے، نظریہ پاکستان کے مطابق وہ ہندو قوم سے الگ ہی رہے اور اب تک الگ ہی چلے آ رہے ہیں۔ یہ نظریہ پاکستان کا معجزہ ہے۔

ہمارے بنگالی دوست اور بھائی الگ تو ہو گئے مگر ہماری طرح سقوط ڈھاکہ کا داغ دل پر لے کر۔ اب جو کوئی پاکستان کا نام لیتا ہے تو ان کی پاکستان دشمن حکومت اس پر موت کا مقدمہ قائم کر دیتی ہے کیونکہ پڑوس میں موجود ہندو نے اس کی حکومت پر اپنا ایجنٹ بٹھا رکھا ہے جو پاکستان دشمنی پر مجبور ہے اور پاکستان کا نام لینے والے اور اس پر قائم رہنے والے کو موت کی سزا دے دیتا ہے۔

پھانسی کا یہ پھندا وہ مسلمان چوم کر اپنے گلے میں ڈال لیتے ہیں جن کے نظریے کے مطابق پاکستان آج بھی برحق ہے اور یہ لوگ ہیں سید ابوالاعلیٰ مودودی کی جماعت کے ساتھی جس کے بارے میں جعلی پاکستانیوں نے یہ فتویٰ دے رکھا ہے کہ وہ پاکستان کے قیام کے مخالف تھے۔

کیا مخالف ہے ان کا پاکستان ٹوٹ پھوٹ گیا اور بنگلہ دیش بن گیا مگر وہ اب تک اس سابقہ پاکستان کے پاکستانی ہی ہیں اور اس جرم کی سزا صرف موت ہے جسے وہ اپنی عزت سمجھتے ہیں اور اس کا انتظار کرتے رہتے ہیں جب کہ وہ پاکستان کے ’مخالف‘ تھے بہر حال پاکستان بنانے والے مسلم لیگیوں کا یہی فتویٰ ہے لیکن انھوں نے پاکستان کے قیام کے بعد اس کی سرزمین کو مسجد کا مقام دیا تھا اس کے تقدس کے لیے جان کی قربانی دیتے چلے جا رہے ہیں، اپنی عاقبت سنوار رہے ہیں۔

الحمد للہ کہ وہ اس پاکستان سے دور ہیں جو حیران کن حد تک رشوت ستانی اور کرپشن کا مرکز ہے کیونکہ اس کا اقتدار مدتوں سے ایک حادثہ بن کر پاکستان بنانے والوں اور اس کے حامیوں کے ہاتھ میں آ گیا ہے۔ سید مودودی کے سرفروشوں نے جس جگہ کبھی پاکستان بنا تھا وہ جگہ اب بھی پاکستان کا نام لینے والوں کے لیے محفوظ کر رکھی ہے اور اس کے لیے جانیں قربان کر رہے ہیں۔

ایک پاکستان تو وہ تھا جو اب بنگلہ دیش بن چکا ہے اور ایک پاکستان یہ ہے جو بدستور پاکستان چلا آ رہا ہے اور ماشاء اللہ اس قدر عزت کا کلچہ کھا رہا ہے کہ اس کو امداد دینے والے عالمی ادارے بھی اس کے بلند مرتبہ کارندوں کے منہ پر ان کی رشوت کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نہ جانے اس امداد میں سے کتنی پاکستان پر خرچ ہوتی اور کتنی پاکستانیوں کی جیب میں جائے گی۔

پاکستان کی آج جو بھی حالت ہے یہ اپنی جگہ پر مگر اس ملک پر قدرت کی رحمت سایہ فگن ہے اور پاکستانیوں کی بداعمالیوں کی پروا کیے بغیر اس کو مزید تباہی سے روک رہی ہے اور ایسے اسباب پیدا ہو رہے ہیں کہ پاکستان کے دشمن بھی اس سے خوفزدہ ہو چکے ہیں۔ ایک نہتے سائنس دان نے جس کی پوری افسر شاہی مخالف تھی سوائے حکمران ذوالفقار علی بھٹو کے اور پوری دنیا مخالف تھی سوائے اسی کی ضد اور بے پناہ مضبوط ارادے کے کہ اس نے اس ملک کو ایٹم بم دے دیا۔

عبدالقدیر خان کو نہ جانے کیا خطاب دیا جائے، ایک خطاب تو قوم نے اسے بے ساختہ دے رکھا ہے اور وہ ہے ’محسن پاکستان‘ کا خطاب لیکن یہ اس قدر حقیقی اور مکمل ہے کہ مزید کسی خطاب کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

اس سائنس دان نے مسلمان اور اسلام دشمن دنیا کے سامنے ڈٹ کر ایسا کارنامہ کر دکھایا کہ اس سے اسلام کی تاریخ مرنے سے بچ گئی جسے اقوام مغرب نے موت کے قریب ترین کر دیا تھا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا مزید ایک انعام ملاحظہ فرمائیے جو اس وقت افواج پاکستان کے سپہ سالار کی صورت میں ہمارے سامنے زندہ سلامت ہے۔ ہر وہ ملک اور فرد جو پاکستان کے خلاف ہے وہ اس سپہ سالار کی زندگی کا بھی دشمن ہے بلکہ اسلام کے دشمن اسے ختم کرنا چاہتے ہیں کہ آگے بڑھ سکیں اور یہ رکاوٹ دور ہو۔

تعجب کیجیے اپنے ایٹم بم پر اس بم کے محافظ جنرل راحیل پر اور ان جانبازوں اور سرفروشوں پر جنھوں نے سقوط ڈھاکہ کے باوجود پاکستان کا نام زندہ رکھا ہے اور بنگلہ دیش میں پاکستان کو جان دے کر یاد کرتے ہیں اور پھانسی کے ہر تختے پر اپنے خون سے ’پاکستان زندہ باد‘ لکھتے ہیں پاکستان محض ایک زمینی جغرافیہ کا نام ہی نہیں یہ ایک نظریاتی قوت کا نام بھی ہے۔

جس کو شکست دینا ممکن نہیں پاکستان کا نام مشرقی پاکستان کی طرح کتابوں سے نکال بھی دیں لیکن دلوں سے اسے کون نکالے گا اور ہر وہ پاکستانی جو موت کی سزا پاتا ہے جنت میں جانے سے پہلے پاکستان کو نہ جانے کن دعاؤں میں یاد کرتا ہے۔

کاش کہ کوئی ایسا شاعر ہوتا تو پاکستان کے سرفروشوں کے نام کوئی قصیدہ لکھتا اور میں اسے پاکستان کے گلی کوچوں میں گاتا پھرتا مگر اپنی ایسی قسمت کہاں سوائے اس نثری خراج عقیدت کے جو میں پاکستان کے نام پر قربان ہو جانے والوں کی خدمت اقدس میں پیش کرتا ہوں۔ بلاشبہ پاکستان خدا و رسولؐ کے نام پر قائم ہوا اور اس کی لازوال سعادت محمد علی جناح کو ملی جس کی فراست امانت دیانت ایک مثال ہے اسے مسلمانوں کی اس لازوال خدمت کے لیے پیدا کیا گیا تھا۔

پاکستان کے نام پر قربانیاں دینے والوں کے لیے افتخار عارف کا ایک شعر یاد آ رہا ہے
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض چکائے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔