چڑیا سیالکوٹیا

انتظار حسین  پير 4 مئ 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

اکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے لٹریچر فیسٹیول میں رنگ رنگ کے موضوعات زیر بحث تھے۔ بھانت بھانت کی بولی بولی جا رہی تھی اور قسم قسم کا جناور جمع تھا۔ ہم ایسے لوگ پریشان کہ کس کی سنیں‘ کس کس سے کترا کر نکل جائیں۔ ایک سیشن نرالا نظر آیا۔ وہاں سیالکوٹ کے پرندے زیر بحث تھے۔ ہم نے سوچا ادب بہت ہو لیا۔ ذرا پرندوں کی بھی پرواز دیکھ لیں۔ یہاں ایک فوٹو گرافر کامران سلیم بیٹھے تھے۔ اس دعوے کے ساتھ کہ انھوں نے سیالکوٹ کے گرد و نواح میں چاروں کھونٹ پھر کر یہاں کے پرندوں کا کھوج لگایا ہے۔ پرندوں کو پکڑنے کا ان کے پاس کوئی جال نہیں تھا‘ نہ کوئی قفس تھا۔ بس ایک کیمرہ تھا انھوں نے رنگ رنگ کے پنچھیوں کو اپنے کیمرے کی آنکھ سے دیکھا‘ ان کی تصویریں بنائیں اور پورا ایک البم تیار کیا۔

اس پرندوں کے پرستار کی کمک پر یہاں مستنصر حسین تارڑ بیٹھے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ بھی ایک پرندہ ہیں۔ فرید الدین عطار کے ان پرندوں میں سے ایک پرندہ جو حقیقت کی تلاش میں لمبے سفر پر نکلے ہوئے تھے۔ اس سے بڑھ کر انھوں نے کہا کہ سب انسان پرندے ہیں۔ از انجملہ ہوں میں بھی۔ اب کے وہ دلیل گیتا سے لائے۔ گیتا کہتی ہے کہ ہماری تمہاری آتما بھی ایک پنچھی ہے۔ ایسا پنچھی جو پنجرہ میں مقید ہے۔ یہ پنچھی پنجرے میں بند تڑپ رہا ہے کہ کسی طرح پنجرے سے رہائی پائے اور کھلی فضا میں اونچی اڑان لے۔ پھر انھوں نے گیتا کے پنجرے سے نکل کر فرید الدین عطار کی طرف پرواز کی۔ جب تھوڑا نیچے آئے تو کامران سلیم پر توجہ کی۔ بتایا کہ اس آوارہ روح نے سیالکوٹ کے نواح میں جنگل جنگل گھوم پھر کر پرندوں کو دیکھا بھالا‘ ان کی تصویریں بنائیں۔ اور سیالکوٹ کے پرندوں کے عنوان سے ایک البم تیار کیا ہے۔ کہیں چلتے چلتے انھوں نے ہماری طرف اشارہ کیا کہ یہاں ایک اور شخص بیٹھا ہے جو چڑیوں کا بہت ذکر کرتا ہے اس سے ہمارا بہت فائدہ ہوا۔ اس البم کی ایک جلد کامران سلیم نے ہمیں عنایت کی۔

اب ہم اس البم کی ورق گردانی کر رہے ہیں اور سیالکوٹی پرندوں کی خوش نما برادری سے متعارف ہو رہے ہیں۔ واہ کیا خوب پرندے ہیں‘ ایک تو ان کا اپنا جنگلی حسن۔ اس پر مستزاد کامران سلیم کا کیمرہ پھر کامران سلیم مصور بھی تو ہیں۔ انھوں نے کیمرے کی آنکھ دیکھتے دیکھتے مصور کی آنکھ سے بھی دیکھا۔ ان دونوں آنکھوں نے مل کر کینوس پر عجب جادو جگایا ہے۔ اقبال نے یہ صنوبر کے بارے میں کہا تھا کہ؎

صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پابہ گِل بھی ہیں

یہاں بھی کینوس پر ایک باغ پھولا ہوا ہے۔ رنگ رنگ کا پنچھی اپنا رنگ دکھاتا ہے اور ورق الٹنے کے ساتھ وہ تو ہماری دید سے پرے پہنچ گیا۔ مگر ہم تو زندہ ہیں اور ان پرندوں کو دیکھ کر مزید زندہ ہو گئے ہیں۔

مگر اس دیوان تصاویر کی ایک ادا نے ہمیں شش و پنج میں ڈال رکھا ہے۔ ان سب پرندوں کے نام انگریزی میں لکھے گئے ہیں۔ ارے یہ سیالکوٹ کے پرندے ہیں۔ یہ اپنی بولی بولتے ہیں‘ سیالکوٹی لہجہ میں چہکتے ہیں۔ سیالکوٹ کے لوگ اپنی زبان میں دیے ہوئے نام سے انھیں پہچانتے ہوں گے۔ اگر وہ نام یہاں درج ہوتے تو ہمیں ان پرندوں کا قرب میسر آ جاتا۔ اب ان کے اور ہمارے درمیان انگریزی حائل ہے۔ ہم نے انگریزی اردو ڈکشنری کی مدد سے ان کے دیسی نام جاننا چاہے۔ لیکن اس ڈکشنری نے ہماری زیاد مدد نہیں کی۔ یوں دیکھئے کہ آبی پرندوں کا تو پورا ایک خاندان ہے۔ ان میں کتنے ایسے پرندے ہیں ایک دوسرے کے مشابہ ہوتے ہوئے ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں۔ اب گر Stork کے اگے سارس لکھا ہو ا ور ساتھ میں بگلا بھی تو کسی اجنبی کو کیسے پتہ چلے گا کہ یہ سارس ہے بگلا نہیں ہے یا یہ کہ بگلا ہے یعنی بگلہ بھگت۔ مگر وہ سارس نہیں ہے۔

الو کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ ہمارے یہاں بھی الو ہے ادھر انگریزوں کے دیس میں بھی الو ہی ہے اگر چہ وہ اسے Owlبولتے ہیں لیکن King fisher یہ کونسا پرندہ ہے۔ ڈکشنری میں لکھا ہے ’’ماہی خور نسل کے سرخ رنگ اور چوٹی دار پرندوں میں سے کوئی ایک۔ اس تفصیل سے ہم کیا سمجھیں۔ سیالکوٹ کے لوگ باگ اسے اپنے یہاں کے دیسی نام سے پکارتے ہوں گے وہ نام کیا ہے۔

ایک چڑیا کا نام یو ں لکھا ہے

Blue tailed bee- eater اردو میں ہم نے اس کا ترجمہ نیلی دم والی مکھی خور چڑیا کیا۔ مگر یہ تو اس چڑیا کی رنگت اور اس کی غذا کا تذکرہ ہے۔ وہ چڑیا کونسی ہے۔ ورق الٹتے الٹتے پھر ایک چڑیا نظر آئی۔ کتنی خوبصورت چڑیا ہے۔ مگر پھر وہی چکر کہ نام غائب ہے۔ لکھا ہے نیلی دم والی مکھی خور چڑیا۔

پھر ہم نے خود ہی کسی کسی چڑیا کو پہچانا اور خوش ہوئے۔ کچھ چڑیوں کو دیکھ کر یوں ان سے تعارف پیدا کیا۔

چڑیاں ہیں سب دیکھی بھالی
پر بھی کالے‘ چونچ بھی کالی

پھر ہم نے سوچا کہ نام میں کیا رکھا ہے۔ یہ رنگ رنگ کی خوبصورت چڑیاں ہیں۔ انھیں دیکھو اور خوش ہو جاؤ اور انھیں کینوس پر اتارنے والے کو داد دو ۔ اور ہاں اس انکشاف پہ پُر زور مسرت کہ ان چڑیوں میں ایک چڑیا اور بھی ہے مستنصر تارڑ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔