ہمارا ادبی منظرنامہ ، جریدہ اور دوسری کتب (آخری حصہ)

نسیم انجم  اتوار 26 اپريل 2015
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

معروف دانشور اور مترجم فہیم انصاری کی ادارت میں نکلنے والے سہ ماہی ’اجمال‘ کا سرورق دیدہ زیب اور تحریریں بہت سی معلومات کے در وا کرتی ہیں، اس بار انھوں نے مزید جدت پیدا کی ہے کہ انگریزی اور سندھی کے تراجم بھی شامل کیے ہیں۔ راقم الحروف کا افسانہ ’دوسرا قدم‘ کا ترجمہ ذوالفقار گادھی نے سندھی زبان میں کیا ہے، جب کہ اجمل اعجاز کا افسانہ سمندر اور ترجمہ نگار تشنہ بریلوی ہیں۔

اول الذکر کا عنوان ’روچ‘ اور ثانی الذکر ’ocean and dew‘ ہے، افسانے اور ان کے تجزیہ کے حوالے سے دو افسانے اور ان کا تجزیہ بھی شامل اشاعت ہے ۔

’’ابتدائیہ‘‘ میں مدیر اعلیٰ فہیم انصاری نے کچھ اہم اور تاریخی واقعات کی وضاحت کی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ گزشتہ دنوں ستیہ پال آنند پاکستان تشریف لائے اور خیر پور یونیورسٹی میں انھوں نے ایک بین الاقوامی سیمینار سے خطاب کیا۔ اخبارات میں ان کی تقریر جس طرح رپورٹ ہوئی اس کے مطابق انھوں نے کہا کہ ویتنام کی جنگ کے خلاف امریکا میں بھی رد عمل ہوا اور لوگوں نے گاڑیوں پر جنگ مخالف اسٹیکر لگائے، چہروں پر ایسے ہی نعرے لکھوائے (PAINT) اور مظاہروں کے درمیان وقفے وقفے سے تین مرتبہ گاڑیوں کے ہارن بجا کر جنگ کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیا اور یہ سلسلہ ویتنام کی جنگ کے خاتمے تک جاری رہا۔

ان کی اس گفتگو کا مجموعی تاثر یہ بن رہا تھا کہ امریکا میں ویتنام کی جنگ مخالف جذبات کے باعث امریکا کو ویتنام سے فوجیں واپس بلانی پڑیں۔ ایک ملاقات میں، میں نے جب استفسار کیا تو انھوں نے ایسا ہی کہا تھا، ویتنام کی جنگ میں امریکی ہزیمت اب تاریخ کا حصہ ہے کوئی بھی تشریح یا تاویل اس کو تبدیل نہیں کر سکتی، ستیہ پال آنند کے حافظے میں یہ بات ضرور ہو گی کہ ویتنام میں امریکی قبضے اور جنگی جنون کے خلاف بدھ بھکشوؤں نے عام مقامات پر خود سوزی شروع کر دی تھی اور یہی وہ زمانہ تھا جب امریکا میں جنگ مخالف جذبات کا اظہار ہونا شروع ہوا تھا۔

کہنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ ویتنام کی جنگ کے خلاف امریکی رائے عامہ کا اظہار بے سود تھا، یقیناً اس کے اپنے اثرات ہوئے لیکن جو حکومت خود سوزی کو ذرا بھر اہمیت نہ دے وہ گاڑیوں کے ہارن بجانے کو اہمیت دے گی؟ یہ بات درست نہیں، اصل بات یہ ہے کہ امریکا ویتنام میں عسکری ناکامی سے دو چار ہوا تھا اور اس کی کوئی تاویل و تشریح ناقابل قبول اور غلط ہے‘‘

’’ادبی شگوفے‘‘ بھی شامل کر کے رسالے کے قاری کے لیے ایک طرف معلومات اور دوسری طرف مسکرانے کے مواقعے فراہم کیے گئے ہیں اور ایک حیرت انگیز انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ سینئر صحافی اور ٹی وی اینکر آغا مسعود حسین بھی افسانے لکھنے لگے ہیں۔ ’’اجمال‘‘ میں ان کا افسانہ ’’چھوٹا چھوٹا ہی تھا‘‘ شامل ہے، بہرحال خوشی کی بات جب قلم ہاتھ میں آ جائے تو قلمکار کا کسی بھی اصناف کی طرف رخ مڑ سکتا ہے، بشرطیکہ صلاحیت اور لگن ہو۔

میں نہ درویش نہ صوفی نہ قلندر عارف
اور ہی کچھ مجھے وجدان بنا دیتا ہے

درج بالا شعر ملک کے مشہور شاعر عارف شفیق کا ہے، ان کا حال ہی میں شعری مجموعہ میرے کشکول میں ہیں ’’چاند سورج‘‘ منظر عام پر آیا ہے، یہ بڑی خوش نصیبی اور نیک نیتی کی بات ہے کہ ایک قلمکار کی دسترس میں چاند اور سورج آ جائیں تو پھر شمس و قمر جیسی شاعری کی روشنی کیوں نہ دور دور تک پھیلے گی۔ ایک حقیقت کی طرف بھی عارف شفیق نے اشارہ اس شعر کے ذریعے اس طرح کیا ہے کہ:

کراچی شہر میں طوفان کوئی آ نہیں سکتا
تری درگاہ سے آگے سمندر جا نہیں سکتا

اﷲ کے حکم سے گزشتہ برسوں سے حالات بالکل ایسے ہی ہیں۔ بڑا شور سنتے ہیں کہ سمندری طوفان کراچی کی طرف بڑھ رہا ہے لیکن اﷲ کی شان اور حضرت عبداﷲ شاہ غازی رحمتہ اﷲ علیہ کی دعائیں کہ یہ طوفان اپنا رخ موڑ لیتا ہے۔

سبحان اﷲ امجد اسلام امجد، عارف شفیق کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’عارف شفیق ایک سوچنے، غور کرنے، تجزیہ اور سوال کرنیوالے شاعر ہیں وہ نہ صرف ہر نوع کی بے انصافی اور زیادتی کی کھل کر نشاندہی کرتے ہیں اور اس پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں، بلکہ ان کی شاعری میں زندگی کی بہت سی حقیقتوں کی ترجمانی بھی نظر آتی ہے جس کی ایک زندہ مثال ان کی غزلوں کا نیا مجموعہ ہے، عارف شفیق کی شاعری میں تشبیہات و استفسارات جا بجا نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر اشعار:

ایک لشکر ہے یا جوج مأجوج کا اے خدا اے خدا
تیرا پرچم لیے میں ہوں تنہا کھڑا اے خدا اے خدا
جس نے غار حرا میں اجالا کیا حکم تیرا دیا
امتی ہوں میں اس کا میں بندہ تیرا اے خدا اے خدا‘‘
عارف شفیق کی شاعری ندرت خیال اور فکر جمال کی عکاس ہے۔

’’ماہنامہ ادبی دنیا‘‘ سے شائع ہونے والی کتاب 112 صفحات کا احاطہ کرتی ہے اور قارئین میں تحریک پیدا کرنے کی باعث بھی ہے۔

پچھلے کالم میں، میں نے ایک کتاب ’’استعارہ میری ذات کا‘‘ ذکر کیا تھا یہ کتاب BPH پرنٹر لاہور سے شائع ہوئی ہے اور اس کی مصنفہ فرحت نواز صاحبہ ہیں جو کہ ملتان میں رہائش پذیر ہیں اور ایک مقامی کالج میں تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں تقریباً بیس سال بعد انھوں نے گلستان شاعری میں دوبارہ قدم رکھا ہے اس اعتماد اور یقین کے ساتھ کہ وہ اب تخلیق سے رشتہ جوڑے رکھیں گی۔

اور یہ اعتماد اس لیے پیدا ہوا کہ حیدر قریشی نے انٹرنیٹ پر انھیں دوبارہ دریافت کر لیا تو یقیناً فرحت کی حوصلہ افزائی ہوئی، امید کی شمع روشن ہوئی اور تخلیقی صلاحیتیں کاغذ پر اپنا رنگ جمانے کے لیے بے چین ہو گئیں، میں نے فرحت نواز کی نظمیہ و غزلیہ شاعری کے علاوہ ’’ما ہیئے‘‘ بھی پڑھے ان کی شاعری نے مجھے اس لیے متاثر کیا کہ انھوں نے معاشرتی سچائیوں کو شاعری کا پیکر عطا کیا ہے، فرحت کی شاعری ان کی ذات کے گرد بھی گھومتی ہے اور زمانے کے چلن رسم و رواج کو بھی اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔

ان کی شاعری میں اتنا دم ہے کہ قاری کو پڑھنے پر مجبور کر دے، جناب عبداﷲ جاوید نے ان کی شاعری کے بارے میں کہا ہے کہ ’’اس نے کسی مکتب یا تحریک تک اپنی شاعری کو محدود نہیں ہونے دیا، کہیں کہیں اس کی شاعری نسائیت کی تحریک سے مملو محسوس ہوتی بھی ہے تو اس کو اس حد تک ذاتی بنا دیا ہے کہ قاری کو تحریک کا نہ تو کوئی جھنڈا نظر آتا ہے اور نہ کوئی پوسٹر یا بینر، فرحت نواز کی منظومات میں ایسی نظمیں بھی ملتی ہیں جن پر آپ بیتی کا گمان ہوتا ہے تو چند ایک ایسی نظمیں بھی ہیں جن پر جگ بیتی کا، ان نظموں سے قاری کا واسطہ پڑتا ہے جو فکر آمیز ہونے کے ساتھ ساتھ فکر انگیز بھی ہیں‘‘

فرحت نواز کی شاعری کی ابتدا ’’حمد میرے پیارے خدا‘‘ سے ہوئی ہے دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی آواز التجا کی صورت اختیار کر گئی ہے، رب سے مانگنے کا یہی طریقہ ہونا چاہیے۔

خدا، سن میری التجا، بخش دینا گنہ میرا نامۂ اعمال، روشن نہیں ہے ذرا۔ میں نے نیکی نہیں کی۔ میری نیت میں اخلاص آیا نہیں۔ ایک سجدہ بھی ایسا ادا نہ ہوا۔ جس میں مری طلب صرف تو ہی رہا۔
نعت کا مطلع ملاحظہ فرمایئے۔

الٰہی دے مجھے توفیق شان مصطفیؐ لکھوں
قلم زم زم سے دھولوں پھر محمد مجتبیٰ لکھوں

سبحان اﷲ۔ فرحت نواز کی شاعری میں کہیں ندرت نظر آتی ہے تو کسی شعر میں سطوت نمایاں ہے، یہی ان کی شاعری کا انداز فکر ہے ’’انوکھی تاجپوشی‘‘ ’’فرعون کی کرسی‘‘ ’’اب نیا دور ہے‘‘ یہ وہ نظمیں ہیں جن میں سماج کی تلخ حقیقتیں، اقتدار کی ہوس اور حکم حاکم مرگ مفاجات کے معاملات کو شاعری کی زبان خوصورتی اور درد مندی کے احساس کے ساتھ عطا کر دی ہے، فرحت نواز کی شاعری میں دل کا درد روح کا کرب اور زمانے کی نا انصافیاں اور نا ہموار معاشرے کی وہ راہیں نظر آتی ہیں جن پر چلنے والوں کے پاؤں لہو لہان ہو جاتے ہیں لیکن منزل کی طلب آگے بڑھنے اور مزید چلنے کا درس دیتی ہے یہ معاملہ فرحت نواز کے ساتھ نہیں تمام اہل قلم کے ساتھ ہے کہ حساس ہونے کے ناطے دل چھلنی ہو چکا ہے۔

’’تمہارا ادبی منظر نامہ‘‘ ایک ایسا موضوع ہے جس کے ذریعے بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے اور حیدر قریشی نے کوشش بھی کی ہے لیکن بہت سے قلمکاروں، قارئین و ناقدین کو یقینا تشنگی بھی محسوس ہو گی کہ یہ ان کا حق ہے۔ لیکن مصنف اپنی کاوش میں ایک حد تک کامیاب ہو گئے ہیں ایک ہزار صفحات، تھوڑے نہیں، بہت ہوتے ہیں۔

حیدر قریشی نے اردو زبان و ادب کے چند مسائل ’’اوراق گم گشتہ، میرا جی شخصیت اور فن، ’’سلطان جمیل نسیم‘‘ قصہ قدیم و جدید، ادب میں سرقہ اور جعلسازی، تبصرے، تاثرات، پس دیوار گریہ‘‘ شہناز نبی، دل چھونے والا منظر وضاحت نسیم، ’’نرک‘‘ نسیم انجم، پوپ کہانی کا ’’قضیہ‘‘ فیمینزم، تاریخ و تنقید اسی طرح کے بے شمار مضامین کو شامل کتاب کیا ہے، حیدر قریشی تعریف و توصیف اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔