آئٹم سانگ بالی وڈ کی فلموں کا لازمی حصہ کیوں ہیں؟

نرگس ارشد رضا  اتوار 3 مئ 2015
گانوں کے بغیر فلم ادھوری تصور کی جاتی ہے، کیوں کہ موسیقی اور گائیکی ہندو مذہب کا ایک اہم حصہ ہے،فوٹو : فائل

گانوں کے بغیر فلم ادھوری تصور کی جاتی ہے، کیوں کہ موسیقی اور گائیکی ہندو مذہب کا ایک اہم حصہ ہے،فوٹو : فائل

باکس آفس پر کام یابی کے لیے فلمساز کوئی تجربہ چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے، بل کہ وقت کے ساتھ ساتھ فیشن اور رحجان کے مطابق جدتیں پیدا کرنے کے لیے بھی کوشاں رہتے ہیں۔

نت نئے خیا لات، انوکھےاندازاورمنفرد کام کے شوق میں مبتلا ہر بھارتی فلم میکر کاپی کرنے میں بھی ماہر سمجھا جاتا ہے۔ بولی وڈ کی فلموں میں موسیقی کو سب سے زیاد توجہ حاصل رہتی ہے۔ اسی طرح گانوں کے بغیر فلم ادھوری تصور کی جاتی ہے، کیوں کہ موسیقی اور گائیکی ہندو مذہب کا ایک اہم حصہ ہے، اسی لیے فلم ساز یہ کوشش کرتے ہیں کہ فلم کی موسیقی اور گانے اتنے جان دار ہوں کہ اگر فلم نہ بھی چل سکے تو اس کی موسیقی اور گانے ضرور ہٹ ہوجائیں۔

صاف ستھری موسیقی اور گانوں سے ہٹ کر فلموں میں آئٹم سانگ یا آئٹم نمبرز پر سب سے زیادہ توجہ دی جارہی ہے اور اب ہر بڑی ہیروئن آئٹم نمبر کرنا نہ صرف پسند کرتی ہے بل کہ اس کا وہ منہ ما نگا معاوضہ بھی طلب کرتی ہیں۔

حیرت کی بات ہے کہ فلم سازان بڑی ہیروئنز کو ان کے منہ مانگے معاوضے پر آئٹم نمبرز کے لیے کاسٹ کرنے لگے ہیں۔ ایک تعریف کے مطابق آئٹم سونگز یا آئٹم نمبرز ایک ایسی میوزیکل پرفارمینس ہے جو دو یا تین گھنٹے کی فلم کے دوران دکھائی جاتی ہے۔

اس آئٹم سانگ میں ایک آئٹم گرل کو مختصر لباس کے ساتھ شوپیس کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جس کا ڈانس نہ صرف ہوش ربا ہوتا ہے اس کے اس آئٹم سونگ کی شاعری بھی نہایت عامیانہ اور معیار سے گری ہوئی ہوتی ہے اور یہ سب صرف اور صرف فلم کی بھرپور طریقے سے مارکیٹنگ کا ایک طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا تقریباً ہر فلم میں ایسے گانے اور ڈانس عام نظر آنے لگے ہیں۔ بعض فلم ساز یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ موسیقی اور گانوں کے ذریعے فلم کی کہانی آگے بڑھائی جاتی ہے۔

اسی لئے انہیں شامل بھی کیا جاتا ہے تاہم یہ دعویٰ اس وقت بے جان ثابت ہو جاتا ہے جب فلم میکرز ٹاپ ٹین فلموں کے ہی گانوں کو فلم کی کہانی کے ساتھ جوڑتے ہیں تو ان گانوں میں مقصدیت کا فقدان نظر آتا ہے۔ اس لیے یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ موسیقی کا استعمال فلموں میں محض تفریح ہی کے لیے کیا جاتا ہے اور نوے فی صد گانوں کا فلم کی کہانی سے کوئی تعلق یا ربط نہیں ہوتا لہٰذا انہیں بہ آسانی آئٹم سونگز قرار دیا جاسکتا ہے ۔

یہ صرف حالیہ رحجان نہیں بلکہ بولی وڈ اس حوالے سے پوری تاریخ رکھتا ہے، اگر دہائیوں پہلے کا جائزہ لیا جائے تب پچاس کی دہائی میں وجنتی مالا کے گانے میں کیا کروں رام مجھے بڈھا مل گیا اور ہونٹوں پہ ایسی بات ایسے گانے تھے جنہیں معیاری اور کرداروں کی مناسبت سے پر فارم کیا گیا اور جنہیں دیکھنے میں بھی عامیانہ یا لچرپن کا احساس نہیں ہوتا۔ اس وقت کے یہ آئٹم سونگز آج بھی زبان زد عام ہیں۔

اس کے برعکس ساٹھ کی دہائی میں صورت حال یکسر تبدیل ہوجاتی ہے، جب آئٹم سونگز میں نازیبا زبان متعارف کرائی گئی۔ فلم بینوں کی جانب سے بھی ایسے ہوش ربا گانوں کی مکمل حوصلہ افزائی ہوئی اور بہت کم افراد ایسے تھے جنہوں نے اس قسم ک گانوں کی مخالفت میں آواز اٹھائی لیکن ان کی آواز نقارخانے میں طوطی کی آواز سمجھی گئی اور یوں فلم بینوں کی بھی چوائس پر آئٹم سونگ کا رحجان فروغ پاتا رہا۔ بعدازاں ’’۔۔۔کے پیچھے کیا ہے‘‘ ٹائپ سونگز آنے لگے۔ آئٹم سونگز میں سب سے پہلا نام ہیلن کا آتا ہے۔

جنہوں نے بے شمار فلموں میں صرف ان گانوں کے ذریعے ہی شہرت اور مقبولیت پائی، لیکن ہیلن کے گانوں اور ان کی پرفارمینس میں عامیانہ اور لچرپن کے بجائے معیار نظر آتا تھا۔ اس لیے انہیں کلاسک سونگز بھی کہا جاسکتا ہے۔ ہیلن ہی کے دور میں بندو اور ارونا ایرانی بھی فلموں آئٹم نمبرز کیا کرتی تھیں، لیکن جو مقام ہیلن کو اس حوالے سے نصیب ہوا وہ کسی اور کو نہ مل سکا۔

اس وقت بھی ہیلن ایک فلم میں صرف آئٹم نمبر کے لیے منہ مانگا معاوضہ طلب کیا کرتی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہیلن نے کبھی خود کو کسی کے ساتھ مقابلے میں تصور نہیں کیا تھا، بل کہ خوش قسمتی سے انہیں ابتدا ہی میں چند بہترین سونگز اعلیٰ دھنوں کے ساتھ مل گئے تھے، جنہوں نے ہیلن کو بام عروج پر پہنچا دیا تھا ہیلن کے بعد کئی ایسے نام سامنے آئے جنہوں نے محض آئٹم سونگز کے ذریعے شہرت پائی اور ہیروئنز نے بھی اس ٹرینڈ کو فروغ دیا پروین بوبی اور زینت امان، ریکھا اور ان کے بعد کمی کاٹکر اور منداکنی کے نام سامنے آئے۔ آئٹم سونگز اب فلموں کی ضرورت بن چکے تھے۔

خواہ عوام پر اس کا رد عمل یا اثر کیسا ہوتا ہو اس بات کا فیصلہ کبھی کسی فلم میکر نے نہیں کیا۔ ان کے نزدیک ایسے گانوں کا مقصد صرف پیسہ کمانا اور اپنی فلموں کی مارکیٹنگ کرنا ہوتا ہے، تاکہ ان کی فلم زیادہ سے زیادہ کام یابی حاصل کر سکے، لیکن اس بات کی حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان عامیانہ گانوں کی بے ہودہ اور چیپ قسم کی شاعری نے سنجیدہ حلقوں کو متاثر کیا ہے۔ اس طبقے کا کہنا ہے کہ ایسے گانوں کی وجہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اخلاقی اقدار سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔

ان حقائق کے باوجود یہ سوال اب بھی باقی ہے کہ کیا بولی وڈ میں فلمیں بغیر آئٹم سانگز کے بھی بنائے جا سکتی ہیں؟ کیوں کہ یہ بات تو طے ہے کوئی بھی فلم بین چند منٹ کے ایسے ولگر گانوں کو دیکھنے کے لیے اپنی محنت کی کمائی اور قیمتی وقت کو برباد نہیں کرے گا۔ اس لیے یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ صرف فلم بینوں کو رجھانے کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔

ایک اچھی کہانی، بہترین ڈائیلاگز، مضبوط پلاٹ اور جان دار ہدایت کاری کے ساتھ ساتھ فن کاروں کا اپنے کرداروں کے ساتھ مکمل انصاف بہرحال کسی بھی فلم کے لیے سب سے اہم عناصر ہیں۔ ان تمام عناصر پر مکمل گرفت ہی ایک کام یاب فلم کی ضمانت ہو سکتی ہے۔

ان حقائق کے ساتھ ساتھ ایک نظر آئٹم سونگز کے بجٹ پر ڈالی جائے تو پتا چلے گا کہ گذشتہ چند برسوں میں اس میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ بعض آئٹم سونگز کی لاگت تو بہت سی فلموں کی مجموعی لاگت سے بھی کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ دل چسپی کی ایک اور بات یہ بھی ہے کہ اب بڑی بڑی ہیروئنز کے ساتھ ساتھ بولی وڈ کے بڑے بڑے اداکار بھی آئٹم سونگز کر رہے ہیں۔

اس کی بہترین مثال عامر خان کی ہے، جنہوں نے اپنی ہوم پروڈکشن فلم دہلی بیلی میں آئی ہیٹ یو گانے پر آئٹم سونگ کیا تھا۔ آئٹم سونگز کی مقبولیت میں ہیرو ہیروئنز کی ان گانوں میں محض چند لمحوں کی آمد نے بھی اہم کردار کیا ہے۔

اس معاملے میں فلم بینوں کی پسند اور ناپسند ہمیشہ ایک پراسرار راز کی طرح رہی ہے۔ اسی لیے فلم سازوں کا فلم کے فلاپ ہوجانے کا ڈر بے بنیاد نہیں ہوتا۔ تاہم اس بات کو بھی واضح ہوجانا چاہے کہ کسی بھی فلم کی کام یابی کے لیے صرف دھماکے دار اور عامیانہ قسم کے آئٹم سانگز ہی کافی نہیں ہوتے، اگر ایسا ہوتا تو بولی وڈ کی ہر وہ فلم ہٹ ہوتی جس میں آٹم نمبر شامل کیے جاتے رہے ہیں۔ درحقیقت فلم کی کام یابی میں کئی عوامل شامل ہوتے ہیں۔ تاہم ہٹ ہونے کی صورت میں آئٹم نمبر زیادہ توجہ اور مقبولیت حاصل کر جاتے ہیں اور اس طرح ظاہری طور پر وہ فلم کی کام یابی کی وجہ تصور کئے جانے لگتے ہیں۔

آئٹم سانگ  کے حوالے سے کئی انڈین ایکٹرسز کے گانوں نے شہرت حاصل کی جیسا کہ زینت امان کی فلم قربانی اور شالیمار، پروین بوبی فلم شان اور نمک حلال، ریکھا فلم جانباز، اسی سلسلے کو دیگر اداکاروں نے آگے بڑھایا اور نوے کی دہائی میں ان میں مادھوری ڈکشٹ کا نام سر فہرست نظر آتا ہے جنہوں نے فلم سیلاب اور کھل نائک میں آئٹم نمبر کیے۔

کھل نائک میں تو ان کے ایک گانے نے کئی تنازعات کو جنم دیا تھا۔ یہ ایک عامیانہ قسم کی شاعری پر بے ہودہ قسم کا رقص تھا، جسے فلم بینوں کے نچلے طبقے نے زیادہ پسند کیا تھا۔ ارمیلا ماتوند کر فلم چائناگیٹ اور لجا، روینہ ٹنڈن فلم راکشھک اور گھات، سونالی بیندرے نے فلم ممبئی میں آئٹم سونگز کیے۔ رواں صدی میں ہر بڑی ہیرون ان گانوں کو کرنا اپنے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں سمجھتی۔

اس لیے فلم میکرز بھی انہیں ان کی مارکیٹ ویلیو کے حساب سے کاسٹ کرتے ہیں۔ کبھی کسی نے شاید سوچا بھی نہ ہو کہ ایشوریا رائے بچن جیسی انڈسٹری کی بڑی اداکاری بھی آئٹم سونگ کریں گی، لیکن ایشوریا نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ ضرور دھوئے اور انہوں نے فلم بنٹی اور ببلی میں کجرارے کجرا رے تیرے کارے کارے نینا پر آئٹم سونگ کیا۔ خوش قسمتی سے یہ گانا ہٹ ہوگیا اور آئٹم سونگز کے حوالے سے ایشوریا کی مانگ میں بھی اضافہ ہوگیا، لیکن اس کے بعد تاحال ایشوریانے کسی فلم میں آئٹم سونگ نہیں کیا۔

اس کے علاوہ کترینہ کیف کا فلم اگنی پتھ میں چکنی چنبیلی، شاہ رخ کا فلم اوم شانتی اوم میں درد ڈسکو، دھوم تھری میں کملی کا شمار ہٹ آئٹم سانگز میں کیا جاتا ہے۔

اس کے بعد جن آئٹم نمبر نے اس وقت سب سے زیادہ مقبولیت پائی ان میں فلم دبنگ کا منی بدنام ہوئی جو کہ ملائکہ اروڑہ خان پر فلمایا گیا تھا، فرح خان کی فلم تیس مار خان میں کترینہ کا شیلا کی جوانی جسے گانے فلم بینوں کے ذوق پر پورے اترے تھے۔ اس سارے معاملے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ آئٹم سونگ کسی بھی فلم کا وہ خو بصورت ریپر یا پیکنگ ہے جس میں کسی بھی قسم کی فلم ہو سکتی ہے، صرف پیکنگ ہی اتنی خو بصورت بنادی جاتی ہے کہ فلم بین صرف اس کے لیے پوری فلم دیکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔