قومی سلامتی، تصورات کی جنگ اور ایک درخت کا قصہ

راجہ قیصر احمد  بدھ 6 مئ 2015
گمان نہیں بلکہ خدشہ ہے کہ جمہوریت، طرزِ حکومت اور سیاسی بیداری جیسے تصورات اس غیر معمولی لہر کی نظر نہ ہوجائیں۔

گمان نہیں بلکہ خدشہ ہے کہ جمہوریت، طرزِ حکومت اور سیاسی بیداری جیسے تصورات اس غیر معمولی لہر کی نظر نہ ہوجائیں۔

داستان گوئی سے عجیب سی چڑ ہے۔ خدا جانے شائد یہی وجہ ہے کہ اشفاق احمد بحثیتِ لکھاری کبھی پسند نہیں رہے۔ کیا کہانیاں سنائی جائیں کہ ہر روز ہی اک نیا حادثہ مگر یہ بھی اک روشن حقیقت کہ ہمیں کہانیاں سننا پسند ہے مگر اپنے نقطہ نظر اور جانب دار پیرائے میں۔

معانیِ گلدستہ کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھوں

گزارش یہ ہے کہ میں کوئی کالم نگار نہیں ہوں اور نہ ہی صاحبِ قلم ہونے کا دعویدار۔

سمجھا جائے۔”Intellectual Diarrhea” میری تمام آراء کو گزشتہ تحریر بحوالہِ سبین محمود ثانیاََ اور ذاتیاََ میری اپنی رائے تھی اور میں اس پر قائم ہوں۔ ایک دوست کا پیغام آیا کہ یاد رکھو لبرل ازم اسلام سے ہار کر رہے گا۔ جناب اسلام اور لبرل ازم کی لڑائی ہی کب تھی؟ اِتنا احساسِ کمتری۔
طاعت میں تا رہے نہ مئے و انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لا کر بہشت کو
سچ ہے کہ دنیا میں سچ لکھنے سے بڑا مشکل کام کوئی نہیں۔ طلعت حسین نے کہا میں سچ نہیں لکھ سکتا ڈر ہے کہ اگر لکھوں گا تو میرا ادارہ مجھے نکال دے گا یا کوئی اخبار اسے چھاپے گا نہیں۔ برٹرینڈ رسل یاد آیا کہاـ دنیا میں سچ صرف چند لوگوں کے لئے ہے اکثریت اسی پر یقین کرتی ہے جو اُسے بتایا جاتا ہے۔ تبھی تو میرے عہد کے ادیبوں نے ضیائی آمریت میں علامات نگاری کا سہارا لیا۔ منشا یاد بھی غریقِ خاک ہوگئے۔
’’تماشا‘‘ اور ’’تیرہواں کھمبا‘‘ اردو ادب میں تابندہ رہیں گے۔ سلگتا ہوا مظہر الاسلام اور اُس کی ’’پنجرے میں پائی گئی بات‘‘ اور اِس فن میں اوجِ کمال کو پہنچے ڈاکٹر رشید امجد۔ جس کو شک ہے وہ ’’گمشدہ آواز کی دستک‘‘ اور ’’بیزار آدم کے بیٹے‘‘ پڑھ لے۔ ڈاکٹر صاحب سے ایک سرسری سی ملاقات میں عرض کیا کہ آپ کی کتاب ’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘ نے اُداس کردیا ہے۔ کہا زندگی بذاتِ خود ہی ایک اداس اور تلخ تجربہ ہے؟

فراز یاد آئے
ہم کو اُس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں
لوگ معمار کو چُن دیتے ہیں دیوار کے ساتھ
رانا احمد ثبات نے ایک واقعہ لکھ کر بھیجا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ ایک ملک کے ایک ادارے میں ایک جوڑا ایک بڑے چھاوں والے درخت کے نیچے غیر اخلاقی حرکتوں کا مرتکب پایا گیا۔ ادارے کی انتظامیہ نے ہنگامی میٹنگ بلائی اور تحقیقات کا آغاز کردیا۔ کئی دن کے پُر مغز تجزیے کے بعد انتطامیہ نے مستقبل میں ایسی صورت حال کے سدِباب کے طور پر ایک اہم قدم اٹھایا اور یوں بڑا درخت کاٹ دیا گیا۔
قومی سلامتی کے نام پر 9، 9 گھنٹے جو بحث ہو رہی ہے۔ عملدرآمد کمیٹیاں بن رہی ہیں اور جو ہنگامی اقدام اٹھائے جا رہے ہیں اُن کو اس واقعے سے ملا کر سمجھنے کی کوشش کریں تو ساری صورت حال واضح ہوجائے گی۔
غیر معمولی حالات غیر معمولی اقدامات کا تقاضہ تو ضرور کرتے ہیں اور فوجی عدالتوں سے بھی کوئی اعتراض نہیں مگر بارہا یہ پہلے بھی عرض کیا کہ ہمارا عدالتی نظام نقاہت کا شکار ہے یا یہ کہہ لیں کہ منہدم ہوچکا ہے۔ اس کو نئے سرے سے استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ شخصیات ادارے نہیں بناتی بلکہ ان کو تباہ کردیتی ہیں۔ افتخار چوہدری صاحب کی مثال ہم سب کے سامنے ہے۔
گمان نہیں بلکہ خدشہ ہے کہ جمہوریت، طرزِ حکومت اور سیاسی بیداری جیسے تصورات اس غیر معمولی لہر کی نظر نہ ہوجائیں۔ خیال رہے کہ اس جنگ میں آج تک سب سے امتیازی بات پاکستانی معاشرے کا مثبت رد عمل رہا ہے۔
1850 میں لکھی گئی Nathaniel Hawthorne کی شہرہ آفاق تصنیف ’’The Scarlet Letter‘‘ آج بھی کتنی بر محل اور متعلق ہے کہ حیرانگی ہوتی ہے۔ ہمیں مان لینا چاہئے کہ ہم تصورات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ ساری کی ساری دہشت گردی کی جنگ دو طاقتور اور متضاد تصورات کی جنگ ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ تو ہم جیت لیں گے مگر انتہا پسندی، بنیاد پرستی، مذہبیت، فرقہ پرستی اور قبائلیت کا کیا ہوگا؟
سانحہِ پشاور نےزیادہ کچھ نہیں بدلا۔ عوامی رائے عامہ۔ مگر وہ کب تشکیلات میں اہمیت کی حامل رہی ہے؟ ہم تو تاریخ کے ستم کا شکار رہے ہیں۔ یہ ردعمل ہے اور غضبناک ردعمل۔ احتیاط لازم ہے۔
سوچ بدلنی پڑے گی مگر کیسے؟ مذہب سے یکسر لا تعلقی بھی حل نہیں۔ مذہب زدہ معاشروں میں سیکیولرازم کی بحث مزید فساد کا موجب بنتی ہے اور ہم مزید تقطییت کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ تعصب سے بالاتر ہوکر سوچیں کہ انڈیا میں بجرنگ دل، سنگ پریوار، وشوا ہندو پریشد کے ہوتے ہوئے بھی سیاسی متشددیت اتنی زیادہ کیوں نہیں اگر ہے بھی تو سماجی سطح سے بالا کیوں نہیں ہوتی؟ ساختیاتی انتشار سیاسی انتشار میں کیوں نہیں بدلتا؟

بحث برائے بحث سے کیا حاصل؟ آئیں رومی کے بقول چیزوں کی درست اور غلط کی تشریحات کے بیچ کے میدان پر جمع ہونے کی کوشش کریں اور چپکے چپکے افتخارعارف کو پڑھیں۔
عجب گھڑی تھی
کتاب کیچڑ میں گر پڑی تھی
چمکتے لفظوں کی میلی آنکھوں میں اُلجھے آنسو بلارہے تھے
مگر مجھے ہوش ہی کہاں تھا
نظر میں اک اور ہی جہاں تھا
نئے نئے منظروں کی خواہش میں اپنے منظر سے کٹ گیا ہوں
نئے نئے دائروں کی گردش میں اپنے محور سے ہٹ گیا ہوں
صلہ، جزا، خوف، ناامیدی
اُمید، اِمکان، بے یقینی
ہزار خانوں میں بٹ گیا ہوں
اب ِاس سے پہلے کہ رات اپنی کمند ڈالے یہ چاہتا ہوں کہ لَوٹ جاؤں
عجب نہیں وہ کتاب اب بھی وہیں پڑی ہو
عجب نہیں آج بھی مری راہ دیکھتی ہو
چمکتے لفظوں کی میلی آنکھوں میں اُلجھے آنسو
ہوا و حرص و ہوس کی سب گرد صاف کردیں
عجب نہیں میرے لفظ مجھ کو معاف کردیں
عجب گھڑی تھی
کتاب کیچڑ میں گر پڑی تھی

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی

راجہ قیصر احمد

راجہ قیصر احمد

مصنف قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں پروفیسر ہیں۔ سیاست، ادب، تاریخ، مذہب اور ثقافت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔