کتابوں کی نگری میں

امجد اسلام امجد  اتوار 26 اپريل 2015
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

گزشتہ کالم میں میں نے نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سالانہ کتاب میلے کے حوالے سے کچھ عمومی گزارشات کی تھیں۔ اب اس کانفرنس کے حوالے سے کچھ تاثرات (میں اس پانچ روزہ میلے میں صرف اڑھائی دن ہی شرکت کرپایا کہ پہلے سے طے شدہ کچھ مصروفیت کے باعث مجھے جمعے کی دوپہر کو لاہور آنا پڑا) جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ فی زمانہ کتاب کو درپیش خطرات اپنی جگہ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم آج تک کتاب کلچر اور مطالعے کی عادت کو مستحکم تو کیا ڈھنگ سے قائم بھی نہیں کرپائے۔

مانا کہ اس کے بہت سے تاریخی، تعلیمی، معاشی اور معاشرتی اسباب بھی ہیں لیکن اگر ہم سے بھی کہیں زیادہ اور گوناگوں مسائل کے حامل معاشرے ان سوالات کے جواب دے سکتے ہیں تو ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ بات کو آگے بڑھانے سے قبل میں ایک ایسی بات آپ کے علم میں لانا چاہتا ہوں جس کے بارے میں مجھے بھی دو برس قبل شارجہ میں ہونے والے ایک کتاب میلے میں پتہ چلا تھا اور جس کی تصدیق میں نے کئی معتبر واقفان حال سے بھی حاصل تھی۔

وہ بات یا خبر کچھ یوں ہے کہ متحدہ عرب امارات کی ایک ریاست شارجہ کے حکمران نے (جو تاریخ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی رکھتے ہیں) یہ طور اپنا رکھا ہے کہ وہ ہر اسلامی سال کے آغاز پر اپنی رعایا (جو شارجہ کے پیدائشی شہری اور اس کے پاسپورٹ کے حامل ہوں) کے ہر گھر کو منتخب اور عمدہ کتابوں سے بھری ایک الماری کا تحفہ دیتے ہیں تاکہ ان کے ملک میں علم کی روایت اور کتاب سے دوستی کے رویے کو استحکام مل سکے۔

ہمارے جیسے بہت بڑی آبادیوں والے ملک اور علم اور کتاب سے گریزاں حاکموں میں اس طرح کی کسی رسم کا انعقاد ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہے کہ ہمارے حکمران تو اپنی سرکاری یا قومی زبانوں میں بات یا تقریر کرنا بھی پسند نہیں فرماتے (اس کی طرف چند برس قبل ہی میں نے اپنے انہی کالموں میں کئی بار توجہ دلائی تھی اور جس کا ذکر آج کل چینی صدر کے دورے کے حوالے سے بھی کیا جارہا ہے) وہ قوم میں کتاب سے محبت پیدا کرنے والا کوئی ٹھوس قدم کیوں اور کیسے اٹھائیں گے؟

بات پھر ’’گلۂ حیات‘‘ کی طرف نکل گئی۔ مقصد اس امر کو واضح کرنا تھا کہ کاغذی کارروائی کے حساب سے علمی ادبی تہذیبی اور تعلیمی شعبوں میں تو سرکار بہت بڑے بڑے بجٹ مختص کرتی ہے مگر عملی طور پر اس کا بیشتر حصہ صرف ان کے انتظامی اخراجات اور اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں ہی خرچ ہوجاتا ہے اور جس مقصد کے لیے یہ شعبے قائم کیے گئے تھے ۔

اس کے حصے میں بہت کم بچتا ہے اور اس بہت کم کا زیادہ تر حصہ بھی ان افسران کی ’’کارروائیوں‘‘ کی نذر ہوجاتا ہے جو ان محکموں میں مختلف قسموں کی سفارشوں، اقربا پروری، غلط بخشیوں یا سیاسی دباؤ کی وجہ سے کلیدی پوسٹوں پر لگا دیے جاتے ہیں اور جن میں سے بیشتر ان مناصب کے لیے کوالیفائی ہی نہیں کرتے سو یہ لوگ اپنا ڈنگ ٹپا کر اور باری لے کر کسی اور طرف نکل جاتے ہیں اور یہ شعبے سفید ہاتھیوں کا ایک ایسا قبرستان بن جاتے ہیں جہاں زندگی آمیز اور زندگی آموز بصیرت کی حامل ہر روشنی کا داخلہ ممنوع ہوجاتا ہے۔

کبھی کبھار اگر کچھ ایسے لوگ برسراقتدار آجائیں جن کو اس صورت حال کا احساس ہو اور جو سچ مچ ان کے حالات کو بہتر بنانے کے خواہاں ہوں تو سیاسی معاملات ان کو کچھ اس طرح سے گھیر لیتے ہیں کہ وہ چاہتے ہوئے بھی ان کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دے پاتے البتہ اس کا وعدہ ضرور کرتے ہیں۔ کچھ اسی قسم کا مظاہرہ اس سیمینار کے افتتاحی اجلاس میں بھی دیکھنے کو ملا کہ وفاقی وزیر برائے اطلاعات و کلچر و قومی ورثہ برادرم پرویز رشید نے کتاب کی اہمیت اور اس کے راستے میں حائل مشکلات کو دور کرنے کے بارے میں حکومت کی مساعی اور اپنی دلچسپی کا ذکر بڑے عمدہ اور متاثر کن انداز میں کیا۔

عطاالحق قاسمی اور این بی ایف (NBF) کے ایم ڈی برادرم ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی تقاریر سے بھی گواہی ملی کہ وہ واقعی عملی طور پر اپنا دل اور دروازہ کتاب کلچر کی ترقی کے ضمن میں ہمیشہ کھلا رکھتے ہیں۔ اگلے دن ہمارے دوست اور دانشور وزیر احسن اقبال نے بھی حکومت کے اس عزم کو دہرایا مگر امر واقعہ یہی ہے کہ کتاب، اردو رسم الخط اور تعلیمی نصابات تینوں کا حال اس وقت اچھا نہیں ہے اور ان کی طرف بہت سنجیدہ سطح پر خصوصی اور مسلسل توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں HEC یونیورسٹیوں اور متعلقہ خصوصی اداروں بالخصوص ادارہ قومی زبان (سابقہ مقتدرہ) اکادمی ادبیات پاکستان اور نیشنل بک فاؤنڈیشن کی بھلائی، بہتری، ترقی اور سرپرستی پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔

نیشنل بک فاؤنڈیشن گزشتہ پانچ چھ برسوں سے مسلسل اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ اس بار سیمینار کے آغاز سے ایک دن قبل چینی صدر کی آمد کے باعث ڈاکٹر انعام الحق جاوید اور ان کی ٹیم کو بہت سی غیر متوقع مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کہ

کی وجہ سے پورا اسلام آباد اپنی نارمل حالت میں نہیں تھا لیکن اس کے باوجود ان کے تمام پروگرام معقول حد تک خوش اسلوبی کے ساتھ وقوع پذیر ہوئے اور لوگوں کی حاضری بھی خاصی اچھی رہی بالخصوص انور مسعود کے ساتھ خصوصی نشست میں تو خاصے بڑے ہال کی نہ صرف کوئی سیٹ خالی نہیں تھی بلکہ بہت سے لوگ کھڑے بھی رہے۔ اس سیمینار کو کتاب کے عالمی دن کے ساتھ منسلک کرنے کی وجہ سے 23 سے 26 اپریل تک کے سارے سیشن ہفتے کے ورکنگ ڈیز میں ہوئے۔

اگر انھیں اس سے علیحدہ کرکے جمعے ہفتے اور اتوار کو رکھا جاتا تو یقینا حاضرین کی تعداد کئی گنا زیادہ ہوتی۔ آئندہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس ادارے کی طرف سے اس برس بہت سی اہم اور خوبصورت کتابیں شائع ہوئی ہیں جو یقینا ایک بہت خوش آئند بات ہے مگر میرے نزدیک اتنی ہی ضروری یہ بات بھی ہے کہ لائبریری کلچر کے احیاء کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں اور تعلیمی نصابات میں بھی زبان اور کتاب کے فروغ کے ضمن میں ایسی پیش رفت کی جائے کہ ہر گھر میں کتابیں ہی ہوں اور کتابیں پڑھنے والے لوگ بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔