جان جاتی ہے تو جائے

تنویر قیصر شاہد  منگل 28 اپريل 2015
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

تنگ نظر اور شدت پسند گروہ دنیا میں جہاں بھی ہوں گے، آزاد صحافت اور آزاد روش ادب اور ادیبوں سے متصادم ہوں گے۔ اسلامی اندلس میں تو کئی آزادی پسند مسلمان ادیبوں،فلسفیوںاور موسیقاروں کو مذہبی طبقات کی طرف سے تادیب وتعذیب کا ہدف بننا پڑا۔

ان کی شاندار اور بے مثل تصنیفات نذرِ آتش کی گئیں۔ انھیں قتل بھی کیا گیا اور قید بھی۔ آج کا فرانس واویلا کررہا ہے کہ مسلمان شدت پسندوں نے ’’چارلی ہیبڈو‘‘ کے گستاخ خاکہ نگاروں کو قتل کرکے بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے لیکن ماضی کے فرانس کے مذہبی شدت پسند گروہ بھی یہی انداز اختیار کرتے رہے ہیں۔

دراصل یہاں مَیں بھارت کے ایک ابھرتے اور شہرت کی بلندیوں پر پرواز کرتے ہوئے آزادی پسند نوجوان ادیب، شاعر اور ماہرِ تعلیم کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ اس کا نام ہے: پیرومَل موروجن!! یہ صاحب صوبہ تامل ناڈو کے ہیں، وہی تامل ناڈو جس کی ایک خود کش بمبار خاتون نے سابق بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کی جان لے لی تھی۔

ماں کو دو سکھ محافظوں نے قتل کردیا اور بیٹے کو تاملوں نے۔ تو صاحب‘ یہ بھارتی اور تامل ادیب، پیرو مَل‘ اب تک چھ ناول لکھ چکے ہیں۔ ان کے افسانوں کے چار مجموعے شایع ہوکر انھیں ممتاز کر چکے ہیں۔ سیاست و مدنیت پر ان کی نصف درجن کتابیں انعام یافتہ ہیں اور شاعری کے چار مجموعے ان سب کے علاوہ۔ ان کے دو ناول انگریزی میں ترجمہ ہوکر مغربی دنیا سے تحسین وتعریف کے پروانے بھی لے چکے ہیں۔ کینیڈا کا سب سے بڑا ادبی انعام بھی پیرومَل نے حاصل کر رکھا ہے۔

ان کی زیادہ تر تحریریں تامل زبان میں ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ ایک کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر بھی ہیں۔ پھڈا مگر ان کے تازہ ناول پر پڑا ہے جس کا نام ہے: مدھوروباگن۔ بھارت کی مذہبی اور ہندو بنیاد پرست جماعتیں مثلاً ’’وشو ہندو پریشد‘‘ اور ’’راشٹریہ سِوم سیوک سنگھ‘‘ ۔۔۔ جو اپنی خونخواری اور غنڈہ گردی کی وجہ سے خاصی شہرت یافتہ ہیں۔۔۔ پیرومَل کے پیچھے لَٹھ لے کر دوڑ پڑی ہیں۔ ان کا جینا حرام کر دیا گیا ہے، ساتھ ہی ان کے خاندان اور قریبی رشتہ دار بھی کڑکّی میں پھنس گئے ہیں۔

ہندو مذہبی جماعتیں اس ہندو آزاد روش ادیب کو صوبے سے نہیں، ملک ہی سے نکالنے کی درپے ہیں۔ پیرومَل ہیں کہ معافی مانگتے پھر رہے ہیں؛ چنانچہ وہ ادب دشمن بھارتی مذہبی رہنماؤں سے معافی کے خواستگار ہیں لیکن ان کی معافی قبول نہیں کی جارہی۔ پیرومَل پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے اپنے ناول میں ہندو مذہبی مبادیات کی توہین کی ہے، مذہبی مراکز اور منادر کا ٹھٹھہ اڑایا ہے؛ چنانچہ گردن زدنی ہیں۔

یہ تہمت بھی لگائی گئی ہے کہ ناول میں تامل ناڈو کے اس گاؤں اور وہاں کی عورتوں کا مذاق بھی اڑایا گیا ہے جہاں خود ناول نگار نے جنم لیا تھا۔ پیرومَل کہتے ہیں کہ بھلا مَیں اپنے ہی گاؤں کو بے توقیر اور اپنے گاؤں کی خواتین کی لفظی بے حرمتی کا مرتکب کیسے ہوسکتا ہوں؟ وہ کہتے ہیں، میرے ناول کے وہ صفحے اور الفاظ سامنے لائے جائیں جہاں توہین کی گئی ہے لیکن VHP اور RSS کے مذہبی لَٹھ بردار کہتے ہیں کہ آزادی کے عینک میں تمہیں یہ توہین نظر نہیں آتی لیکن ہم غیرت مند دیکھ سکتے ہیں۔

یہ وہی متشدد مذہبی ہندو جماعتیں ہیں جنہوں نے بنگلہ دیش کی معروف ناول نگار ڈاکٹر تسلیمہ نسرین کے توہین آمیز ناول ’’لجا‘‘ کو بھارت میں خود شایع کرایا اور خود ہی تقسیم بھی کیا تھا اور جب تسلیمہ نسرین نے بنگلہ دیش سے راہ فرار اختیار کیا تو اسی ’’آر ایس ایس‘‘ نے اسے پناہ اور مالی امداد فراہم کی تھی۔ یہ سب تردّد اس لیے کیا گیا کہ تسلیمہ نسرین نے اپنے ناول میں اسلام کا مذاق اڑایا تھا۔ ہندو مذہبی جماعتیں اس بے شرمی کے اقدام سے خوش تھیں۔

بال ٹھاکرے نے بھی تسلیمہ کی تعریف کی تھی اور ایل کے ایڈوانی نے بھی۔ اور جب بھارت کے عالمی شہرت یافتہ مصوّر جناب مقبول فدا حسین المعروف ایم ایف حسین نے بعض ہندو دیویوں کو اپنے بُرش کا مرکز بنایا تو یہی ٹھاکرے اور یہی ایڈوانی ان کے خون کے پیاسے بن گئے۔ بالآخر مسٹر حسین کو بھارت تیاگنا پڑا۔ وہ لندن چلے گئے اور وہیں خدا کو پیارے ہوگئے۔ انھیں پدم شری، پدم بھوشن اور بھارت رتن ایسے اعلیٰ ترین بھارتی ایوارڈز سے نوازا گیا تھا مگر کوئی ایوارڈ اور انعام انھیں بنیاد پرست ہندو جماعتوں کے غضب سے نہ بچا سکا۔

اب اڑتالیس سالہ پیرومَل نے اپنے تازہ ناول، جس نے انگریزی میں ترجمہ ہوکر مغربی دنیا میں بھی دھوم مچادی ہے، میں ذرا سے آزاد شبدوں اور لفظوں سے کام لیا ہے تو یہ وِشوہندو پریشد، یہ آر ایس ایس اور یہ بجرنگ دَل والے انھیں جان سے مار دینا چاہتے ہیں۔

پیرومَل نے جان چھڑانے کے لیے یہاں تک پیشکش کردی ہے کہ مَیں وہ مبینہ توہین آمیز صفحے ناول کے آیندہ ایڈیشنوں سے نکال باہر پھینکوں گا لیکن زعفرانی رنگی چولے پہننے والے یہ ہندو مذہبی ٹولے یہ بات بھی مان کر نہیں دے رہے؛ چنانچہ تنگ آکر ناول نگار پیرومَل نے اعلیٰ بھارتی عدالت کے دروازے پر دستک دے کر اپنی بپتا سنائی ہے اور اپنے تعاقب میں لگے ان مذہبی جتھوں کے سارے عذاب ناک قصے جج صاحبان کے روبرو رکھ دیے ہیں۔

انھوں نے عدالت میں پیش ہوکر دس صفحے پر مشتمل اپنے تحریری حلف نامے میں بہت سے انکشافات کیے ہیں جن کے مطالعہ سے عیاں ہوتا ہے کہ بھارت میں دیانتدار لکھاریوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ہرجگہ مذہبی جنونی ان کا جینا دوبھر کیے رکھتے ہیں۔ عدالت کی طرف سے انھیں ذرا سا ریلیف تو ملا ہے، ان کی حفاظت کے لیے پولیس بھی تعینات کردی گئی ہے مگر تابکے؟ وہ کہتے ہیں: ’’مَیں فرار ہوکر بھارت سے باہر نہیں جاؤں گا۔ یہ بزدلی ہے۔ جان جاتی ہے تو جائے۔ ایک دن تو جانی ہے۔‘‘ شاباش شیر کے بچے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پیرومَل کے پَیر کب تک اپنی زمین پر مضبوطی سے جمے رہتے ہیں!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔