اسلامی معاشرے کے خدوخال

نگہت عمر  جمعـء 24 اپريل 2015
دین اسلام بے چینی، انتشار اور فتنہ پھیلانے والوں کی مذمت کرتا ہے۔  فوٹو: فائل

دین اسلام بے چینی، انتشار اور فتنہ پھیلانے والوں کی مذمت کرتا ہے۔ فوٹو: فائل

دین اسلام تعمیر سیر ت و کردار اور تشکیل ذات و معاشرہ کے لیے ٹھوس اور مضبوط بنیادیں فراہم کرتا ہے۔

اسلامی معاشرے میں ایک بھی ایسا فرد قابل قبول نہیں ہے جو انارکی، انتشار، بے چینی اور فتنہ پھیلانے کا سبب بنے۔ وہ جو صرف خود جینا جانتا ہو اور دوسروں کے لیے زمین تنگ کر دے۔ اس کے بر عکس اسلام نے صلہ رحمی، عدل و انصاف ، حسن سلوک اور درگزر کی تعلیم دی ہے۔ انسانی زندگی کو اسلام نے سب سے زیادہ مقدم اور قابل احترام قرار دیا ہے۔ اس کی بہترین مثال فتح مکہ ہے، جب آپ ﷺ نے معاشرے میں سکون و راحت کے در کھول دیے۔

پاکستان کے مسائل نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن گئے ہیں۔ ان مسائل پر قلم کار اور دانش ور لکھتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ہر پاکستانی سوچنے لگا ہے کہ ہمارے پاس دست یاب صفحات ختم ہوجائیں گے لیکن ہمارے مسائل کا اندراج مکمل نہ ہوگا۔ ان مسائل کے انبار میں آئے دن ہونے والے ہر طرح کی زیادتی کے واقعات ہر حساس دل کے لیے تازیانہ بنتے جارہے ہیں۔

ہم سب ٹیلی وژن چینلز پر اور اخبارات میں روز ہی ایسے روح فرسا اور دل خراش واقعات دیکھ اور پڑھ رہے ہیں اور خود کو بے دست و پا پاتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہم ایسے واقعات کے تدارک کے لیے سوچ ہی نہیں رہے تو ان کے سدباب کا ذکر ہی کیا؟

اگر ہم سنجیدہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اس طرح کے دل خراش واقعات سے مُبّرا ہوجائے تو پھر ہمیں سب سے پہلے اس کے اصل پہلو یعنی آخر اس قبیح فعل کے سوتے کہاں سے پھوٹتے ہیں پر غور کرنا ہوگا۔ اگر ہم میں ذرا سی بھی اخلاقی جرأت ہے تو ہمیں اعتراف کرنا ہوگا کہ ہمارے تعلیمی ادارے بشمول مذہبی اور دیگر اور ہمارے اکابرین بلا تخصیص اس فعل کے تدارک سے غفلت میں مبتلا ہیں۔ ہماری مثال اُس نادان کبوتر کی سی ہے جو بلّی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلیتا اور سمجھتا ہے کہ جیسے اُسے بلی نہیں نظر آرہی تو اُسی طرح بلی کو بھی وہ دکھائی نہیں دے رہا۔ اسے ہی کہتے ہیں خود فریبی، جس میں سب مبتلا ہیں۔

اسلام نے تربیت کو سب سے اہم قرار دیا ہے۔ افراد کی ذہنی اور روحانی تربیت کی ذمے داری والدین، مساجد کے آئمہ اور اساتذہ کرام پر عائد ہوتی ہے۔ اسلام میں معاشرے اور افراد کی تر بیت کے یہ تین اہم ستون ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہ ادارے اپنے فرائض اور اپنا کردار ادا کرنے میں بڑی حد تک ناکام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم روز بروز تنزل کا شکار ہیں اور ہمیں اس اندوہ ناک صورت حال سے نجات کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ معاشرتی تربیت میں خاندانی ماحول براہ ِراست کردار ادا کرتا ہے۔

پہلے مشترکہ خاندانی نظام ہوا کرتا تھا۔ جس میں مل بانٹ کے کھانے کا رواج تھا۔ جو اپنے لیے پسند کیا جاتا تھا وہی دوسروں کے لیے بھی پسند کیا جاتا تھا۔ اس نظام میں لوگ تحمل و بردباری سیکھتے تھے اور ایک دوسرے کے خیالات، نظریات و جذبات کا خیال رکھا جاتا تھا۔ اس طرح اس مشترکہ خاندانی نظام میں اگر کوئی معاشی لحاظ سے کم زور بھی ہوتا تھا تو اُسے خاندان کے دیگر لوگ سہارا دیتے تھے۔ لیکن آج کے پُرفتن دور میں سب منتشر ہوگئے ہیں۔ معاشی مسائل نے ہر ایک کی کمر توڑ دی ہے اور انسان کو منتشر کردیا ہے۔ یہی ہمارے انتشار کا باعث ہے۔ معاشی مسائل ہمارے بیشتر مسائل کی جڑ ہیں۔

معاشرے میں طبقاتی تعلیمی دوڑ نے بھی ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہم اپنی استطاعت سے زیادہ اخراجات تعلیمی مصارف پر خرچ کر رہے ہیں اور بچوں کو ان تعلیمی اداروں کے سُپرد کر کے خود بری الذمہ ہوجاتے ہیں، جہاں تعلیم تو ہے لیکن تربیت نہیں۔ شاذ و نادر ہی کبھی والدین اسکول جاتے اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے معلومات حاصل کرتے ہیں۔ تربیت کے باب میں ہم سب بے اعتنائی برت رہے ہیں۔ بد قسمتی سے آج کے اساتذہ بھی تعلیم کو عبادت نہیں کاروبار سمجھتے ہیں۔

اُنہیں صرف اس بات سے سروکار ہوتا ہے کہ طالب علم اپنے نصاب کو رَٹ لیں اور کسی نہ کسی طریقے سے اچھی پوزیشن لے آئیں۔ تعلیم دینا کار پیغمبری ہے لیکن اب یہ منافع بخش کاروبار بن چکی ہے۔ دوسری طرف ہم تعلیم اس لیے حاصل نہیں کر رہے کہ ہم میں شعور بیدار ہو، ہم اچھے انسان، اچھے مسلمان بنیں اور ہماری دانش کو مہمیز فراہم ہو بلکہ اب تعلیم اس لیے حاصل کر رہے ہیں کہ ہمیں اچھی ملازمت ملے اور ہماری زندگی عیش و عشرت سے گزرے۔ اگر ہم تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی نظر رکھتے اور تربیت ہماری اولین ترجیح ہوتی تو ہم اس حال کو نہ پہنچتے۔

یہی حال مدرسوں کا بھی ہے۔ یہ تمام ادارے فرد کے اندر پیدا ہونے والے سوالات کے تشفی بخش جواب دینے کے بجائے انہیں مزید شکوک و شبہات میں ڈال رہے ہیں کہیں ضرورت سے زیادہ لچک و آزادی دے کر اور کہیں بے جا سختیوں اور پابندیوں کے باعث۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم لوگوں کے مسائل کی نہ صرف درست نشان دہی کریں بلکہ انہیں ان مسائل سے نکالنا اپنی ذمے داری محسوس کرتے ہوئے ادا کریں۔

انہیں ابتداء ہی سے اس بات کی تربیت دیں کہ ہم اپنے ہر عمل اور ہر فعل کے لیے اﷲ کو جواب دہ ہیں اور ہماری ذات سے کسی کو بھی ایذا نہ پہنچے۔ ہم مخلوق خدا کے لیے راحت کا سبب بنیں دکھوں اور تکلیفوں کا نہیں کہ اسی میں ہماری دائمی و حقیقی بقا ہے۔ ہمیں دین اسلام کی روشن اور انسان دوست تعلیمات پر نہ صرف خود عمل پیرا ہونا چاہیے، بلکہ اپنے نونہالوں کو بھی ابتدا سے ہی اس کی عملی تربیت دینی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔