یہ وعدہ ہے

زاہدہ حنا  اتوار 3 مئ 2015
zahedahina@gmail.com

[email protected]

یہ ادب، ادیب، کتاب اور کہانی کا موسم ہے۔ لاہور کے گرمانی سینٹر سے اسلام آباد میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کے علاوہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول اور اب کراچی میں اکیڈمی آف لیٹرز کے قاسم بگھیو نے ادب، ادیب اور امن کے عنوان سے سبھا سجائی ہے۔

پاکستان آج سے نہیں دو دہائیوں سے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے نرغے میں ہے۔ دور دراز کے علاقوں میں لوگوں پر سے وحشتوں کے جو طوفان گزرے، مقتدرین نے اس پر ابتدا میں کوئی توجہ نہ دی۔ آگ دور دراز کے گھر میں لگی ہو تو کون اس پر توجہ دیتا ہے لیکن جب وہ آپ کے دامن تک آ پہنچے تو اسے بجھانے کے لیے بیقراری کا وہی عالم ہوتا ہے جو آج ہمیں نظر آتا ہے۔

اب سے برسوں پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ ہم تزویراتی گہرائی کا حصول چاہتے ہیں۔ اور اب اصرار اس بات پر ہے اور بجا بھی ہے کہ ہر قیمت پر ملک میں اندرونی استحکام ہونا چاہیے۔ یہی بات جب ہمارے دانشور اور ادیب کہتے تھے تو برسراقتدار لوگوں کی پیشانی پر بل پڑ جاتے تھے اور امن کی بات کرنے والے بے دال کے بودم ٹھہرتے تھے لیکن آج سرکاری سرپرستی میں چلنے والے اداروں کو بھی اس بات کی خواہش ہے کہ ادب اور ادیب کے وسیلے سے امن کی بات کی جائے۔

ادیب، شاعر و دانشور شعر و ادب کو فاشزم اور ہر نوعیت کی انتہا پسندی کے خلاف سلیقے سے استعمال کرتے ہیں، ان کا یہ ہنر بالادست طبقات، بااثر گروہوں اور تنظیموں کو ہمیشہ خوفزدہ رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں ادیب، شاعر اور صحافی زیر عتاب رہتے ہیں۔ کہنے کو اکیسویں صدی کے 15 برس بیت گئے اور کچھ لوگ اسے انسانی حقوق کے عروج کی صدی قرار دینے پر مصر رہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ صدی بھی ابھی تک ان لوگوں کے لیے کوئی نوید لے کر نہیں آئی جو مظلوم طبقات کی آواز کو اپنی تخلیقات میں زبان دیتے ہیں۔

اعلیٰ ادب نے ہمیشہ ظلم، جبر، نفرت، امتیاز اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ اور ادب نے ابتدا سے آج تک انسانی سماج کے اندر موجود مختلف نفرتوں کا مقابلہ کیا ہے۔ ذات پات، عقیدہ، نسل، رنگ، طبقاتی اور لسانی تقسیم، فرقہ واریت اور آج اکیسویں صدی کی نئی نفرتوں کی باڑھ کے سامنے انسان دوستی، رواداری اور افہام و تفہیم کا بند ادب نے باندھا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس وقت دنیا میں چھ ہزار زبانیں ہیں۔ یہ زبانیں جو موجود ہیں اور وہ زبانیں جو مٹ گئیں، ان کا ادب انسان کو انسان سے، فطرت اور اس کی عنایتوں سے عشق کرنا سکھاتا ہے۔

موہنجودڑو سے برآمد ہونے والی عبارتیں جو پڑھی نہیں گئیں، جب پڑھ لی جائیں گی تو وہ یا کسی گرہستن کے گھر کا حساب ہوں گی، یا کسی محبت بھری نظم کا ٹکڑا ہو گا لیکن یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ کوئی جنگی گیت نہیں ہو گا۔ یوں بھی موہنجودڑو سے کوئی ہتھیار برآمد نہیں ہوا ہے تو پھر وہاں کے شاعر جنگی گیت کیسے لکھتے…؟ کھدائی میں برآمد ہونے والے مصریوں کے لکھے ہوئے وہ پیپرس جو چار ہزار برس پرانے ہیں ان میں بھی ہمیں نفرت کا درس نہیں ملتا، عشق کا ترانہ ہے، انصاف کی طلبگاری ہے اور دریائے نیل کی لہروں پر تیرتی ہوئی دور دراز کی زمینوں کی داستانیں ہیں۔

ادیب کا قلم ہر وضع کی نفرتوں اور امتیازات کے خلاف لڑتا ہے۔ جون اسٹوارٹ مل اور جارج برنارڈ شا نے اور اس کے بعد آنے والے بہت سے مردوں اور عورتوں نے صنفی امتیاز کو ختم کرنے اور دونوں صنفوں کے درمیان باوقار تعلق قائم کرنے کی کوشش کی۔ یہ کام سولہویں صدی سے شروع ہو گیا تھا اور بیسویں صدی میں یہ اپنے عروج کو پہنچا۔ ورجینیا وولف، سیمون دی بووا اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی خواتین ادیبوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو اپنی تحریروں سے صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے لکھ رہی ہے۔

اسی طرح دلت ادب ہے جو ذات پات کے تعصبات کے کانٹے چن رہا ہے۔ سیاہ فام ادیبوں کی تخلیقات ہیں جو رنگ اور نسل کے تعصبات کے خلاف نبرد آزما ہیں، یہودی اور عرب ادیب ہیں جو مشرق وسطیٰ کے تنازعات کے بارے میں کسی ایک فریق کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے ’’انسان‘‘ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ عراق اور افغانستان پر امریکا کی ظالمانہ اور غاصبانہ حملوں کے خلاف بھی دنیا میں متعدد ادیبوں نے لکھا۔ ایسے متعدد امریکی شاعر ہیں جنھوں نے خود کو ’’جنگ مخالف شاعر‘‘ کا نام دیا ہے۔

پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران بہت سے ادیبوں نے فاشزم کے خلاف لکھا اور سرد جنگ کے دوران مکارتھی ازم کی بوئی ہوئی نفرتوں کی بارودی سرنگوں کو اپنے قلم کی نوک سے صاف کیا۔ برٹرینڈ رسل، ژاں پال سارتر، فرانزفینن، ہیمنگوے، ایڈورڈ سعید، نجیب محفوظ کے علاوہ پہلی اور دوسری دنیا کے متعدد ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں نے نفرتوں اور عصبیتوں کی آگ کو بجھانے کا کام کیا ہے۔

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ یوں تو جنگ۔ عورتوں، مردوں، بچوں، بوڑھوں، شہروں، دیہاتوں سب ہی کو اپنا نوالہ بناتی ہے لیکن عورت پر دہرا عذاب آتا ہے۔ جنگ کی صورت میں اس کا سب کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔

اس کا گھر، اس کے بچے، خاندان، گھر کے مرد لڑنے جائیں۔ مارے جائیں، جنگی قیدی بنیں یا لاپتہ ہو جائیں، جسمانی یا ذہنی طور پر معذور ہو کر گھر لوٹیں تو ان عذابوں کو ان کے گھر کی عورت سہتی ہے۔ در بہ در ہونے کی صورت میں سر چھپانے کے لیے ٹھکانہ ڈھونڈنا، اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی ایندھن، پانی اور دوا کا انتظام کرنا اس کی ذمے داری ہوتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ وہ فاتح فوجیوں کے ہاتھوں بے حرمت ہو کر بدترین جسمانی اور ذہنی اذیت کا شکار ہوتی ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں فاتح افواج نے مفتوح قوموں کی عورتوں کی ساتھ جو کچھ کیا، وہ ہم سب جانتے ہیں۔

گزشتہ چند دہائیوں میں جاپانی، ویتنامی، بنگلہ دیشی، کشمیری، کُرد اور افغان عورتوں پر جو گزری۔ بوسنیائی، فلسطینی اور دوسری قومیتوں کی عورتوں نے جو کچھ جھیلا، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امن دنیا بھر کی عورتوں کا سب سے بڑا مسئلہ اور ان کی ضرورت ہے۔ سری لنکا، نیپال، شمالی آئرلینڈ، عراق جہاں بھی مسلح گروہ ایک دوسرے سے دست و گریباں رہے۔

وہاں کی عورتیں ان تنازعات اور مسلح تصادم کے خاتمے کے لیے کوشاں نظر آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تقریباً ہر زبان میں عورتوں کے لکھے ہوئے جنگ مخالف ناول، امن کی تلاش میں نکلنے والیوں کے رپورتاژ، جنگ زدہ علاقوں میں امدادی کام کرنے والیوں کی تحریریں، عالمی ادب میں ممتاز نظر آتی ہیں۔ ’’زبان‘‘ جو ہندوستان کا ایک اہم ادبی پبلشنگ ہاؤس ہے، اس کی اروشی بوٹلیا نے جیل میں کشمیری لڑکی انجم زمرد حبیب پر گزرنے والی اطلاع کو قیدی نمبر سو کے عنوان سے شائع کیا ہے۔ یہ ڈائری یوں تو ظلم و ستم کا قصہ ہے لیکن دراصل یہ امن کی تلاش میں جیل کے اندر اذیتیں سہنے والی کشمیری لڑکی انجم زمرد حبیب کی داستان ہے۔

امن برصغیر کے عام انسانوں اور ادیبوں کا بہت بڑا مسئلہ رہا ہے۔ برصغیر میں جب فرقہ واریت کی بنیاد پر نفرت کی کالی آندھی چلی تو ہمارے کچھ ادیبوں نے مایوسی کے عالم میں یہ اعلان کیا کہ انسان مر گیا ہے۔ عین اسی وقت کرشن چندر، منٹو، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی، خوشونت سنگھ، بھیشم ساہنی، فیض، امرتا پریتم، سردار جعفری، کیفی، مخدوم، تاباں، جوش، کملیشور، جگن ناتھ آزاد، ساحر اور ان کے بعد آنے والے رتن سنگھ، قرۃ العین حیدر، مہندرناتھ، جوگندر پال، جیلانی بانو اور ان گنت نامور اور گمنام ادیبوں کی تحریروں میں اس زندہ انسان کے دل کی دھڑکنیں سنائی دے رہی تھیں، یہ انسان ہمیشہ سے موجود تھا اور ہمیشہ موجود رہے گا۔ وحشت اور بربریت کے زمانوں میں بھی ادب اور ادیب نے اس انسان کو زندہ رکھا ہے۔

ہمارے ان ادیبوں کی تحریریں، فرقہ واریت سے لڑائی لڑ رہی تھیں اور بھڑکتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کر رہی تھیں۔ بعد میں آنے والوں نے بھی یہ کام کیا اور آج بھی کر رہے ہیں۔ مہا شویتا دیوی، امرتا پریتم، کرشنا سوبتی، جیامترا، شومورتی، گلزار، وبھوتی نرائن رائے۔ ادے پرکاش نرائن، انوش مالویہ۔ سروپ دھرو، اسی طرح پاکستان میں شیخ ایاز، اختر جمال، امر جلیل اور ان گنت دوسرے نفرتوں کے خلاف لکھتے رہے ہیں۔ ہندوستان کے ادیبوں کی نئی نسل میں ہم ارون دھتی رائے کو کس طرح بھلا سکتے ہیں، جس نے کہا کہ اگر ہندوستان کے ایٹمی دھماکوں کے خلاف لکھنا اور برصغیر کے کچلے ہوئے پسے ہوئے اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کے حق میں لکھنا غداری ہے تو سن لیا جائے کہ میں غدار ہوں اور یہ غداری میں کرتی رہوں گی۔

ہمارے اور دنیا بھرکے ادیبوں کے یہی وہ رویے ہیں جن سے اس بات پر یقین ہو جاتا ہے کہ ادیب اپنی تحریروں سے امن کی کاشت کرتا ہے۔ آنے والی نسلوں کے لیے ادیبوںکا یہی وہ وعدہ ہے جو وہ ہر زمین اور زمانے میں کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

(پاکستان اکیڈمی آف لیٹرزکی ادب، ادیب اور امن کانفرنس کے لیے لکھا گیا۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔