چین، پاکستان سے کیا چاہتا ہے؟

تنویر قیصر شاہد  بدھ 22 اپريل 2015
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

تقریباً چھ ماہ کے طویل اور جانگسل انتظار کے بعد چینی صدر جناب شی چن پنگ دو روزہ دورے پر پاکستان تشریف لائے ۔ چشمِ ما روشن، دلِ ما شاد۔ وہ دورہ مکمل کر کے واپس جا چکے ہیں۔

یہ دورہ فی الحقیقت گزشتہ برس ستمبر میں ہونا تھا مگر ’’تبدیلی لانے والوں‘‘ نے اسلام آباد میں جو اودھم مچا رکھا تھا، سیکیورٹی کے پیشِ نظر اسے مؤخر کر دیا گیا تھا۔ محترم چینی صدر کا پاکستان تشریف لانا وطنِ عزیز کی زبردست سفارتی کامیابی ہے۔ اس دورے کے ساتھ پاکستان کے کئی منصوبوں کی تکمیل وابستہ ہے۔ بتایا گیا ہے کہ چینی صدر اپنے اس شاندار دورے میں پاکستان کے ساتھ چھیالیس ارب ڈالر کے ترقیاتی منصوبوں پر دستخط ہوئے۔ پاک چین اکنامک کوریڈور کا عظیم الشان منصوبہ ان میں مرکزی مقام رکھتا ہے۔

پاکستان کو درپیش توانائی کے شدید بحرانوں کے خاتمے کا بھی عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ پاکستان کے لیے چین کا یہ دستِ تعاون ایک بڑی نعمت سے کسی بھی طرح کم نہیں۔ پاکستان اور چین کے گہرے تعلقات پر شایع ہونے والی اینڈریو اسمال کی تازہ ترین معرکہ آرا کتاب The  China-Pakistan  Axis:  Asia’s  New  Geopolitics کا مطالعہ کرنے سے صحیح معنوں میں یہ ادراک ہوتا ہے کہ چین نے کیسے کیسے اور کس کس مقام پر پاکستان کی دستگیری کی ہے۔

یہ کتاب مگر ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ اگر چین کے پاکستان پر بہت سے احسانات ہیں تو پاکستان بھی اپنی حدود و قیود میں رہ کر چین پر کئی احسانات کر چکا ہے۔ معاشی اعتبار سے چین زبردست طاقت بن چکا ہے۔ چنانچہ یہ مبالغہ نہیں ہے کہ امریکا بھی چین کی اس اقتصادی قوت کے سامنے سرنگوں بھی ہے اور اس سے خائف بھی۔ چین کے خزانے میں زرمبادلہ کے 3.8 ٹریلین ڈالر کے ذخائر پڑے ہیں۔

چین چاہتا ہے کہ پاکستان بھی اس کے نقوشِ قدم پر چلتے ہوئے عزت و ثروت کا یہ عالمی مقام حاصل کرے اور اس کی معیشت سے استفادہ کرے لیکن ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے حکمران قرضے پر چلنے والی ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے بار بار آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اے ڈی بی کی طرف بھاگتے ہیں۔ مذکورہ تینوں مالیاتی ادارے بنیادی طور پر یہ چاہتے ہی نہیں کہ پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں۔

چین بھی، پاکستان کی مانند، کبھی انھی عالمی مالیاتی اداروں کا دستِ نگر اور محتاج تھا لیکن اب وہ ان کے استحصال سے نجات حاصل کر چکا ہے۔ چین نے اپنی ذاتی معاشی طاقت کی بنیاد پر، اور اپنے ہم خیال دوستوں کے تعاون سے، اپنے تین طاقتور اور مؤثر مالیاتی ادارے بنا لیے ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں: اول، BRICS جس میں برازیل، روس، انڈیا، چین اور ساؤتھ افریقہ شامل ہیں۔ دوم، AIIB یعنی ایشیئن انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک۔ اس میں دنیا کے تیس ممالک شامل ہو چکے ہیں جن میں پاکستان تو شامل نہیں لیکن بھارت ضرور شامل ہے۔ وسط ایشیاء کی تقریباً تمام ریاستیں بھی اس کی رکنیت حاصل کر چکی ہیں۔

چین نے اس بینک کے لیے پچاس ارب ڈالر کا سرمایہ فراہم کیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ مزید پچاس ارب ڈالر فراہم کرے گا۔ سوم، NDB یعنی نیو ڈویلپمنٹ بینک۔ امریکا اور مغربی ممالک چین کے تعاون سے بننے والے ان تینوں بینکوں کی طاقت سے خوف محسوس کر رہے ہیں کیونکہ ان کی موجودگی سے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی اجارہ داری ٹوٹنے والی ہے۔

اب جب کہ چینی صدر جناب شی چن پنگ پاکستان میں تشریف لا رہے ہیں، ہمارے حکمرانوں کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر چینی صدر سے گزارش کریں کہ پاکستان کو بھی مذکورہ بالا تینوں میں سے کسی ایک مالیاتی ادارے کا رکن بنایا جائے۔ اگرچہ پاکستان کی معاشی حیثیت نہایت کمزور ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ معزز چینی مہمان پاکستان کی درخواست کو مسترد نہیں کریں گے۔

ساری دنیا جانتی ہے کہ چین، پاکستان کا اسٹرٹیجک دوست ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر اور حساس اصطلاح ہے جس کی گرہیں کھولنا قومی سلامتی کے تقاضوں کے منافی ہے لیکن رازداں طبقات اس کی زبردست اہمیت سے پوری طرح آگاہ اور آشنا ہیں۔

انرجی اور انفراا سٹرکچر کی تعمیر و ترقی کے میدان میں پاکستان کے لیے چینی امداد و اعانت بیش بہا ہے۔ چینی صدر کے موجودہ دو روزہ دورۂ پاکستان پر ساری دنیا خصوصاً بھارت اور امریکا نے اپنی آنکھیں مرتکز کر رکھی ہیں، اگرچہ چینی صدر اس سے پہلے بھارت کا دورہ کر چکے ہیں اور اب اگلے ماہ مئی 2015میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی چین کا دَورہ کرنے والے ہیں۔

چین کی کوشش ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں ہاتھ پاؤں پھیلاتے ہوئے، پاکستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھے لیکن واقعہ یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ اس کے تجارتی تعلقات زیادہ بڑے پیمانے پر ہیں؛ چنانچہ چین دِلی طور پر یہ چاہتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کشیدہ نہ رہیں۔

اگر خدانخواستہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگی اور تصادمی ماحول پیدا ہوتا ہے تو چین آگے بڑھ کر پاکستان کی مدد کرنے سے قاصر رہے گا، جیسا کہ 1971 میں پاکستان کے دو لخت ہوتے وقت چین کسی بھی طرح پاکستان کی اعانت نہیں کر سکا تھا۔ (بھارتی اور روسی خفیہ ایجنسیاں چین کی اس کمزوری سے آگاہ تھیں) اس پس منظر میں چین کی طرف سے پاکستان کو دیے جانے والے مشوروں پر کان دھرنا چاہیے۔ گویا پاکستان کو مسئلہ کشمیر کی موجودگی کے باوصف بھارت سے تعلقات میں تناؤ پیدا کرنے سے اعراض برتنا چاہیے۔

پاکستان کو دیے جانے والے ان مشوروں میں چینی قیادت کے اپنے ساٹھ سالہ تجربات و مشاہدات شامل ہیں کہ وہ بھی بھارت سے بعض متنازعہ سرحدی معاملات کے حوالے سے جنگ بھی کر چکا ہے اور اب بھی بھارت کے ساتھ اس کے کئی تنازعات بدستور چل رہے ہیں۔ اس کے باوجود مگر بھارت اور چین، دل میں اپنا اپنا رنج رکھتے ہوئے، ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔ چین، پاکستان سے یہ بھی چاہتا ہے کہ جو چینی مسلمان (یغور) کسی بھی شکل میں اور پاکستان میں کسی بھی جگہ مبینہ مسلح تربیت حاصل کرتے رہے ہیں (ٹی ٹی پی کی چھتری تلے) انھیں یہاں سے مکمل طور پر مار بھگایا جائے۔

یغور مسلح تنظیموں نے چین کی سیکیورٹی کے لیے کئی سنگین مسائل کھڑے کر رکھے ہیں۔ افغانستان میں بھی کئی یغور مسلح تنظیموں نے تربیت حاصل کی اور طالبان ان کی سرپرستی کرتے رہے۔ اسلام آباد کی ایک مسجد کے بعض لوگوں نے، چند سال قبل، جب وفاقی دارالحکومت میں مقیم بعض چینیوں کو ’’ناپسندیدہ سرگرمیوں‘‘ کے الزام میں پکڑ کر یرغمال بنا لیا اور انھیں ٹارچر کیا تو اس اقدام سے پاک چین تعلقات کو سخت دھچکا پہنچا تھا۔ چین یہ چاہتا ہے کہ آیندہ اس طرح کے حالات پیدا نہ ہوں۔ مسلح یغوروں کے حوالے سے چینی حکومت کے جو تحفظات ہیں، پاکستان کو انھیں نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔

چین بجا طور پر یہ بھی چاہتا ہے کہ افغانستان میں کامل امن پیدا ہو سکے تا کہ افغانستان میں، طالبان کی سرپرستی میں، یغور شدت پسند تنظیموں کی پناہ گاہوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اس پس منظر میں پاکستان کے ساتھ مل کر چینی قیادت کا افغان طالبان سے مبینہ مذاکرات کا عمل قابلِ فہم ہے۔ چین اور افغانستان 76 کلومیٹر لمبی مشترکہ سرحد رکھتے ہیں۔ سنکیانگ نامی چینی صوبہ، جہاں یغور مسلمانوں کی اکثریت ہے، افغانستان سے متصل ہے۔

چین یہ سرحد مسلح دہشت گردوں سے محفوظ اور مامون چاہتا ہے۔ اینڈریو اسمال کی کتاب کے باب بعنوان Tea  with  Taliban کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ چین قطعی طور پر نہیں چاہتا کہ افغانستان میں خانہ جنگی کے حالات پھر سے پیدا ہو جائیں اور یہ بھی کہ چینیوں کی یہ شدید خواہش ہے کہ افغان طالبان کو بھی کسی نہ کسی شکل میں موجودہ منتخب افغان حکومت میں شریکِ کار بنایا جائے۔ (صفحہ 117) جنرل راحیل شریف کی قیادت میں شروع کی گئی ’’ضرب عضب‘‘ مہمات، جنھیں وزیراعظم کی تائید و آشیرواد بھی حاصل ہے، کی کامیابیوں سے بالواسطہ چینی قیادت کی تشفی بھی ہو رہی ہے۔

شمالی وزیرستان میں جن یغوروں نے پناہ لے رکھی تھی، ان کے ٹھکانے بھی تباہ کیے جاچکے ہیں۔ چینی حکومت ’’ضرب عضب‘‘ آپریشن پر گہرے اطمینان کا اظہار بھی کر رہی ہے۔ ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ مستقبل میں پاکستان اور چین کا تعاون مزید بڑھے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔