’’ بائیک مشین‘‘ برقی آلات کا بہترین متبادل

ندیم سبحان  منگل 5 مئ 2015
ابتدا میں مقامی لوگوں نے مایا پیڈل کی تیارکردہ مشینوں کو مسترد کردیا تھا۔ فوٹو : فائل

ابتدا میں مقامی لوگوں نے مایا پیڈل کی تیارکردہ مشینوں کو مسترد کردیا تھا۔ فوٹو : فائل

 گوئٹے مالا لاطینی امریکا میں واقع ہے۔ ڈیڑھ کروڑ کی آبادی کے ساتھ یہ اس خطے کا گنجان ترین ملک ہے۔ اس کا شمار غریب اور پس ماندہ ترین ممالک میں بھی ہوتا ہے۔

دیہی گوئٹے مالا خاص طور پر غربت کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے جہاں لوگ روزمرّہ ضروریات کی تکمیل بھی بہ مشکل کر پاتے ہیں۔ پاکستان کی طرح گوئٹے مالا میں بھی بجلی منہگی ہے۔ ملک کے متعدد دیہی علاقے اس نعمت سے محروم ہیں۔ اور جن دیہات میں یہ سہولت موجود ہے وہاں بھی اس کا استعمال کسی عیاشی سے کم نہیں۔

دیہات کے غریب لوگوں کی مشکلات کے پیش نظر 1997ء میں،دوراُفتادہ قصبے San Andrés Itzapa میں ایک این جی او نے لوگوں کو برقی آلات کا متبادل فراہم کرنے کا منصوبہ شروع کیا۔ یہ متبادل، ناکارہ سائیکلوں کے پُرزوں اور حصوں سے تیارکردہ مشینیں تھیں جنھیں پیڈل سے چلایا جاسکتا تھا۔ گوئٹے مالا کے دیہات میں آج ہر طرف یہ مشینیں نظر آتی ہیں جو گھریلو ضروریات کے علاوہ سادہ فوڈ پروسیسنگ سے لے کر شیمپو اور صابن سازی تک، ان گنت مقاصد کے لیے استعمال ہورہی ہیں۔

’’ مایا پیڈل‘‘ نامی این جی او دراصل ایک کینیڈین آرگنائزیشن ’’ پیڈل‘‘ اور سان اینڈرس کے رہائشی مکینک کارلوس میروکن کے درمیان اشتراک کا نتیجہ تھی۔ کینیڈین آرگنائزیشن گوئٹے مالا سے پہلے کئی ممالک میں اسی نوع کی مشینیں غریب لوگوں کو فراہم کررہی تھی۔

سائیکل کے پیڈل سے چلنے والی مشینیں مقامی زبان میں bicimaquina ( بائیک مشین) کہلاتی ہیں۔ ابتدا میں یہ مشینیں مایا پیڈل کی ورک شاپ میں کارلوس اکیلا ہی بناتا تھا پھر  اسے کئی رضاکاروں کی معاونت حاصل ہوگئی اور آج درجن بھر سے زیادہ افراد  اس کے ساتھ مل کر یہ مشینیں تیار کررہے ہیں۔ بائیک مشینیں، ناکارہ سائیکلوں کے پُرزوں، کنکریٹ اور دھات سے بنائی جاتی ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد بجلی کے بجائے انسان کی جسمانی توانائی سے مختلف کاموں کی انجام دہی ممکن بنانا ہے۔

40 ڈالر مالیت کی مشینیں مختلف کاموں کے لیے ڈیزائن کی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر ’ بائیسکل مِل‘ ناکارہ بائیسکل میں تبدیلیوں کے بعداس میں دستی چکّی نصب کرکے بنائی گئی ہے۔ سائیکل کے پیڈل چلتے ہیں اور چکّی غلّہ پیسنا شروع کردیتی ہے۔ اس بائیک مشین میں فی منٹ تین پونڈ اناج پیسا جاسکتا ہے۔

عام طور پر اس میں مکئی، سویابین اور کافی کے بیج پیسے جاتے ہیں کیوں کہ یہ فصلیں گوئٹے مالا میں کثرت سے پیدا ہوتی ہیں۔  سائیکل بلینڈر، پہیے سے منسلک روٹر کے ذریعے گھومتے ہوئے مسالا وغیرہ پیستا ہے۔ جتنے تیز پیڈل چلائے جائیں گے اتنی جلدی یہ مسالا پیسے گا۔  اسی طرح پیڈل کے ذریعے چلنے والا سائیکل واٹر پمپ، ہاون دستہ، تھریشر، واشنگ مشین، یہاں تک کہ جنریٹر بھی موجود ہے۔

ان میں سے بیشتر مشینیں مقامی خواتین کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیزائن کی گئی ہیں۔ گوئٹے مالا میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں، بلکہ زیادہ محنت طلب کام ان ہی کے حصے میں آتے ہیں۔ بائیک مشین نے ان پر مشقت کا بوجھ بڑی حد تک کم کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ مشینیں لوگوں کی مالی حالت بہتر بنانے میں بھی معاون ثابت ہورہی ہیں۔ بجلی سے محروم دیہی علاقوں کی معیشت میں ان مشینوں نے انقلاب برپا کردیا ہے۔ انقلاب کی رفتار سُست سہی، مگر اس کے اثرات ہمہ گیر ہیں۔

مایا پیڈل کے ڈائریکٹر ماریو جواریز کے مطابق ہر بائیک مشین کا ڈیزائن منفرد ہے۔ پیڈل ہر مشین کا حصہ ہے، دیگر پُرزے اور حصے ضرورت کے لحاظ سے ترتیب دیے گئے ہیں۔ ہر مشین پہلی ہی کوشش میں تیار نہیں ہوگئی، بلکہ مشین کو کئی کئی بار بنایا گیا تب کہیں جاکر مطلوبہ ڈیزائن حاصل ہوا۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ ابتدا میں مقامی لوگوں نے مایا پیڈل کی تیارکردہ مشینوں کو مسترد کردیا تھا۔ ان کا کہنا تھا  اگر مشین ہی بنانی ہے تو پھر بجلی یا ڈیزل سے چلنے والی بنائیں۔ ماریو اور ان کے چند ساتھیوں کی مسلسل کوششوں کے بعد کچھ لوگ یہ مشینیں استعمال کرنے پر راضی ہوئے۔ ان کے فوائد دیکھ کر رفتہ رفتہ دوسرے لوگ بھی متوجہ ہونے لگے۔ بالآخر چند برس کے عرصے میں یہ مشینیں پورے قصبے میں پھیل گئیں۔ اب بائیک مشینیں گھروں کے ساتھ ساتھ گھریلوں صنعتوں میں بھی استعمال ہورہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔