بچّن جی ، ہندی کے عُمر خیّام اور فیضؔ

تشنہ بریلوی  منگل 28 اپريل 2015
tishna.brelvi@yahoo.com

[email protected]

نوجوان ایکٹر ایک مشہور فلم پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کے سامنے سرجھکائے بیٹھا تھا ۔ قدرے گھبرایا ہوا ۔ ایک نئے اداکار کی طرح۔ فیصلے کا منتظر۔
’’ نام ؟‘‘ بارعب پروڈیوسر نے سر اٹھائے بغیر پوچھا۔
’’ جی ۔ جی ۔ امیتابھ‘‘ نوجوان نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔
’’پورا نام ؟‘‘ پروڈیوسر اسٹیچو کی طرح بو ل رہاتھا ۔
’’ جی جی ۔ امیتابھ بچّن ۔ بچّن۔‘‘
اب پروڈیوسر نے سر اٹھایا نوجوان کو گھور کر دیکھا اور کہا ۔
’’ مہا کوی ہری ونش رائے جی ‘ تمہارے کون ہیں؟‘‘
’’ جی ۔ جی ۔ وہ میرے پتا ہیں۔‘‘نوجوان سٹپٹا کر بولا۔
’’اور میرے دوست‘‘

الفاظ کو جوہری کی طرح استعمال کرنے والا پروڈیوسر ڈائریکٹر اور رائٹر خواجہ احمد عباس اب کھلکھلا کر ہنس رہاتھا کیونکہ اسٹیچو انسان بن چکا تھا ۔
’’ ہاں تو مسٹر امیتابھ بچّن ‘‘ خواجہ صاحب بڑی اپنائیت سے رواں تھے۔
’’ میں نے تمہارے ’’رشز‘‘ دیکھ لیے ہیں ۔ سب ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے ۔‘‘
نوجوان نے اطمینان کا سانس لیا ۔
’’مگر ‘‘۔ یہ ’’مگرمچھ ‘‘ کہاں سے آگیا ؟
’’مگر‘‘ خواجہ صاحب جاری رہے ۔’’ میں تمہیں ہری ونش جی کی انومتی کے بنا چانس نہیں دے سکتا ۔ سمجھے !‘‘
اداکار سمجھ گیا ۔ فوراً اپنے باپ کو تار دیا اور فوراً ہی جوابی تارآگیا کہ ’’ ہاں۔‘‘
تو اس طرح اب سے 48سال پہلے سپر ڈویپرفلم اسٹار اوراسٹیج پرسنالیٹی امیتابھ بچّن نے ’’دیبو‘‘ کیا ۔ فلم تھی ’’سات ہندوستانی‘‘ جس میں امیتابھ نے بہار کے ایک مسلمان لیڈر کے روپ میں جلوہ گر ہو کر مہارت کے ساتھ اردو مکالمے ادا کیے ( فلم کامیاب نہیں ہوئی لیکن امیتابھ کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے چلے گئے ۔) اور امیتابھ کی اردو دانی کوئی عجوبہ بھی نہیں تھی اس لیے کہ اردو دوست اور انقلابی باپ ہری ونش ‘ رائے بچن اور انقلابی ماں پروفیسر جیتی بچّن نے اپنے بچے کا نام ’’انقلاب‘‘ رکھا تھا۔ جو بعد میں ہندی کے پرتی گامی (رجعت پسند ) مہا کوی سمترا نندن پنت کے مشورے پر ’’امیتابھ‘‘ (سدا روشن) کردیاگیا ۔

آزادی کے فوراً بعد پریشان حال جوش ملیح آبادی پونا سے بمبئی آئے چونکہ پروڈیوسرڈبلیو زیڈ احمد اچانک پاکستان ’’فرار‘‘ ہوگئے تھے ۔

جوش قسمت کے دھنی تھے کہ جواہر لال کی مہربانی سے ان کو مرکزی حکومت کے اردو رسالے ’’آج کل‘‘ کی ادارت مل گئی۔ ایک دن جوش صاحب اپنے آفس میں راجہ اندر بنے دوستوں کے درمیان بیٹھے تھے کہ رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری ہری ونش رائے بچّن کو لے کر وارد ہوئے ۔دروازے پر رک کر فراق صاحب نے ہر چہرے کا جائزہ لیا اور پھر بولے ۔

’’دیکھ ہری ونش غور سے دیکھ۔ یہاں گیارہ لوگ کمرے میں ہیں جو سب اردو کے مشہور شاعر اورادیب ہیں ۔ان میں دس لوگ ہندو یا سکھ ہیں اور صرف ایک مسلمان۔‘‘

’’اور وہ بھی کیا مسلمان ‘‘ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر نے فقرا جڑا ۔اس وقت جوش صاحب کی محفل میں یہ حضرات موجود تھے ۔ مہندر سنگھ بیدی ۔ جگن ناتھ آزاد ‘پنڈت ہری چند اختر،گوپال متل ، فکر تونسوی ، عرش ملسیانی ،گلزار دہلوی، نریش کمار شاد ‘ پرکاش پنڈت اور راجندر ناتھ شیدا۔

ہری ونش رائے نے مسکراکر کہا ’’ میں بھی تو اردو کا دشمن نہیں ہوں ۔ میری تعلیم اردو سے شروع ہوئی تھی میں نے تو عمر خیام کی رباعیات کا انووادن بھی کیا ہے ۔‘‘

تقسیم ہند کے بعد وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اپنی بیٹی اندرا پریا درشنی گاندھی کے بارے میں سوچنا شروع کردیا ۔ اندرا کی ساری تعلیم انگلش اور فرنچ میں ہوئی تھی لیکن اب اس کے لیے ہندوستانی سیکھنا ضروری تھا۔ لہذا فراق گورکھپوری کے ذریعے بچّن جی ہندی ٹیچر مقرر ہوئے (تیجی بچّن ویسے بھی اندرا کی دوست تھیں) اور اردو کے لیے ڈاکٹر ذاکر حسین کے مشورے سے ناول نگار رشید اختر ندوی چنے گئے ۔

(بعد میں اختر ندوی صاحب کو اس ’’جرم‘‘ کی وجہ سے پاکستان میں شک کی نظروں سے دیکھاگیا۔) یقینا جواہر لال اندرا کو تیار کررہے تھے ۔ 1907ء میں الہٰ آباد میں ہری ونش وری سرداستو کا ایک کایستھ گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ کایتسھوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہندوؤں کا یہ فرقہ مسلمانوں کے بہت قریب تھا اور فارسی اور اردو سیکھ کر مغل بادشاہوں کی حکومت میں اچھے عہدوں پرفائز رہا ۔اردو شاعر بھی بہت پیدا ہوگئے ۔ ہری وانش رائے کو اس کے والدین پیار سے ’’بچن‘‘کہتے تھے بعد میں انھوں نے ’’ بچّن ‘‘ کو اپنا تخلص بنا لیا۔

بچّن جی کی تعلیم حسب دستور اردو سے شروع ہوئی اس کے بعد بنارس ہندو یونیورسٹی ، اور الہٰ آباد یونیورسٹی اور پھر وہاں سے کیمبرج یونیورسٹی جہاں انھوں نے مشہو ر آئرش شاعر W.B.Yeatsپر تھیسیز لکھ کر ڈاکٹریٹ حاصل کی ۔ الہٰ آباد سے ان کا بہت گہرا تعلق تھا ۔ اس لیے نہرو فیملی سے قریبی مراسم رہے ۔

فراق گورکھپوری الہٰ آباد یونیورسٹی میں ان کے ساتھ تھے اور قریب ترین دوست ۔ فراق صاحب بچن جی کے ساتھ کوی سمیلن میں شریک نہیں ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ مجھے تو ’’ مشاعروں میں ہی مزہ آتا ہے ۔‘‘ پھر بھی بچن جی اپنے گھر سے زیادہ فراق صاحب کے دولت کدے پر ملتے تھے اور دونوں ’’ صاحبان ِ شعور وسرور ‘‘ کی نوک جھونک بھی بہت مزیدار ہوتی تھی ۔ یہاںایک بات فراق کے حوالے سے بھی کہنی ہے ۔ فراق الہٰ آباد یونیورسٹی میں انگلش کے پروفیسر تھے ۔ بے حد قابل اور رعب داب والے ۔ ان کا ’’ طرزِ زندگی ‘‘ حد سے زیادہ Shockingتھا کہ لکھتے ہوئے قلم کانپتا ہے لیکن پروفیسری اسی طمطراق سے جاری رہی ۔ کوئی انھیں چھو بھی نہ سکا۔

ہندی ادب مغل دور تک پس منظر میں رہا ۔ اسے بھکتی کال (صوفیانہ دور ) بھی کہا جاتا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز پر جلد ہی چھایا وادیگ (رومانی دور) شروع ہوگیا ۔1936ء میں پرگتی شیل (ترقی پسند تحریک)شروع ہوئی جس کے ساتھ ہی آدھونک یگ (موجودہ دور) بھی شروع ہوگیا ۔ فیض احمد فیض کی طرح بچّن جی بھی پرگتی کاویہ (ترقی پسند شاعری) کے ساتھ پریم رس کے گیت بھی گاتے رہے ۔ اور فیض صاحب کے برعکس وہ (مشاعروں)کوی سملین میں بھی بہت مقبول رہے ۔ وہ ا پنا تعارف اس طرح کراتے تھے :

مٹی کا تن : مستی کا من ۔ کشن بھر جیون۔ میرا پریچہ
بچن جی کی پہلی شادی 1926 میں ایک 14سالہ لڑکی شیاما سے ہوئی جس کا دس سال بعد انتقال ہوگیا تھا پھر 1941 میں دوسری شادی تیجی سے ہوئی ۔ وہ لائل پور کے ایک سکھ گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں ۔خود بھی بہت تعلیم یافتہ تھیں اور لاہور کے خوب چند کالج میں نفسیات کی پروفیسر تھیں۔تیجی ایک جوشیلی انقلابی خاتون تھیں اور حاملہ ہوتے ہوئے بھی مظاہروں میں حصہ لے کر اپنی اور امیتابھ کی جان خطرے میں ڈالتی تھیں۔ انھوں نے اداکاری بھی کی یش چوپڑا کی سپر ہٹ فلم ’’ کبھی کبھی ‘‘ میں بچّن جی اور تیجی دونوں جلوہ گر ہوئے ۔

اس فلم میں ساحر لدھیانوی کا مشہور نغمہ’’ کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے ‘‘ امیتابھ بچن نے بھی گایا اور مکیش نے گا کر 1976کا فلم فیئر ایوارڈ لیا۔ بچن جی نے آل انڈیا ریڈیو میں بھی کام کیا اور ہندی نشریات کو بہتر بنایا ۔آپ دس سال تک سرکاری افسر بھی رہے ۔ آپ نے ترجمے پر بہت زور دیا اور انگریزی اردو وغیرہ کا بہترین ادب ہندی میں منتقل کردیا ۔

دیو ناگری رسم الخط ( لیپی) سے آپ مطمئن نہیں تھے ۔ آپ نے ’’ لیپی سدھار‘‘ کے لیے بہت سی تجاویز پیش کیں لیکن قدامت پرستوں نے ان کو رد کردیا اس لیے ہندی ’’ کی بورڈ‘‘ اب بھی بہت مشکل ہے چار جلدوں میں بچّن جی نے آپ بیتی لکھی جس پر انھیں دس لاکھ روپے انعام ملا جو بڑی رقم تھی۔

جب اندرکمار گجرال ماسکو میں ہندوستان کے سفیر تھے تو فیض صاحب بھی وہاں گئے ۔ فیض صاحب اندرکمار گجرال کے استاد بھی رہ چکے تھے ۔اتفاق کی بات کہ ہری ونش رائے بچّن بھی ماسکو میں تھے ۔گجرال صاحب نے بچّن جی کا تعارف یہ کہہ کر کیا ’’فیض ان سے ملیے یہ ہیں ہندی کے فیض احمد فیض۔‘‘ دونوں ایک دوسرے سے مل کر بہت خوش ہوئے ۔ جب ودکا اور کونیاک کے جام چلے تو بچّن جی پیچھے ہٹ گئے۔

فیض صاحب نے کہا ’’ بچن جی آپ تو مدھو شالا ( میخانہ) لیے پھرتے ہیں پھر یہ گریز؟‘‘
’’ بات یہ ہے ۔‘‘ بچن جی ہنس کر بولے ’’ میں خیام کی رباعیوں کے جام پی چکا ہوں ۔ اب اورکیا پیوں گا ۔‘‘
بچّن جی نے ستّر سے زیادہ کتابیں لکھیں ان میں دو درجن شاعری کے مجموعے ہیں۔ چار جلدوں میں آپ بیتی لکھی ۔ شیکسپیئر کے کئی ڈرامے ھندی میں ڈھالے ۔دیگر علمی و ادبی موضوعات پر بہت کچھ لکھا جن میں جواہر لال نہرو کی بائیوگرافی بھی شامل ہے ان کی مشہور ترین کتاب ’’مدھو شالا‘‘ رباعیوں کا مجموعہ ہے جو بہت مقبول ہوا ۔ اس طرح آپ ہندی کے عمر خیام بھی ہیں۔آپ نے آخری نظم اندراگاندھی کے قتل پر لکھی۔آپ کی ’’شرابی‘‘ شاعری پر لوگوں نے اعتراض کیا تو گاندھی جی نے کہا کہ شاعری میں سب چلتا ہے۔

ہندی کے لیے بچن جی کی خدمات قابل تعریف ہیں 60کروڑ بولنے والوں کی زبان ذریعۂ تعلیم بھی ہے۔ دل جلا محمود شام بھارت یاترا سے واپسی پر بتاتا ہے کہ وہاں عام ناول بھی 20ہزار چھپتا اوربکتا ہے ۔ جب کہ اردو میں 250 چھپنے والا فکشن بھی نہیں بکتا ۔اس کا ذمے دارکون؟ پیاری اردو بچاری اردو کس سے شکوہ کرے جب اپنے ہی دشمن ہوں۔ اب تو یہ حال ہے کہ ’’ماڈرن‘‘ خاندان اپنے بچوں کی غلط اردو پر فخر کرتے ہیں۔اردو کو جلد از جلد اس کا مقام ملنا چاہیے

قوم ہے جسم جان ہے اردو
اے وطن تیری شان ہے اردو
تشنہؔ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔