سزائے موت کا فیصلہ اور معروضی حالات

شکیل فاروقی  منگل 28 اپريل 2015
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

چند روز قبل اقوام متحدہ کے ترجمان ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان پھانسیوں پر پابندی عائد کرے۔ اپنے اس مطالبے کے ساتھ ہی انھوں نے یہ وضاحت بھی فرمائی کہ اقوام متحدہ کے 160 سے زائد رکن ممالک میں موت کی سزا ختم کی جاچکی ہے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی استدلال تھا کہ زندہ رہنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ نیز 21 ویں صدی میں سزائے موت کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے ترجمان کے نکات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 160 ملکوں کو شاید انسانی حقوق کا سب سے زیادہ شعور اور احساس ہے جب کہ پاکستان جیسے چند ممالک ایسے رہ گئے ہیں جو بے حسی کا شکار ہیں اور اسی لیے وہاں انسانوں کو تختہ دار پر لٹکایا جا رہا ہے۔ اس قسم کی حرکات کا اصل اور بنیادی مقصد کسی نہ کسی بہانے ہمارے وطن عزیز کو بدنام اور رسوا کرنا ہے تاکہ اقوام عالم کی برادری میں اس کے مقام کو گرا کر پیش کیا جائے۔

دنیا کے مختلف ممالک کا جائزہ لینے سے جو نقشہ ابھر کر ہمارے سامنے آتا ہے اس کے مطابق اقوام متحدہ کے 115 رکن ممالک میں سزائے موت پر مکمل پابندی عائد کی جاچکی ہے۔ ان ممالک کی مجموعی آبادی ایک ارب 37 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔

دنیا کے 17 ممالک میں سزائے موت کا قانون ابھی تک لاگو ہے جن میں ہمارا ملک پاکستان بھی شامل ہے جس کا آئین پھانسی کی سزا کی اجازت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل، برازیل اور قازقستان سمیت 8 ممالک ایسے ہیں جہاں ازروئے قانون موت کی سزا تاحال برقرار ہے۔ ان ملکوں میں موت کی سزا فوجی، جنگی اور خصوصی نوعیت کے چند جرائم کی پاداش تک محدود ہے۔

امریکا میں بھی وفاق کی سطح تک موت کی سزا قانوناً اور عملاً رائج ہے جب کہ اس کی 52 ریاستوں میں سے 18 ریاستوں میں موت کی سزا ختم کی جاچکی ہے۔ تاہم 32 ریاستوں میں قانون اور عملاً سزائے موت ابھی تک رائج ہے جس میں واشنگٹن جیسی اہم اور مشہور و معروف ریاست بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ کے 57 ممالک میں پھانسی کی سزا ابھی تک قانوناً اور عملاً رائج ہے۔

ان میں چین، بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، امریکا، جاپان، ایران، سعودی عرب، انڈونیشیا، مصر اور کانگو بھی شامل ہیں۔ دنیا کی کل 7 ارب 3 کروڑ کی آبادی میں پھانسی کی سزا پر عمل کرنے والے ان ممالک کی مجموعی آبادی 4 ارب 67 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔

امریکا کی صرف تین ریاستیں ایسی ہیں جن میں موت کی سزا پر 9 ویں صدی سے ہی پابندی عائد ہے۔ ان میں ریاست مین (Maine)، وسکونسن اور مشی گن شامل ہیں جہاں بالترتیب 1887، 1835، اور 1846 سے سزائے موت ختم ہوچکی ہے۔

یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ امریکا کی نصف درجن ریاستیں ایسی ہیں جہاں سزائے موت کا خاتمہ 21 ویں صدی میں ہوا۔ ان میں نیویارک، نیوجرسی، نیومیکسیکو، الی نائز اور میری لینڈ کی ریاستیں شامل ہیں۔

کسی زمانے میں انگلستان میں سو جرائم کی سزا موت تھی جن میں جیب تراشی کا جرم بھی شامل تھا۔ سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ پھانسی کی سزا کھلے میدان میں دی جاتی تھی تاکہ دیکھنے والے لوگ اس سے عبرت حاصل کرسکیں۔ مگر اب انگلستان میں موت کی سزا پر مکمل پابندی عائد ہے۔ دنیا میں بعض ممالک ایسے بھی ہیں جو امن و امان کے لحاظ سے جنت ارض کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔ نصف کروڑ کی آبادی والا اسکینڈے نیویائی ملک ناروے بھی ان ہی میں شامل ہے.

جہاں 1911 کے بعد سے 78 سال کے طویل عرصے کے دوران قتل کی ایک واردات بھی نہیں ہوئی۔ ناروے میں آخری پھانسی 1949میں ہوئی تھی جوکہ ایک وزیر کو دی گئی تھی جس نے اپنے ملک سے غداری کرتے ہوئے ہٹلر کا ساتھ دیا تھا۔ ناروے میں 1989 میں قتل کا جو واقعہ رونما ہوا تھا اس کا تعلق دو پاکستانی تارکین وطن سے تھا جن میں سے ایک نے دوسرے کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا جس کی پاداش میں مجرم کو سزائے موت کے بجائے عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔

اقوام متحدہ کے تقریباً 50 مسلم رکن ممالک میں سزائے موت کے علاوہ، سنگساری اور ہاتھ پاؤں کاٹنے کی سزاؤں کا سلسلہ بھی تاحال جاری ہے۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے۔ لیکن یہ فرق واضح ہے کہ ہمارے یہاں صرف پھانسی کی سزا دی جاتی ہے، سنگسار یا ہاتھ پاؤں کاٹنے کی نہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا کے درجن بھر سے زائد مسلم ممالک میں بھی سزائے موت ختم کی جاچکی ہے۔ ان ممالک میں ہمارے دوست ملک ترکی کے علاوہ مراکش، نائیجیریا، مالی، جبوتی، البانیہ، ترکمانستان، ازبکستان، کرغستان، آذر بائیجان، گینی بساؤ اور سینگال شامل ہیں۔ یہ وہ خوش قسمت ممالک ہیں جہاں گھناؤنے جرائم میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

بدقسمتی سے وطن عزیز کی صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے جہاں ہزاروں قیمتی جانیں دہشت گردی کے عفریت کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں جس کے خاتمے کے لیے ضرب عضب کا سلسلہ مسلسل کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ ایک اندازے کے مطابق وطن عزیز میں اب تک 50 ہزار سویلین اور 10 ہزار کے لگ بھگ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوان اور افسران دہشت گردوں کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ دہشت گردی کے علاوہ بھی ہمارے ملک میں قتل و غارت گری کی سنگین وارداتوں کا ہونا زندگی کے معمول میں شامل ہو چکا ہے اور روز مرہ ایسے ایسے گھناؤنے اور سنگین قسم کے جرائم ہو رہے ہیں کہ خود کو پاکستانی کہلاتے ہوئے بھی انتہائی شرم و ندامت کا احساس ہوتا ہے کہ بقول اقبال:

یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود

انسانی جان کی اس قدر بے قدری اور ارزانی کو دیکھ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ معصوم اور بھولے بھالے بچوں کے ساتھ زیادتی اور پھر اس کے بعد انھیں انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کرکے پھینک دینے کے لرزہ خیز واقعات آئے دن ہمارے میڈیا میں رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ مظلوم اور بے کس خواتین کے ساتھ زیادتی کی وارداتیں اس کے علاوہ ہیں جن کے بارے میں سن کر اور پڑھ کر انسان کا کلیجہ شق ہونے لگتا ہے اور دل پھٹنے لگتا ہے۔

اس کے علاوہ ہمارے یہاں منشیات کا کاروبار بھی عرصہ دراز سے عروج پر ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں زندگیاں ضایع ہو رہی ہیں اور مجرم کھلے بندوں دندناتے ہوئے پھر رہے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ کا کاروبار کرنے والوں کو بھی کھلی چھوٹ حاصل ہے اور یہ سماجی مجرم انسانوں کی زندگیوں اور صحت سے کھیل کھیل کر بے تحاشا اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔

یہی حال جعلی دواسازوں اور دوا فروشوں کا ہے جو انسانوں کے نہیں، انسانیت کے قاتل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے گھناؤنے جرائم میں ملوث سفاک مجرموں کو جو دوسرے انسانوں کو ان کے زندہ رہنے کے حق سے محروم کرنے پر تلے ہوئے ہیں محض اس لیے پھانسی کی سزا نہ دی جائے کہ زندہ رہنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔

ہم صدر پاکستان ممنون حسین کے اس منصفانہ موقف کی حرف بہ حرف تائید کرتے ہیں کہ سزائے موت پر سے پابندی اٹھانے کے فیصلے سے دہشت گردوں کے حوصلے پست ہوں گے ۔ ان کا یہ کہنا بھی بالکل بجا ہے کہ حکومت پاکستان کے اس فیصلے کو ملک کے عوام کی غالب اکثریت کی حمایت حاصل ہے جو دہشت گردی اور قتل و غارت گری سے بری طرح عاجز اور تنگ آچکے ہیں۔ اس فیصلے کے نتیجے میں سزائے موت کے حقدار قرار پانے والے 8000 مجرم اپنے عبرتناک انجام کو پہنچیں گے۔

سزائے موت کے خاتمے کا فیصلہ کوئی ایسی ٹوپی نہیں ہے جو ہر ایک کے سر پر فٹ آجائے۔ اس کے لیے اولین اور بنیادی شرط متعلقہ ملک کے حالات کا سازگار ہونا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔