فوجی آپریشن اور ملکی استحکام

ایڈیٹوریل  جمعرات 30 اپريل 2015
اب تک ایجنسی میں مجموعی طور پر184ایف سی، لیویز، خاصہ دار فورس اور دیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکاروں نے بھی جام شہادت نوش کیا ہے۔ فوٹو : فائل

اب تک ایجنسی میں مجموعی طور پر184ایف سی، لیویز، خاصہ دار فورس اور دیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکاروں نے بھی جام شہادت نوش کیا ہے۔ فوٹو : فائل

بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ فوجی آپریشن ملک میں استحکام لا رہے ہیں،قبائلی علاقوں میں دہشتگردوں کونشانہ بنانے اور ملک کے دیگر علاقوں میں دہشتگردوں کے رابطے توڑنے سے توجہ نہیں ہٹا سکتے۔

انھوں نے ان خیالات کا اظہار منگل کو کورہیڈکوارٹرز بہاولپور کے دورے کے موقع پر فوجی افسروں اور جوانوں سے خطاب میں کیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے جوانوں و افسران سے ملاقات کی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کی پیشہ ورانہ کامیابیوں اور قربانیوں کوخراج تحسین پیش کیا اور ان کے حوصلے کی بھی تعریف کی۔قبل جنرل راحیل شریف نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جوانوں کی پیشہ ورانہ مہارت اور قربانیاں قابل قدرہیں، نوجوان نسل ہمارا بڑا اثاثہ ہیں۔

بلاشبہ ایک منتخب جمہوری سیٹ اپ میں فوجی آپریشن کے ذریعہ ملک میں استحکام لانے کا عندیہ عسکری و سیاسی قیادت کے مابین قومی ایشوز پر اتفاق رائے اور ہم آہنگی کی علامت ہے جو ملکی سیاست و عسکری تعلقات میں توازن اور نئے موڑ کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ قومی سیاست کے اس دور کی یاد دلاتی ہے جب ملک دہشت گردی کے علاوہ کرپشن، سیاسی بحران اور کشیدگی سے بڑھ کر وجودی خطرہ سے دوچار تھا۔

اور ایسے دورانیے بار بار آتے رہے، مگر 2013 ء کے بعد دنیا بدلنے کے ساتھ اب پاکستان نے بھی ایک مستحکم مستقبل کی امیدوں سے اپنا سیاسی و عسکری رشتہ اس طور سے جوڑا ہے کہ دشمن کو اب چھپنے کی جگہ نہیں مل رہی ہے، ملکی معیشت اپنے استحکام کی طرف بڑھ رہی ہے، ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ داخلی خطرات و خارجی دباؤ، اور مشکلات کا خاتمہ نہ ہو۔

ضرورت صرف عزم کی ہے کہ انتہا پسندوں سے اس بار کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا اور فوجی و سیاسی قیادت  قومی حمایت اور مکمل ہم آہنگی کے ساتھ قومی سلامتی ، سیاسی افہام و تفہیم اور ملکی اقتصادیات کو خود انحصاری اور جمہوری نظام کی حقیقی منزل تک پہنچا کر دم لے گی۔

یاد ہے کہ عسکری قیادت نے داخلی صورتحال کے حوالے سے فاٹا سمیت تمام حساس علاقوں میں راست اقدام اور اس کے نتیجے میں استحکام اور امن وامان کی بحالی کو اپنا مشن بنالیا تھا ۔اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی سے ہمیشہ کے لیے نجات کا عزم چونکہ پاک فوج نے پہلے سی ظاہر کردیا تھا چنانچہ اندر کے دشمن کو بیرونی جارحیت سے زیادہ خطرناک قرار دیتے ہوئے ایک غیر متزلزل اور واضح ڈاکٹرائن کو ملکی سلامتی کے لیے اشد ضروری قراردیا۔اس میں شک نہیں کہ طالبان ملک کے لیے وجودی خطرہ بن چکے تھے لیکن اب ان کا نام و نشان مٹنے کے قریب ہے۔

ایف سی حکام اور پولیٹیکل انتظامیہ کے مطابق مہمند ایجنسی جو ایک زمانے میں تحریک طالبان پاکستان کا گڑھ سمجھا جاتا تھا کو شرپسندوں سے مکمل طور پر پاک کر دیا گیا ہے اور علاقے میں اب ایک بھی نوگوایریا نہیں ہے۔ یہ اہم کارنامہ ہے۔ تاریخی تناظر ملاحظہ ہو کہ قیام پاکستان کے چار سال بعد1951ء میں معرض وجود میں آنیوالی مہمند ایجنسی فاٹا کے شمالی حصے میںہے۔8 تحصیلوں اور تقریباً6 لاکھ آبادی پر مشتمل اس ایجنسی کی سرحدیں افغانستان کے صوبہ کنڑ سے ملتی ہیں۔

2008ء میں ایجنسی میں شرپسندوں جن میں تحریک طالبان مہمند ایجنسی (ٹی ٹی ایم ) اور ان کے دوسرے گروپوں کے خلاف آپریشن شروع کیے گئے تو یہ علاقہ مکمل طور پر نوگو ایریا بن گیا تھا اور آئے دن شرپسند لوگوں کی نعشیں سڑکوں پر پھینکتے تھے تاہم اب صورتحال یکسرتبدیل ہوگئی ہے اور افغانستان کے سرحدی مقام خاپخ تک پوراعلاقہ ایف سی اور پولیٹیکل انتظامیہ کے کنٹرول میں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں یہاں کے عوام نے بڑی قربانیاں دی ہیں اور 700کے لگ بھگ افرادشہید ہوچکے ہیںجن میں70بڑے قبائلی مشران اور ملک بھی شامل ہیں۔

اب تک ایجنسی میں مجموعی طور پر184ایف سی، لیویز، خاصہ دار فورس اور دیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکاروں نے بھی جام شہادت نوش کیا ہے۔ ایف سی، آرمی اور لیویزسمیت دیگرفورسزکے 7ہزاراہلکاردہشتگردوںکے خلاف جاری جنگ میں مصروف ہیں۔ دہشتگردوں نے تعلیمی اداروں کو بھی نہیں چھوڑا اور تقریباً 120چھوٹے بڑے اسکولوں اور کالجوں کو تباہ کیا جن میں اکثر کی تعمیر کی جاچکی ہے۔ علاقے کی کئی تحصیلوں میںقائم امن لشکر اب بھی مکمل فعال ہیں اور فورسز کے ساتھ شرپسندی ختم کرنے میں تعاون کر رہے ہیں۔

ایف سی حکام کے مطابق عمرخالد خراسانی کے علاوہ ٹی ٹی ایم کی تقریباً ساری مرکزی قیادت کو ماردیا گیا ہے اور سیکڑوں گرفتار ہیں ۔ تاہم ابھی شیر مرا نہیں کے مصداق آپریشن کا تسلسل اور ٹمپو اسی طرح برقرار رہنا چاہیے، دہشت گرد بوکھلاہٹ میں ملک کے مختلف شہروں میں دہشت گردانہ وارداتیں کررہے ہیں، کراچی میں مختلف واقعات میں 4 افراد جاں بحق ہوگئے،جب کہ بدھ کو جامعہ کراچی کے اسسٹنٹ پروفیسر وحید الرحمان کو بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا گیا۔

آرمی چیف جنرل راحیل شریف کراچی پہنچے، وہ صورتحال کا مستقل جائزہ لیں گے ۔اندرون سندھ اور پسنی میں ڈاکوؤں اور دہشت گردوں کے خلاف چھاپے جاری ہیں، عسکری اصطلاعات کے مطابق فوج استحکام اور سپورٹ پالیسی کے تحت انگیجمنٹ اور انلارجمنٹ اسٹرٹیجی پر عمل پیرا ہے جس کے نتیجے میں امید کی جانی چاہیے کہ ہمہ گیر آپریشن سے دہشت گردی کا بہت جلد خاتمہ ہوجائیگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔