فرد، سماج اور فن

عمران شاہد بھنڈر  جمعرات 23 اپريل 2015
ibhinder@yahoo.co.uk

[email protected]

انسان اور فطرت کے درمیان ایک گہرا مگر پیچیدہ رشتہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انسان اور فطرت ایک ہی حقیقت کے دو مختلف پہلو ہیں۔ انسان خود کو فطرت میں دو سطحوں پر موجود پاتا ہے: ایک خارجی فطرت جو انسان کو اس کی حسیات کی وساطت سے دی جاتی ہے یا جس میں انسان اپنی حسیات ہی کے ذریعے موجود ہوتا ہے، اور دوسرا انسان کی داخلی فطرت جو خارجی فطرت ہی کا لازمی حصہ ہے۔

انسان کی داخلی فطرت اور خارجی فطرت ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے میں موجود ہیں اور اگر انسان کی داخلی فطرت اور خارجی فطرت میں باطنی طور پر کوئی تطابق موجود نہ ہو تو انسان کی فطرت پر کوئی بھی ایسی عملی سرگرمی ناممکن ہو جاتی ہے جو کہ ’سماج‘ کی بنیاد بنتی ہے۔ لٰہذا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ سماج کی تخلیق کے لیے انسان کی داخلی فطرت جو کہ خارج کی طرف مائل رہتی ہے اور فطرت کی داخلی شکل جو خارج کی طرف موجود ہوتی ہے، ان کا باہمی ارتباط سماج کو وجود میں لانے کے لیے ناگزیر ہے۔ انسان اپنی بقا کے لیے فطرت پر انحصار کرتا ہے۔

انسان کا فطرت پر یہ انحصار محض تفکری سطح پر نہیں، عملی سطح پر ہوتا ہے۔ انسان اپنی عملی سرگرمی کے ذریعے فطرت کو جس ’معروض‘ میں تبدیل کرتا ہے، وہ سماج کی بنیاد بنتا ہے۔ سماج انسان ہی کا معروضی وجود ہوتا ہے۔ انسان کی فطرت پر عملی سرگرمی سے جس سماج کی تخلیق ہوتی ہے اس میں صرف انسان ہی موجود نہیں ہوتا بلکہ اس میں فطرت ہمہ وقت موجود رہتی ہے، وہ فطرت جو انسان کی فطرت سے تطابقت رکھتی ہے۔

لہذا سماج میں کوئی ایسی شے فطری طور پر موجود نہیں ہوتی جو سماج میں موجود انتشار و خلفشار کی بنیاد ہوتی ہے۔ انسان جب فطرت پر عمل آرا ہوتا ہے تو وہ صرف فطرت کو ہی سماج میں تبدیل نہیں کرتا بلکہ اپنی عملی سرگرمی سے خود بھی  تبدیل ہو جاتا ہے۔ فطرت پر عملی سرگرمی سے پہلے انسان تو موجود ہوتا ہے مگر فرد نہیں! فرد ہمیشہ کسی نہ کسی انفرادی خصوصیت سے عبارت ہوتا ہے اور وہ اسی صورت سامنے آتی ہے جب انسان فطرت سے ربط میں آتا ہے۔ فرد کی بنیاد خصوصیت یہ ہے کہ فرد محض ایک تفکری فرد نہیں بلکہ ایک عملی فرد بھی ہے۔

اس لیے ذہن نشین یہ نکتہ رہنا ضروری ہے کہ فرد کی تشکیل میں اس کی عملی سرگرمی یعنی اس کی محنت کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔ فرد کی اصطلاح میں سماج کا تصور اسی طرح موجود ہوتا ہے جس طرح سماج کی اصطلاح میں فرد کا تصور موجود ہوتا ہے۔ لہذا سماج فرد کے کسی ایک پہلو سے عبارت نہیں ہے بلکہ اس کے تفکری اور عملی پہلوؤں کی وحدت کا نام ہے۔

سماج کی اصطلاح میں محض ایک فرد ہی موجود نہیں ہوتا، بلکہ سماج افراد کے مجموعے پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس طرح سماج کی تخلیق حقیقت میں فرد کے سماجی کردار کی تخلیق ہے۔ فرد کا سماجی کردار ہی اس کا حقیقی جوہر ہے، فرد کے سماجی کردار میں دوسرے افراد کے ساتھ جو رشتے استوار ہوتے ہیں، فرد انھی رشتوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔

انسان کا فطرت سے تعلق فطرت پر غلبہ پانے کا نہیں ہے کہ جو انسان کی فطرت میں موجود غلبے کی خواہش کے تحت پیدا ہوتا ہے، بلکہ انسان کا فطرت سے تعلق فطری نوعیت کا ہوتا ہے جو محض اپنی بقا اور سماجی فطرت کی تشکیل و احیا کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح نہ ہی انسان کا سماج سے تعلق دوسرے افراد پر غلبہ پانے سے عبارت ہے۔

آغاز میں سماج کے اندر بھی کوئی ایسی شے موجود نہیں ہوتی جسے فطری غلبے کے مماثل ٹھہرایا جا سکے۔ سماجی معروض انسان اور فطرت کا مجموعہ ہوتا ہے جو انسانی ’جوہر‘ کی شناخت اور احیا کا باعث بنتا ہے۔ سماج سے باہر کسی انسانی جوہر کا احیا ممکن ہی نہیں ہے۔ سماج کسی ایک شخص کی تخلیق نہیں ہے، بلکہ سماج عبارت ہی انسانوں کی مشترکہ سرگرمی سے ہے، سماج اس وقت تک وجود میں نہیں آسکتا جب تک کہ سماج کی تشکیل میں انسانوں کا باہمی تعاون شامل نہ ہو۔

انسان کا انسان کے ساتھ تعاون جو کہ سماجی پیداوار اکے لیے لازمی ہے، اسی پر انسانی رشتوں کی بنیاد رکھی جاتی ہے، انھی سماجی رشتوں میں انسان کے حقیقی ’’جوہر‘‘ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ بہت سے مفکر ایسے بھی ہیں جو سماج کے خلاف اور فطرت کے حمایتی ہوتے ہیں، ان کا فکری المیہ یہ ہے کہ وہ سماج کے اندر فطرت اور فطرت کے اندر سماج کو نہیں دیکھتے۔ انسان کو وہ محض سوچ کے آلے کے طور پر دیکھتے ہیں، جب کہ حقیقت میں انسان سوچ اور عمل کی وحدت سے عبارت ہوتا ہے۔

لیکن اگر بنظر غور ایسے مفکرین کے خیالات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وہ سماج سے زیادہ سماج کے ایک مخصوص تصور کے خلاف رہے ہیں اور سماج کے اس مخصوص تصور کی مخالفت ان کی غیر سماجی فطرت کی وجہ سے نہیں ہے کہ جو سماج کی تشکیل سے پہلے ہی کہیں موجود تھی۔ سماج کی مخالفت کا تصور سماج کے غیر سماجی کردار میں ہی پیوست ہوتا ہے۔

سماج کا غیر سماجی کردار اس نظام کا مرہون منت ہوتا ہے جس کے تحت کوئی سماج متشکل ہوا ہو۔ بالکل اسی طرح یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ فن کاروں، ادیبوں اور شعرا کی ایک ایسی تعداد بھی موجود ہے جو سماج کے اسی سماجی اور غیرسماجی کردار کی تفہیم میں ناکام رہتے ہیں۔ وہ اپنے فن کو ان سماجی تضادات کو عیاں کرنے کی بجائے کہ جن میں سماج کا غیر سماجی کردار پیوست ہوتا ہے، سماج سے ماورا ہی نہیں بلکہ زمان و مکاں کی قید سے بھی ماورا ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس قسم کی سوچ سماج کے حقیقی عمل کی تفہیم سے قاصر رہتی ہے اور غیر سماجی کردار کی رو میں بہہ جاتی ہے۔

اپنے غیر سماجی کردار میں وہ اس سادہ سی حقیقت کو بھی نہیں سمجھ پاتے کہ جس زبان میں وہ لکھتے ہیں، جس فنی ہیئت اور صنف کا وہ استعمال کرتے ہیں، اور جن فنی اصولوں کی رہنمائی میں وہ اپنے خیالات ، جذبات اور احساسات سے انحراف یا اظہار کرتے ہیں، ان کی حیثیت ماورائی نہیں ہے، بلکہ انھیں سیکھنے میں وہ زندگی کا ایک حصہ گزار دیتے ہیں۔

زبان اپنی سرشت میں سماجی نوعیت کی ہوتی ہے، کوئی ایسی زبان موجود نہیں ہے جس کی تشکیل و احیا سماج کی تشکیل سے قبل یا اس سے ماورا ہوا ہو۔ اور وہ زبان کچھ اس غیر مانوسیت سے اظہار پائے کہ اس انداز سے اجنبی لگے کہ جیسے کسی دوسرے سیارے کی مخلوق کی زبان ہو۔ زبان یا خیالات کا ابہام فنکار کے اس غیر سماجی کردار میں پیوست ہوتا ہے جو کہ انتشار، خلفشار، کشمکش، تضادات نیز یہ کہ ہر قسم کی برائیوں کی آماجگاہ بن چکا ہوتا ہے۔ جو فن کار سماج کے ان تضادات کی تفہیم و اظہار کی بجائے، ان کی رو میں بہتا چلا جاتا ہے، وہ اپنے فن کی اس حقیقی روح سے محروم کر دیتا ہے جس کی سرشت میں مزاحمت کا تصور موجود ہوتا ہے۔

ادیبوں اور فن کاروں پر لازم ہے کہ سماج کے اس غیر سماجی کردار سے نجات پانے کے لیے اپنا حصہ ڈالیں کیونکہ یہ ان کی داخلی ضرورت سے زیادہ سماج اور فن کے سماجی کردار کی احتیاج ہے ، اسی میں سماج کے فطری سماجی کردار کی بحالی کا تصور موجود ہے۔ ایسا فن اس ’بیگانگی‘‘ کا اظہار ہے کہ جو سماج کے غیر سماجی کردار میں پیوست ہوتا ہے۔ اب تک جو بحث میں نے کی ہے اس سے اس نکتے کی اہمیت کو سامنے لانا مقصود تھا کہ سماج کی تشکیل میں فرد کی عملی و تفکری سرگرمی کی وحدت کا تصور موجود ہوتا ہے، اس کے بغیر سماج کی تشکیل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

مارکس لکھتا ہے کہ سارے مغربی فلسفے کا بنیادی نقص یہ ہے کہ اس میں تفکری عمل کے دوران میں فرد کی اس عملی سرگرمی کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ جس سے سماج کی تشکیل ہوتی ہے اور اس کا ارتقا ممکن ہوتا ہے۔ فلسفیوں نے محض جو موجود تھا اور جو جسے ذہنی مشق سے وجود میں لانا ممکن تھا اس کی محض تشریح پیش کی ہے۔

عملی فرد کی عملی سرگرمی کہ جس سے فطرت سماج میں تبدیل ہوتی ہے اور باہمی تعاون سے جس پیداوار کی تشکیل ہوتی ہے اور وہ کس طرح انسانوں کے سماجی وجود اور کردار کا تعین کرتی ہے، اس پہلو کو مغربی فلسفہ مکمل طور پر نظر انداز کرتا ہے۔

فلسفیوں کے تفکری عمل میں چونکہ عملی سرگرمی کا کردار شامل نہیں ہے اس لیے ان کی تمام ذہنی مشق محض یک طرفہ ہے، اور اپنی سرشت میں الٰہیات ہی کی طرح ذہنی ’’بیگانگی‘‘ کی علامت بن چکی ہے۔ ’’بیگانگی‘‘ کا یہ تصور سماج میں اتنا گہرا سرایت کر چکا ہے کہ عام ادیب، فنکار اور شعرا انتہائی آسانی سے اس بیگانگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔