کراچی ضمنی الیکشن، نتائج کے مضمرات

ظہیر اختر بیدری  منگل 28 اپريل 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

23 اپریل کے ضمنی انتخابات پرامن طریقے سے انجام پا گئے، یہ انتخابات دراصل کئی سوالوں کا جواب بھی تھے اور اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ بھی گئے ہیں ۔ان انتخابات کے پس منظر اور پیش منظر کا گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت اس لیے ہے کہ ان انتخابات کے نتائج کا ملک کے سیاسی مستقبل سے بہت گہرا تعلق ہے۔

اس سے قبل کہ ہم ان حوالوں سے انتخابی نتائج کا جائزہ لیں ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں، وہ یہ کہ ہر لکھنے والے کا ایک وژن ہوتا ہے، لکھنے والا اپنے وژن کے پس منظر ہی میں واقعات اور مسائل کا جائزہ لیتا ہے۔ جو لکھاری ’ اسٹیٹس کو ‘ کے حامی ہوتے ہیں ان کا ہرجائزہ، ہر تحریر خواہ وہ کتنے ہی خوبصورت نقابوں میں لپٹی ہوئی ہو ’اسٹیٹس کو‘ کی حمایت کرتی نظر آتی ہے کیونکہ ایسے لکھاری نظریاتی سادگی میں مبتلا ہوں یا ذاتی مفادات کے اسیر ہوں ملک و قوم کے لیے اسٹیٹس کو قائم رکھنا ضروری سمجھتے ہیں اور ہر موقع محل کو بڑی ہوشیاری سے اپنے موقف کا جواز بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس قسم کے لکھاریوں کی ہمیشہ پانچوں انگلیاں گھی میں اور سرکڑھائی میں ہوتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ مقبولیت بھی ان کی لونڈی بنی ہوئی ہوتی ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اسٹیٹس کو کے حامیوں کی قلمی مہارت اور نظریاتی سادگی عوام کی زندگیوں کو جمود کا شکار بنا دیتی ہے اور وہ ظلم و استحصال کے خلاف جدوجہد کے بجائے اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں۔

اس حوالے سے لکھاریوں کی دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو ’اسٹیٹس کو‘ کو عوام کا دشمن سمجھتی ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اسٹیٹس کو  توڑنے کی حامی طاقتوں کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ ظلم و استحصال کے اس نظام سے عوام کی جان چھوٹ سکے۔ اس قسم کے لکھاری ہر موقع محل کو اسٹیٹس کو توڑنے کے لیے استعمال کرتے ہیں چونکہ اس قسم کے لکھاری رائج الوقت سیاست اور سیاستدانوں کے خلاف ہوتے ہیں لہٰذا انھیں سخت معاشی مسائل کا شکار رہنا پڑتا ہے۔

یہ ایک بہت بڑی قربانی ہے۔ ہمارے ایک دوست اور نامور لکھاری شکیل عادل زادہ نے ہمارے ایک افسانوی مجموعے ’’ستائے ہوئے لوگ‘‘ کے تعارف میں لکھا تھا کہ ’’جان دینا ہی بڑی قربانی نہیں بلکہ سامنے رکھی ہوئی آسودہ اور عیش وعشرت کی زندگی کو لات مار کر کلفت بھری زندگی کو گلے لگا لینا جان دینے سے بڑی قربانی ہے۔ ایسے لکھاریوں کے نزدیک نہ کسی بڑے سے بڑے سیاسی رہنما کی کوئی اہمیت ہوتی ہے نہ کسی بڑی سے بڑی سیاسی جماعت کی کوئی اہمیت ہوتی ہے اہمیت ان کے نظریات، ان کے منشور اور عوام سے ان کے کمٹمنٹ کی ہوتی ہے۔‘‘

اس تمہید یا پیش لفظ کی ضرورت اس لیے پیش آرہی ہے کہ این اے 246 کے نتائج اپنے اندر ایک جہان معنی رکھتے ہیں اور شدت کے ساتھ متنازعہ حیثیت کے حامل بھی ہیں۔

این اے 246 کے ضمنی انتخابات میں تین اہم جماعتوں نے حصہ لیا۔ ایک متحدہ دوسری تحریک انصاف تیسری جماعت اسلامی۔ اس الیکشن سے  پہلے ایک آپریشن چل رہا ہے اور اس آپریشن کی تشہیر اتنے بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے کہ بڑے سے بڑا غیر جانبدار بھی متاثر ہو رہا ہے۔ الزامات اور سنگین الزامات کی اس موسلا دھار بارش میں ووٹر کا متاثر ہونا ایک فطری بات ہے اور اس حقیقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انتخابی مہم چلائی گئی۔

اس قسم کے سنگین الزامات متحدہ کے کارکنوں پر ہی نہیں لگائے گئے بلکہ متحدہ کی قیادت بھی ان الزامات کی زد میں ہے اور تحریک انصاف اور جماعت اسلامی ان الزامات کی صدائے بازگشت میں اپنی انتخابی مہم چلاتے رہے۔ اس مہم سے متحدہ کی مقبولیت کو نقصان پہنچنا اور انتخابی نتائج پر اس کا اثر پڑنا ایک فطری بات تھی لیکن ایسا ہوا نہیں۔ متحدہ کا نامزد امیدوار 95 ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہوگیا۔

تحریک انصاف 24 ہزار ووٹ لے سکی اور جماعت اسلامی نے صرف 9 ہزار ووٹ حاصل کیے۔ تحریک انصاف نے اپنی حالیہ تحریک کے دوران عوامی مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے تھے، کراچی کے جلسے میں بھی لاکھوں انسانوں کا سمندر عمران خان کے اردگرد ٹھاٹھیں مارتا نظر آیا تھا۔ جماعت اسلامی اپنے ہزاروں نظریاتی کارکنوں کے ساتھ ایک منظم جماعت ہے۔ اس کے رہنما اور کارکن ڈور ٹو ڈور جاکر عوام تک اپنا منشور اور متحدہ کے جرائم گنواتے رہے لیکن ان ساری کوششوں کے باوجود دونوں جماعتوں کے مجموعی ووٹ متحدہ کے ووٹ کے نصف سے بھی کم تھے۔ ایسا کیوں؟

اس کی ایک نظریاتی وجہ تو یہ نظر آتی ہے کہ ان دونوں جماعتوں پر یہ الزام ہے کہ وہ مذہبی انتہا پسند طاقتوں کے حامی رہے ہیں اور پاکستان کے 18 کروڑ عوام مذہبی انتہا پسندی کے سخت خلاف ہیں۔

جماعت اسلامی ایک نظریاتی جماعت ہے، اس کا اپنا ایک منفرد منشور ہے لیکن جماعت اپنی اس انفرادیت کے باوجود 1970 سے 23 اپریل 2015 تک انتخابات میں شکست سے دوچار ہوتی رہی ہے۔ جماعت کے نئے امیر نے جماعت کی روایت سے ہٹ کر حکومت اور ملک کے موجودہ نظام کے خلاف شدت سے آواز اٹھائی اور مزدوروں کسانوں کے مسائل کو بھی ہائی لائٹ کیا۔

ان ساری کوششوں کے باوجود کراچی کے عوام نے اسے بری طرح مسترد کردیا۔ بجائے الزام تراشی کے جماعت کو اپنے منشور اور اپنی روایتی سیاست کا جائزہ لینا چاہیے اور ان خامیوں کو تلاش کرنا چاہیے جو عوام کی بے اعتناعی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔

عمران خان نے اگرچہ 14 اگست 2015 کے بعد بے پناہ شہرت حاصل کی اور عوام کی بے پناہ حمایت بھی انھیں ملی لیکن امپائر کی انگلی پر بھروسہ کرنے کے ساتھ ساتھ کپتان نے  ایسی غلطیاں کیں کہ عوام ان سے بد دل ہوتے گئے۔

جس کا نتیجہ 246 کے نتائج کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ عمران خان جب تک نظریاتی بھول بھلیوں کے دلدل میں پھنسے رہیں گے اور عوام پر اعتماد کرنے کے بجائے ’’خواص‘‘ پر بھروسہ کرتے رہیں گے دوبارہ عوام میں مقبولیت حاصل نہیں کرسکیں گے۔

اب سوال رہ جاتا ہے این اے 246 سے متحدہ کے امیدوارکی قابل ذکر کامیابی کا۔ تو عرض ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ایک تو آپریشن کے امتیازی ہونے کا تاثر پیدا کیا دوسرے ملزموں اور مجرموں میں امتیاز کو بالائے طاق رکھ کر ایسے اقدامات کیے جس سے عام آدمی یہ سمجھنے لگا کہ کراچی کے شہریوں کی توہین و تذلیل کی جا رہی ہے۔ یہ تاثر خاص طور پر اردو اسپیکنگ کمیونٹی میں پیدا ہوا اور یہی تاثر انھیں پولنگ اسٹیشنوں تک اور متحدہ کے امیدوار کی حمایت کی طرف لے گیا۔

اصل مسئلہ محض اردو بولنے والی کمیونٹی کا نہیں بلکہ اس ملک کے 18 کروڑ عوام کا ہے جن کی 68 سالوں سے مسلسل قدم قدم پر توہین  کی جا رہی ہے اور انھیں غلام بناکر رکھا گیا ہے۔ اور یہ سب وہی ٹولہ کر رہا ہے جو 68 سالوں سے اس ملک پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے۔ اگر مڈل کلاس پر مشتمل جماعتوں نے اپنی اصلاح نہ کی اور اپنے ذاتی اور جماعتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اس قبضہ مافیا کے خلاف متحد نہ ہوئے تو وہ این اے 246 قسم کی جنگوں میں الجھ کر اپنی طاقت ضایع کرتے رہیں گے اور اسٹیٹس کو کے سرپرست حکومت پر قابض رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔