ادب کا عالمی دن

ظہیر اختر بیدری  پير 4 مئ 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پچھلے دنوں پاکستان سمیت ساری دنیا میں ادب کا عالمی دن منایا گیا۔ اس حوالے سے پاکستان خصوصاً لاہور میں کئی ادبی تقریبات کا اہتمام کیا گیا جس میں ادب کے ہزاروں شیدائیوں نے شرکت کی۔ اس قسم کی ادبی تقریبات کا ایک اہم حصہ ادبی کتابوں کے اسٹال ہوتے ہیں جن میں دنیا بھر کی ادبی کتابیں سجائی جاتی ہیں اور ان میلوں ٹھیلوں میں شریک ہونے والے افراد ان اسٹالوں سے اپنی پسند کی کتابیں خریدتے ہیں۔ موجودہ دہشت زدہ ماحول میں جہاں انسان نہ گھر کے اندر محفوظ ہے نہ گھر کے باہر، اس قسم کی ادبی تقریبات کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لاہور تقسیم سے پہلے ہی سے ایک ادبی مرکز کے طور پر موجود رہا ہے اور انتہائی نامساعد حالات کے باوجود زندہ دلان لاہور ادبی تقریبات میں بھرپور حصہ لیتے ہیں۔

لاہور کے بعد کراچی ایک ایسا شہر ہے جہاں کسی نہ کسی حوالے سے ادبی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں جب کہ ساری دنیا میں ہتھیاروں کی نمائشوں کا بھاری سرمایہ لگا کر دھوم دھڑکے کے ساتھ اہتمام کیا جاتا ہے اور دنیا کے کئی ملکوں کے دفاعی شعبے سے متعلق وفود ہتھیاروں کی ان نمائشوں میں شرکت کر کے اپنی پسند اور ضرورت کا اسلحہ خریدتے ہیں۔ کتابوں کی نمائشیں اگرچہ ایک مذاق لگتی ہیں لیکن ذرا گہری نظر سے دیکھا جائے تو ہتھیاروں کی نمائشوں کے مقابلے میں ادبی کتابوں کی یہ چھوٹی چھوٹی نمائشیں اپنے اندر اتنی معنویت رکھتی ہیں کہ ہتھیاروں کی بڑی بڑی نمائشیں ادب کی ان چھوٹی چھوٹی نمائشوں کے مقابلے میں بے معنی نظر آتی ہیں۔

پاکستان میں ویسے تو بے شمار ادبی تنظیمیں موجود ہیں لیکن ان بے شمار بے وسیلہ تنظیموں میں چند ایسی با وسائل ادبی تنظیمیں بھی موجود ہیں جو بڑی بڑی ادبی تقریبات کا اہتمام کرتی ہیں، ان میں نیشنل بک فاؤنڈیشن اور اکادمی آف ادبیات کے علاوہ آرٹس کونسل ایسی ادبی تنظیمیں ہیں جن کے پاس ’’اللہ کے فضل‘‘ سے بے تحاشا وسائل ہیں آرٹس کونسل کے ایجنڈے میں ادب اور کلچر کا فروغ بنیادی اہمیت کا حامل ہے، آرٹس کونسل کراچی ہر سال ادب کے حوالے سے ایک بڑی کانفرنس کا اہتمام کرتا ہے جس میں ملک بھر کے ادیبوں کے ساتھ دنیا کے کئی ملکوں کے ادیب اور شاعر بھی شرکت کرتے ہیں اور یہ کانفرنسیں عموماً ادیبوں، شاعروں میں ملاقات اور تجدید ملاقات کا اہم کام انجام دیتی ہیں۔

ہمارے ملک کے بڑے بڑے نامور ادیب اور کالم نگار ان ادبی تقریبات کا بڑے فخر سے ذکر بھی کرتے ہیں اور ان کی اہمیت اور ضرورت پر روشنی بھی ڈالتے ہیں۔ یہ سب بڑی اچھی باتیں ہیں لیکن ان کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے جب ہم ان پر نظر ڈالتے ہیں تو ’’رات گئی بات گئی‘‘ کی تصویر سامنے آتی ہے۔ جب تک ہم ادبی تقریبات کا ملک کے ماحول اور اس دہشت زدہ ماحول میں تبدیلی کے حوالے سے جائزہ نہیں لیں گے نہ ہم ان ادبی تقریبات کی اہمیت اور افادیت کا تعین کر سکتے ہیں نہ ان کے سرپرستوں کی کاوشوں کا احاطہ کر سکتے ہیں۔

ہمارا ملک پچھلے کئی عشروں سے دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، مذہبی انتہا پسندی سمیت جن سنگین جرائم کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اس کے سدباب کے لیے چھوٹے چھوٹے علاقائی آپریشن کے ساتھ ساتھ ’’ضرب عضب‘‘ جیسے بڑے آپریشن بھی کیے جا رہے ہیں جن کے ذریعے دہشت گردوں کو بھی ختم کیا جا رہا ہے اور دہشت گردوں کے اڈوں کو بھی تباہ کیا جا رہا ہے لیکن جو نظریات جو مذہبی انتہاپسندی، جو جہل ہمارے ملک اور معاشرے میں موجود ہی نہیں مستحکم بھی ہے اور ہزاروں سالوں کی گہری جڑیں بھی رکھتا ہے کیا اسے کوئی چھوٹا یا بڑا آپریشن ختم کر سکتا ہے؟

ہماری مختلف سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں، ٹارگٹ کِلروں، خودکش بمباروں کو ہلاک بھی کرتی ہیں گرفتار بھی کرتی ہیں ان کے اڈوں کو تباہ بھی کرتی ہیں اور اس حوالے سے جانی قربانیاں بھی دیتی ہیں لیکن وہ جہل وہ جاہلانہ نظریات جو انسانوں کو حیوان بناتے ہیں اور خودکش حملوں کے لیے تیار کرتے ہیں انھیں نہ سیکیورٹی فورسز ختم کر سکتی ہیں نہ یہ ان کی ذمے داری ہے۔ اس کے لیے ایک فکری انقلاب کی ضرورت ہے جو صرف ادیب، شاعر، فنکار اور میڈیا ہی برپا کر سکتے ہیں۔ کیا یہ کام ادیب، شاعر، فنکار، میڈیا انجام دے رہا ہے؟ کیا یہ کام ادبی میلوں ادبی کتابوں کی نمائشوں کے ذریعے کیا جا سکتا ہے؟ یہ سارے کام یہ ساری تقریبات رات گئی بات گئی کے زمرے میں آتے ہیں۔ کیا ہمارے بڑے بڑے نام ور ادیب، شاعر ان حقائق سے آشنا ہیں؟ اگر ہیں تو پھر کیا انھیں وقتی اثر رکھنے والی ادبی تقریبات سے نکل کر فکری انقلاب کے مسئلے پر غور نہیں کرنا چاہیے؟ کیا فکری انقلاب محض ادبی میلوں، کتابوں کی نمائشوں اور ادبی کانفرنسوں سے ممکن ہے؟

کراچی لاہور سمیت کئی شہروں میں ادیب، شاعر، دانشور آدھی آدھی رات تک چائے خانوں، کافی ہاؤسوں میں بیٹھے ادب، قوم و ملک کے مسائل پر آزادانہ اور بے خوف گفتگو کیا کرتے تھے شہری مرد اور خواتین رات دیر گئے تک بلاخوف و خطر گھومتی پھرتی تھیں کوئی شہری نہ گھر سے نکلتے ڈرتا تھا نہ گھر واپس ہوتے ڈرتا تھا کراچی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا یہ سب کہاں گیا اس آزادی کو کس کی نظر کھا گئی، آج سر شام شہر کی سڑکوں، گلیوں میں سناٹا کیوں نظر آتا ہے؟

کیا اس سناٹے کو سیکیورٹی فورسز ختم کر رہی ہیں، کیا ان سناٹوں کو جنم دینے والے مائنڈ سیٹ کو ادبی میلوں، کانفرنسوں اور کتابوں کی نمائشوں کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے؟ یقیناً ان سوالوں کے جوابات نفی میں ہی آتے ہیں۔ 1947ء کے قتل عام کے بعد بھی سارے متحدہ ہندوستان میں ایسا ہی بلکہ اس سے گہرا سناٹا تھا اسے نہ سیکیورٹی فورسز دور کر سکیں نہ مبلغین اس سناٹے کو دور کر سکے۔ اس سناٹے کو نفرت اور عدم اعتماد کے اس خطرناک ماحول کو ادب اور ادیبوں اور شاعروں نے ہی تبدیل دیا۔ یہ تبدیلی محض ادبی میلوں ادبی کانفرنسوں کتابوں کی نمائشوں سے نہیں آئی بلکہ یہ تبدیلی ادبی کتابوں کے مطالعے کو عام کرنے ادبی کتابوں کے مراکز کو گلی گلی محلے محلے تک پہنچانے سے آئی۔

آرٹس کونسل، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اکادمی آف ادبیات وغیرہ کے پاس کروڑوں کے فنڈز موجود ہیں اس کا ایک بڑا حصہ میلوں ٹھیلوں، قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں پر خرچ کیا جا رہا ہے کیا اس بڑے حصے میں سے ایک چھوٹا حصہ یہ ادارے ایسے پبلشنگ ہاؤسز پر خرچ نہیں کر سکتے جو ملک اور دنیا کے دوسرے ملکوں کی منتخب ادبی کتابوں کے سستے ایڈیشن چھاپیں الیکٹرانک میڈیا کے تعاون سے ان کی پبلسٹی کریں اور عوام تک ان ادبی کتابوں کی ترسیل کا ایک جامع نظام قائم کریں۔ سرکار دربار میں احترام کی جگہ پانے والے ادیب اور شاعر اس قدر بے حس ہیں کہ انھیں یہ ساری حقیقتیں نظر نہیں آ رہی ہیں۔ کیا یہ حضرات گلی گلی محلہ محلہ میں موجود ان کیبن لائبریریوں سے ناواقف ہیں جہاں عام آدمی لائن لگا کر کرائے پر ادبی کتابیں حاصل کرتا تھا اور گھر کے دروازے بند کیے بغیر سکون کی نیند سوتا تھا؟ کیا یہ ہمارے ثقہ ادیبوں کی خودغرضی ہے یا نااہلی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔