پانی سے بھی محروم عوام

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 24 اپريل 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ہماری سیاسی زندگی میں جو بے شمار خرابیاں موجود ہیں ،ان میں سے ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ عام انتخابات میں کامیاب ہونے والے حقیقی معنوں میں عوام کے نمائندے نہیں ہوتے بلکہ ان میں اکثریت کا تعلق ہماری اشرافیہ سے ہوتا ہے ۔

اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے امیرزادے چونکہ ذاتی صلاحیتوں ،عوامی خدمات کے حوالے سے قانون ساز اسمبلیوں میں نہیں جاتے بلکہ دولت اور اثر و رسوخ کے حوالے سے قانون ساز اداروں میں پہنچتے ہیں لہٰذا ان کی اولین ترجیح انتخابات پر کی جانے والی بھاری سرمایہ کاری کی معہ منافع واپسی ہوتی ہے۔

عوام کے مسائل کا حل ان کے ایجنڈے کا آخری آئٹم ہوتا ہے۔ اس طرز سیاست کی وجہ سے پچھلے 68 سالوں میں عوامی مسائل اور اشرافیہ کی دولت میں بے تحاشا اضافہ ہوتا رہا ، آج اس ملک کے 18 کروڑ عوام جن مسائل و مصائب کا شکار ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ عوام کے مسائل حل کرنے کے فورم یعنی قانون ساز اداروں میں عوام کے نمائندے موجود ہی نہیں ہوتے اگر آٹے میں نمک کی طرح آتے بھی ہیں تو یا تو وہ بے دست و پا ہوتے ہیں یا پھر اس کان نمک میں جاکر نمک بن جاتے ہیں۔

ان تلخ حقائق کے پیش منظر میں ہمارے سیاسی نظام میں تبدیلی کے مطالبے ہو رہے ہیں جن میں انتخابی اصلاحات سرفہرست ہے۔ جن انتخابی اصلاحات کا ذکر ہو رہا ہے اگر یہ ہوجائیں تو یہ امید پیدا ہو سکتی ہے کہ عوام کے حقیقی نمائندے بھی قانون ساز اداروں میں پہنچ سکیں۔ اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹر قانون ساز اداروں میں پہنچتے ہیں نہ ان کی کوئی سماجی خدمات ہوتی ہیں نہ سیاسی پس منظر سیاسی۔ پارٹیوں سے تعلق ہی ان کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔

ہمارے ملک میں بڑی پارلیمانی پارٹیوں پر چونکہ زمینی یا صنعتی اشرافیہ کا قبضہ ہے لہٰذا ان پارٹیوں کے نامزد نمائندوں کا قانون ساز اداروں میں پہنچنا یقینی ہوتا ہے۔ انتخابات کے موقعے پر سیاسی پارٹیاں جن لوگوں کو ٹکٹ عطا کرتی ہیں اس کا واحد معیار یہ ہوتا ہے کہ ٹکٹ حاصل کرنے والا انتخابات جیتنے کا اہل ہے یا نہیں اس اہلیت میں عوام کی خدمات کا ریکارڈ سیاسی خدمات سیاسی تجربات وغیرہ کا سرے سے کوئی دخل ہی نہیں ہوتا۔ ٹکٹ دینے والی پارٹی قیادت صرف یہ دیکھتی ہے کہ جس کو جس علاقے یا حلقے کا ٹکٹ دیا جا رہا ہے اس حلقے میں اس کا اثر و رسوخ کتنا ہے اس کے پاس انتخابات لڑنے کے لیے مطلوبہ سرمایہ جو کروڑوں پر مشتمل ہوتا ہے، ہے یا نہیں۔ علاقے کی ذات برادریوں میں اس کا کس قدر اثر ہے۔

اس میں انتخابی دھاندلی کی کس قدر صلاحیت ہے۔ انتخابی جلسوں جلوسوں میں وہ عوام کی بھاری تعداد کو لاسکتا ہے یا نہیں، پولنگ کے روز وہ ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن لاسکتا ہے یا نہیں۔ بھٹو مرحوم کے زمانے میں یہ بات عام تھی کہ اگر بھٹو کسی کھمبے کو بھی ٹکٹ دیں تو کھمبا الیکشن جیت جائے گا اس سیاسی اصطلاح کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ ٹکٹ لینے والے کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ ٹکٹ دینے والا ہی بادشاہ گر اورکامیابی کا ضامن ہوتا ہے۔اسی طرز سیاست کا نتیجہ یہ ہے کہ آج قانون ساز اداروں میں ہر طرف کھمبے کھڑے نظر آتے ہیں جن کی سیاسی حیثیت ایسے روبوٹ کی ہوتی ہے جس کے کمپیوٹر میں قیادت سے وفاداری اور لوٹ مار کی صلاحیت بھری رہتی ہے۔

قانونی کرپشن کا سب سے بڑا ذریعہ ترقیاتی فنڈز ہوتا ہے، ہر ایم این اے ہر ایم پی اے کو ہر سال کروڑوں روپے ترقیاتی کاموں کے نام پر دیے جاتے ہیں۔ یہ ہر ایم این اے ہر ایم پی اے کا قانونی حق ہوتا ہے، حکومتیں یہ فنڈز صرف اپنے نمائندوں کو ہی نہیں دیتیں بلکہ مخالف جماعتوں کے ایم این اے، ایم پی اے کو بھی دیتی ہیں اس کروڑوں کے ترقیاتی فنڈ کا استعمال کیا ہوتا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس کے علاوہ مختلف حوالوں سے بے تحاشا کمائی کے مواقعے فراہم کیے جاتے ہیں جن میں لائسنس پرمٹ وغیرہ شامل ہیں، ہمارے ایک لیڈر تو اس حوالے سے ڈیزل کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔

لوٹ مار کے اس کلچر کی وجہ منتخب نمائندوں کی ساری توجہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کمائی پر لگی رہتی ہے اور عوامی مسائل ان کی ڈکشنری میں ہوتے ہی نہیں۔ اس حوالے سے ایک تازہ مثال پینے کے پانی کی قلت ہے۔

پورا ملک پانی کی قلت سے دوچار ہے،  بے چارے غریب عوام پانی کی بوند بوند کے لیے ترس رہے ہیں، سڑکوں پر ٹائر جلاکر اپنے غصے کا اظہار کر رہے ہیں لیکن کوئی سننے والا نہیں ہے۔ حکومت کی آنکھوں پر تو  پٹیاں بندھی ہوئی ہیں لیکن جن لوگوں کو عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے اپنے ووٹوں سے منتخب کرکے قانون ساز اداروں میں بھیجتے ہیں، وہ بھی اس ابتلا کے موقع پرغائب ہوجاتے ہیں۔

پارٹی منشور، انتخابی وعدوں میں تو عوام کی زندگی کو جنت بنانے کا عہد ہوتا ہے لیکن عوام کے ووٹوں سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد یہ  نمائندے اپنے علاقوں میں صرف اگلے الیکشن ہی کے موقعے پر تشریف لاتے ہیں۔ پانی کے بغیر انسان گزارا کر ہی نہیں سکتا یہ نہ لگژری ہے نہ عیاشی بلکہ پانی انسان کی ایسی بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر ایک دن بھی گزارا ممکن نہیں، پانی کی قلت کی داستانوں سے میڈیا بھرا پڑا ہے کیا حکمران طبقہ  قلت آب سے ناواقف ہے کیا ایم این ایز، ایم پی ایز کو پانی کی قلت کا علم نہیں؟اگر ہے تو یہ محترم لوگ کہاں ہیں اور پانی کی سپلائی کے لیے کیا کر رہے ہیں؟

آج عوام ٹائر جلا کر اپنے غصے کا اظہار کر رہے ہیں لیکن اگر ان کی ضرورت پوری کرنے سے اسی طرح لاپرواہی کا مظاہرہ کیا گیا تو کیا مشتعل عوام نااہل نمائندوں کے گھروں کو پھونکنے میں تکلف کریں گے؟ میں خود بھی پانی کی قلت کا ہفتوں سے شکار ہوں اور مہنگے واٹر ٹینکر خرید کر گزارا کر رہا ہوں کیا قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی میں پانی کی قلت کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی ہے؟ کیا حکومتیں عوام کی اس بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں؟

یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ قانون ساز اداروں میں عوام کے دکھ عوام کی تکالیف عوام کے مسائل کو اہمیت دینے والا کوئی نہیں۔ گیس بجلی کی لوڈشیڈنگ آج کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ برسوں پر پھیلا ہوا مسئلہ ہے ۔گیس بجلی بھی پانی کی طرح عوام کی بنیادی اور لازمی ضرورت ہے، ان کی کمی کو پورا کرنے کا کام برسوں پہلے ہونا چاہیے تھا۔

لیکن لوٹ مار میں مصروف حکمرانوں اور ان کے دعوؤں میں انسانیت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے کہ وہ انسانوں کے دکھ درد انسانوں کی ضرورتوں انسانوں کے مسائل کی طرف توجہ دیں۔ اسی بددیانتانہ کلچر کی وجہ سے عوام کے دلوں میں حکمرانوں کے لیے نفرت کے سواکچھ نہیں۔

آج ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چہرے نہیں نظام بدلو کی جو آوازیں سنائی دے رہی ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ جو چہرے 68 برسوں سے اقتدار پر قابض ہیں، وہ اس قدر مکروہ اور عوام دشمن ہیں کہ اگر چہرے نہیں نظام بدلو کی آواز پر کان نہ دھرے گئے تو تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں والامعاملہ ہوجائے گا اور شاید پچھتانے کا وقت بھی نہ مل سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔