یہ نازک نازک غنچے…

شیریں حیدر  اتوار 26 اپريل 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

میری بیٹی کی سہیلیاں خوش گپیوں میں مصروف تھیں اور میں ان کی خاطر داری میں، اسکول کالج کے زمانے کی سہیلیاں جب عملی زندگی میں قدم رکھتی ہیں تو ان کی مصروفیات اور حالات انھیں کہاں ایسے مواقع دیتے ہیں، سو میں بھی انھیں گپ شپ میں مصروف دیکھ کر اپنے کام کار کرتی رہی، چائے کے بعد کھانا-تبھی ان میں سے ایک، جس کا نام حنا تھا میرے پاس کچن میں آ گئی، وہ جا رہی تھی اور مجھے خدا حافظ کہنے آئی تھی-’’بیٹھتیں بیٹا تم بھی، ابھی تو سب بیٹھی ہیں!!‘‘

’’ چلتی ہوں آنٹی، عمار کو گھر چھوڑ کر آئی ہوں !!‘‘ اس نے اپنے بیٹے کا کہا-
’’ اس کا کیا ہے، وہ تو پہلے بھی اپنی دادی اور پھوپھو کے پاس رہتا ہے… پچھلی بار تم آئیں تو تم نے بتایا تھا!‘‘

’’ نہیں آنٹی میری ساس اور نندیں تو گھر پر ہیں ہی نہیں …‘‘ہم بات کرتے کرتے لاؤنج میں آ گئے جہاں باقی سہیلیاں قہقہے لگا کر ہنس رہی تھیں- ’’ تو اسے کیا اس کے پاپا کے پاس چھوڑا ہے تم نے؟ ‘‘میں نے سوال کیا-

’’ نہیں آنٹی، اپنے ملازم کے پاس چھوڑنا پڑا… ‘‘ اس نے منہ لٹکا کر کہا، ’’مجبوری تھی ورنہ میں عموما چھوڑتی نہیں!!‘‘

’’ تم کتنے بجے صبح گھر سے نکلی تھیں؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا-’’ دس بجے آنٹی!! ‘‘ا س کے چہرے پر حیرت کا لیپ ہو رہا تھا- ’’ اب تین بج رہے ہیں…تو گویا تمہارا سال بھر کا بیٹا پچھلے پانچ گھنٹے سے تمہارے ملازم کے پاس تنہا ہے، اس دوران گھر پر اور کوئی تھا بھی نہیں؟ ‘‘

’’ آنٹی وہ ہمارا بڑا اچھا ملازم ہے… چھوٹا سا لڑکا ہے، اٹھارہ انیس سال کا، وہ اچھی طرح عمار کو سنبھال لیتا ہے، اس کا دودھ وغیرہ بھی بنا لیتا ہے،ڈائپر بھی!!!‘‘

’’ تم اٹھو اور فوراً گھر جاؤ، ابھی اسی وقت، ایک لمحہ ضایع کیے بغیر… اس وقت میں تم سے تفصیل سے بات بھی نہیں کر سکتی!!‘‘ میں نے اسے تقریبا دھکیل کر گھر سے نکالا، اسے یقیناً برا بھی لگا ہو گا، باہر کا دروازہ بند کر کے اندر آئی تو ساری سہیلیاں یوں تھیں جیسے انھیں سکتہ ہو گیا ہو-

’’ مما مجھے معلوم ہے کہ آپ کے یوں کرنے میں کوئی نہ کوئی وجہ ہو گی مگر آپ کا انداز مجھے اچھا نہیں لگا تو حنا کو تو اور بھی برا لگا ہو گا!!‘‘ میری بیٹی نے کہا- ’’ میں حنا سے معذرت کر لوں گی، مگر اس وقت میری چھٹی حس خبردار کر رہی تھی کہ کہیں دیر نہ ہو جائے!!‘‘ ’’ کس چیزکی دیر مما؟ ‘‘اس کے چہرے پر حیرت تھی- ’’ اس کا چھوٹا سا بیٹا ملازم کے پاس کئی گھنٹوں سے تنہا تھا … ‘‘’’ تو کیا ہوا آنٹی ہم سب کو کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی وجہ سے بچے ملازموں اور آیاؤں پر چھوڑنا پڑتے ہیں!!‘‘

بیٹی کی ایک سہیلی نے کہا- ’’ اور پھر آنٹی عمار حنا کا بیٹا ہے، کوئی لڑکی تو نہیں جو کسی قسم کی پریشانی ہوتی!!!‘‘ دوسری نے حجت کی-

’’اس بات پر کوئی compromise نہیں بیٹا‘‘ میں نے سختی سے کہا، ’’بیٹا نہ بیٹی، مرد ملازم نہ عورت ملازم … اور تو اور کوئی سگا اور محرم رشتہ دار بھی ہو تو اپنے بچوں کو ان کے پاس تنہا کبھی نہ چھوڑیں!!‘‘ ’’کیا ہو گیا مما… ‘‘میری بیٹی نے بحث کی، ’’مجبوری بھی کسی چڑیا کا نام ہے!!! ‘‘

’’ مجبوری چڑیا ہو گی یا نہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ ہر انسان کے ساتھ جس طرح اللہ ہمہ وقت موجود ہوتا ہے اسی طرح اسے بہکانے اور ورغلانے کو شیطان بھی ساتھ ہوتا ہے اور تنہائی سب سے بڑا عفریت ہے، کسی بھی آدمی کو شیطان ورغلا کر اس کی آنکھوں پر ایسی پٹی باندھ دیتا ہے کہ اس کو رشتوں ناطوں کی پہچان بھول جاتی ہے، ہوس ایک ایسا ہی اندھا بھوت ہے بیٹا!!!‘‘و ’’اتنے معصوم سے بچے کے ساتھ کوئی کیا کر لے گا آنٹی؟ ‘‘ ایک نے حیرت سے پوچھا-’’ سب سے کم کوئی کرے گا تو اسے کچھ گندا مندا کھلا دے گا۔

خود تم لوگ اتنی احتیاط کرتی ہو، برتن یا فیڈر گندا نہ ہو، دودھ خراب نہ ہو، ٹھنڈا نہ ہو، بچے کے گلے میں کھانا پھنس نہ جائے… ‘‘میں رکی، ’’یہ تو سب سے کم ہے اور اس سے بچہ بیمار پڑ جائے گا، تمہیں اندازہ بھی نہ ہو گا کہ غفلت کب اور کہاں ہوئی… بچے کو کوئی اغوا کر سکتا ہے، تاوان وصول کرنے کے لیے، تمہارے ملازموں کی ماہانہ تنخواہ تمہارے بچے کے ایک دن کے اخراجات کے برابر ہو گی، بچے کو مار سکتے ہیں ملازم…‘‘

’’ ماریں گے کیوں ؟ ‘‘ ’’ ہم مائیں ہوتی ہیں جنھیں اپنا بچہ دنیا میں سب سے پیارا ہوتا ہے مگر کبھی جو بچہ خواہ مخواہ رونا شروع کر دیتا ہے تو ہم تنگ پڑ جاتی ہیں، ظاہر ہے کہ اتنا سا بچہ بول کر تو کچھ بتا نہیں سکتا!! ملازم تو چڑ کر کچھ بھی کر سکتے ہیں !!‘‘

’’ ڈرائیں نہیں آنٹی!!! ‘‘ایک منحنی سی آواز آئی-

’’ زیادتی بھی کر سکتے ہیں بچوں کے ساتھ… ‘‘میں نے گہری سانس لی، ایسے واقعات تو سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے مگر ان بچیوں نے ابھی شاید دنیا اتنی نہیں دیکھی، انہیں اس حوالے سے آگاہی دینا ہمارا فرض ہے- ’’ اتنے چھوٹے سے بچے کے ساتھ کوئی زیادتی کیسے کر سکتا ہے اور پھر لڑکوں کے ساتھ ؟؟‘‘ اس کے سوال میںحیرت کا رنگ تھا-’’ کیا تم نے کبھی اخباروں اور ٹیلی وژن پر ایسے واقعات کے بارے میں نہیں سنا؟ ‘‘

میں نے گفتگو جاری رکھی، ’’ جب نفس پر شیطان غالب آ جاتا ہے تو صرف اپنی خواہشات نظر آتی ہیں اس کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتا…‘‘ ’’ حیرت ہے آنٹی، اتنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کس طرح ہوتے ہیں، ان معصوم فرشتوں پر ترس نہیں آتا ظالموں کو؟ ‘‘ ’’ چھوٹے بچوں کے ساتھ زیادتی کر کے کسی کو حاصل کیا ہوتا ہے بھلا؟ ‘‘ایک سوال کیا گیا-

’’ حاصل تو کسی کو کچھ نہیں ہوتا مگر نفسانی خواہشات کی تکمیل کا گھٹیا ترین طریقہ اختیار کر کے معصوم بچوں کی زندگیاں داؤ پر لگا دی جاتی ہیں… اس وقت دنیا بھر میں 19.7 فیصد معصوم لڑکیاں اور 7.9 فیصد معصوم لڑکے زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں، بلکہ یہ کہنا بہتر ہے کہ اتنے کیسز رپورٹ کیے جاتے ہیں-

بد قسمتی سے جو بچے زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں اس میں سے تیس فیصد بچے اپنے قریبی رشتوں مثلاً دادا، نانا، چچا ، ماموں، بھائی اور کزنز وغیرہ کے ہاتھوں اور ساٹھ فیصد اپنے جاننے والوں مثلا اہل محلہ، ہمسائے، والدین کے دوست، اسکولوں کے گارڈ اور چوکیدار، اسکول وین وغیرہ کے ڈرائیورز، محلے کے دکاندار اور گھریلو ملازمین ہوتے ہیں … مکمل اجنبیوں کے ہاتھوں زیادتی کے واقعات محض دس فیصد کیسز میں ہوتے ہیں!!!‘‘ میں نے بچیوں کو سمجھانے کے لیے وہ سب خوفناک حقائق ان کے سامنے رکھے جنھیں پڑھ کر میری نیندیں اڑ گئی تھیں-

’’یا خدایا!!!‘‘ ایک آواز آئی، ’’ان مردوں کا تو… ‘‘ ’’ صرف مرد ہی نہیں بیٹا… زیادتی کے واقعات میں 14 فیصد مجرم عورتیں ہوتی ہیں!!!‘‘ میرے اس انکشاف پر تو ان کی چیخیں ہی نکل گئیں، میں نے مختصراًانھیں وضاحت کر کے بتایا-’’ اس کا مطلب ہے کہ بچوں کے معاملے میں کسی پر بھی اعتماد نہ کریں ؟ ‘‘میری بیٹی نے پوچھا-

’’ قطعی نہیں… ‘‘میں نے کہا، ’’اپنی ہر قیمتی چیز سے بڑھ کر ان کی حفاظت اور دیکھ ریکھ کریں، کبھی انھیں کسی خونی رشتے کے پاس بھی اس طرح تنہا چھوڑ کر نہ جائیں کہ اس ایک شخص کے سوا گھر میں دوسرا اور کوئی نہ ہو، ملازمین پر تو بالکل اعتماد نہ کریں، نہ مردوں پر نہ عورتوں پر، بیٹوں کے معاملے میں نہ بیٹیوں کے معاملے میں… یہ نازک پھول زیادتی کی گرم ہوا سے مرجھا جاتے ہیں!!!‘‘

سب کی آنکھوں میں آنسو تھے، سب مائیں تھیں اور ان کی گودوں میں بچے تھے یا گھروں پر اپنے بچے چھوڑ کر آئی تھیں، جانے کو تیار ہو گئیں… ’’ ہم سمجھائیں گے حنا کو کہ آپ نے اسے واپس جانے پر کیوں مجبور کیا!‘‘ میری بیٹی نے کہا-’’ ارے نہیں… ‘‘میں نے فوراً کہا، ’’ میں خود اسے کال کر کے معذرت کروں گی، سمجھاؤں گی اور کہوں گی کہ کسی روز وہ دوبارہ اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر آئے اور تم سب لوگ شام تک اکٹھے وقت گزارو!!‘‘ ’’ جی آنٹی!! ‘‘ انھوں نے میری تائید کی ا ور اللہ حافظ کہہ کر رخصت ہوئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔