- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ 8 بار کے اولمپک گولڈ میڈلسٹ یوسین بولٹ سفیر نامزد
- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
- ویمنز کوالیفائر؛ آئی سی سی نے ثنامیر کو ’’برانڈ ایمبیسڈر‘‘ مقرر کردیا
- پی او بی ٹرسٹ عالمی سطح پر ساڑھے 3لاکھ افراد کی بینائی ضائع ہونے سے بچا چکا ہے
- ایف بی آر نے ایک آئی ٹی کمپنی کی ٹیکس ہیرا پھیری کا سراغ لگا لیا
- سیاسی نظریات کی نشان دہی کرنے والا اے آئی الگوردم
- خاتون ڈاکٹرز سے علاج کرانے والی خواتین میں موت کا خطرہ کم ہوتا ہے، تحقیق
- برطانیہ میں ایک فلیٹ اپنے انوکھے ڈیزائن کی وجہ سے وائرل
- فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
طنز و مزاح اور بزمِ مزاح پاکستان
انسان اور انسانیت کا موضوعِ بحث ایسا ہے جیسا کہ سمندری اور فضائی لامحدود حدیں۔
خالق حقیقی کے ساتھ محبت کا دعویٰ اس وقت تک غلط ہے جب تک آپ انسانوں کے ساتھ محبت کو اہم نہیں سمجھتے کیونکہ انسان ہی ایک ایسی صنف ہے جس کو ایک ہی باوا آدم کی اولاد ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اسی لیے ڈکنز کا کہنا تھا کہ ’’جب تک انسان زندہ ہیں ان کے دکھوں میں کمی کے لیے ان کی مدد کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی کے مر جانے کے بعد آپ کو خیال آئے کہ اس کی مدد کرنی چاہیے تھی۔‘‘
انسان پیدائشی طور پر خود اپنی ذات میں ایک اداکار ہے اسی لیے ڈراما نگار شیکسپیئر کا قول تھا کہ’’ زندگی ایک اسٹیج کی مانند ہے‘‘ وہ زندگی میں تبدیلی کا خواہاں اور یکسانیت کے خول کو اپنی شخصیت سے اتار کر پھینکنے کا آرزومند ہے۔ آپ کی شخصیت کے معیار کی شناخت آپ کے خوش نما لباس یا آپ کے مادی وسائل سے ہرگز نہیں بلکہ آپ کی زبان اور گفتگو کے انداز سے ہے۔ زندگی میں آگے بڑھنے کی جستجو اس کی سماجی ضرورت ہے۔
آگے بڑھنے کے لیے جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت کا بھی ہونا ترقی کی بنیادی شرط ہے۔ انسانوں میں سماجی طور پر گھل مل جانا، خود ہنسنا اور دوسروں کو ہنسانا بھی ذہنی صحت کی علامت ہے اور کچھ وقت کے لیے ذہنی کھنچاؤ اور غم و فکر سے نجات بھی حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد کا حصہ ہیں یہی ہمارا جزو ایمانی ہے۔
گزشتہ ماہ پاکستان آرٹس کونسل کی ادبی کمیٹی کے زیر اہتمام آرٹس کونسل کراچی کے ایک ہال میں ’’بزم مزاح پاکستان‘‘ کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی، جس میں نامور مہمانانِ گرامی کے علاوہ حاضرین محفل کی ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت فرما کر محفل کو چار چاند بخشا۔ اس بزم کی خاص بات یہ تھی کہ اس کی صدارت ملک کی دو اہم شخصیات سابقہ گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل معین الدین حیدر اور معروف سماجی شخصیت سردار یٰسین ملک کی شرکت تھی۔
محفل کیا تھی مزاح و ظرافت کا منبع تھی۔ ماضی میں کوئی فلم، ڈرامہ، تھیٹر، اسٹیج کامیاب نہیں ہوتا تھا جس میں مزاحیہ کردار شامل نہ ہوں بلکہ یوں سمجھیے کہ مزاحیہ کردار فلم، ڈرامہ کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ ماضی میں فلمی دنیا کے حوالے سے شہنشاہ ظرافت منور ظریف، رنگیلا، ننھا، لہری اور دیگر کے نام قابل ذکر ہیں۔
ٹی وی ڈرامہ کے مزاحیہ کردار کمال احمد رضوی، عرفان کھوسٹ، معین اختر، انور مقصود اور دوسرے بے شمار مزاحیہ کردار نے ڈرامے کی افادیت اور اہمیت کو قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ادھر تھیٹر یا اسٹیج ڈراموں کے بے تاج بادشاہ عمرشریف، شکیل صدیقی، رؤف لالہ اور سلیم آفریدی، حنیف راجہ اور دیگر اداکاروں کے نام سرفہرست ہیں۔ رزاق راجو کیا کمال کے مزاحیہ اداکار تھے۔
ہمارے لیے باعث فخر انھیں مزاحیہ اداکاروں نے نہ صرف بھارت میں شاندار کارکردگی دکھا کر شائقین سے خوب داد وصول کی بلکہ بھارتی اداکاروں نے بھی مزاح کا فن ان ھی پاکستانی اداکاروں سے سیکھا۔ فلم ٹی وی تھیٹر کا بنیادی مقصد قوم کو معاشرے میں ہونے والی مثبت اور منفی دونوں سرگرمیوں اور رسم و رواج کا واضح پیغام دینا ہے۔ مزاح کا عنصر بھی کمیونیکیشن کا ایک اہم آلہ ہے۔
تعمیری انداز میں مثبت تعمیری تنقید اسی جگت بازی کے انداز میں سر انجام دینے کا نام ہی مزاح ہے۔ بزم کے قیام کا مقصد بھی یہی ہے کہ مزاح جیسے حساس شعبے کو ہر سطح پر زیادہ سے زیادہ فعال بنایا جائے۔ زمانہ قدیم میں مزاح بھانڈ کا زیور ہوا کرتا تھا جو بادشاہوں اور راجاؤں کے درباروں میں شاہی خاندان کی تفریح کا ذریعہ ہوا کرتے تھے۔ بھانڈ مذاق ہی مذاق میں بادشاہوں، وزیروں، راجاؤں پر تنقید کر دیا کرتے تھے۔
جس سے کسی حد تک ان کی غلطیوں کی اصلاح بھی ہو جایا کرتی تھی۔مزاح اور ہنسنا ہنسانے کے موضوع پر خود ابراہیم لنکن کہتے ہیں ’’میں اگر کبھی کبھار کھل کر ہنسنے کا عادی نہ ہوتا تو یقیناًقبل از وقت مر جاتا۔‘‘ بلاشبہ دوسروں کو ہنسانا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ بالخصوص غموں سے گھائل انسانوں میں مسکراہٹیں تقسیم کرنا، ان کے غموں کو شیئر کرنے کے مترادف ہے۔
مزاحیہ تھیٹر کے فروغ کے لیے آرٹس کونسل آف پاکستان اور ناپا(NAPA) کی کوششیں اس سلسلے میں لائق تحسین ہیں۔ ملک میں سیکڑوں کی تعداد میں الیکٹرونک میڈیا کے تحت قائم ہونیوالے ٹیلی ویژن چینلز کو ابھی مثبت تفریحی پروگرام پیش کرنے میں مسائل درپیش ہیں۔ ٹیلی کاسٹ ہونیوالے ڈرامے سنجیدگی اور یکسانیت کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈرامے خاص شہرت کے حامل نہیں ہو پا رہے ہیں۔ شائقین کی بڑی تعداد کا رجحان تھیٹر کی طرف ہو رہا ہے۔
ٹی وی ڈراموں میں مخصوص کہانیوں، عیش و عشرت کی زندگی دکھانا اور اس میں بھی طویل وقفہ ڈرامے کے تسلسل کو توڑ دیتا ہے۔
مزاح کے فنی کلچر کو کتابی شکل میں رنگ بکھیرنے میں جہاں بے شمار مصنفین کے نام آتے ہیں وہاں قابل ذکر نام مشتاق احمد یوسفی، شفیق الرحمن، کرنل محمد خان، کنہیا لال کپور، شوکت تھانوی، ابن انشاء، ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی، پطرس بخاری، ڈاکٹر محمد یونس بٹ، عطاء الحق قاسمی، قمر علی عباسی۔ حال ہی میں مشتاق احمد یوسفی کی مزاح پر مبنی چار تصانیف ’’آب گم‘ چراغ تلے، زرگزشت، خاکم بدھن‘ کا کتابی ذخیرہ ’مجموعہ‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ اسی طرح مزاحیہ شعراء میں انورمسعود، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، سرفراز شاہد، خالد عرفان، پروفیسر عنایت علی خان، عذرا صادق، عظمیٰ علی خان، روبینہ تحسین بینا، سعید آغا، حیدر حسنین جلیسی عبدالحکیم ناصف اور دیگر نامور معزز شعرائے کرام طنز و ظرافت و مزاح کی نعمتیں شائقین میں لٹا رہے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔