این اے 125 اور پی پی 155 کا الیکشن کالعدم

ایڈیٹوریل  بدھ 6 مئ 2015
1977میں ہونے والے عام انتخابات میں بھی دھاندلیوں کے الزامات لگے جس کے نتیجے میں ملک میں مارشل لا نافذ ہوا، فوٹو: فائل

1977میں ہونے والے عام انتخابات میں بھی دھاندلیوں کے الزامات لگے جس کے نتیجے میں ملک میں مارشل لا نافذ ہوا، فوٹو: فائل

الیکشن ٹریبونل نے لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ 125 میں انتخابی عذر داری کا فیصلہ سناتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے انتخاب کو کالعدم قرار دیدیا اور حکم دیا ہے کہ حلقے میں 60 روز میں دوبارہ انتخاب کرایا جائے، الیکشن ٹریبونل نے قومی اسمبلی کے اسی حلقے میں صوبائی اسمبلی کے حلقے پی پی 155سے ن لیگی ایم پی اے میاں نصیر احمد کا الیکشن بھی کالعدم قراردیدیا۔

این اے 125میں تحریک انصاف کے ناکام امید وار حامد خان نے انتخابی عذر داری دائر کی تھی جب کہ پی پی 155 سے پی ٹی آئی کے ناکام امید وار حافظ فرحت نے درخواست دائر کر رکھی تھی۔الیکشن ٹریبونل نے 80صفحات پرمشتمل تفصیلی فیصلے میں قرار دیا کہ منظم دھاندلی نہیں ہوئی لیکن 7پولنگ اسٹیشنز کے تھیلے کھلنے کے بعد بڑے پیمانے پر انتخابی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔ ریٹرننگ آفیسر، پریذائیڈنگ افسروں اور الیکشن کمیشن کے عملے نے فرائض درست طریقے سے سرانجام نہیں دیے جب کہ ریٹرننگ آفیسر نے غیر مصدقہ نتائج کو ہی حتمی نتیجہ قراردیدیا، متعدد پولنگ اسٹیشنز کے ریکارڈ سے فارم 14اور 15 بھی غائب تھا، اس کے علاوہ درجنوں کاؤنٹرز فائلز پردستخط بھی موجود نہیں تھے۔

جن پولنگ اسٹیشنز کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی گئی ان میں متعدد پولنگ اسٹیشنز کا ریکارڈ بھی مکمل نہیں تھا۔ 5 پولنگ اسٹیشنزکی تحقیقات کے بعد نادرا نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ان پولنگ اسٹیشنز میں ایک ایک ووٹر نے اوسطاً6، 6ووٹ کاسٹ کیے، ٹریبونل نے حکم دیا کہ فرائض میں غفلت برتنے پر ریٹرننگ آفیسر اور الیکشن کمیشن کے عملے کے خلاف کارروائی کی جائے اور ان سے الیکشن کمیشن سے وصول کیے گئے اخراجات بھی واپس لیے جائیں۔ الیکشن ٹریبونل نے قرار دیاکہ درخواست گزار منظم دھاندلی ثابت تو نہیں کرسکے لیکن تحقیقات میں انتخابی بے ضابطگیاں سامنے آنے سے الیکشن کا عمل مشکوک ہوگیا۔ادھر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ الیکشن ٹریبونل کے فیصلے سے ثابت ہو گیا کہ ہم نے دھرنے ٹھیک دیے تھے اور چار حلقے کھولنے کا مطالبہ بھی درست تھا۔

الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کو مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف اپنے اپنے انداز میں دیکھ رہی ہیں‘ بہر حال الیکشن ٹریبونل نے شواہد کو دیکھنے کے بعد این اے 125 اور پی پی 155 میں دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم دیا ہے‘ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کے انتخابی نظام میں کئی خامیاں ہیں اور انھیں دورکرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے‘ جن دونوں حلقوں کا الیکشن کالعدم قرار دیا گیا ہے‘ یہاں منظم دھاندلی کا ثبوت نہیں ملا البتہ ریٹرننگ افسروں اور پریذائیڈنگ افسروں کی غفلت یا نااہلی کی وجہ سے ایسی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں کہ نتائج مشکوک ہو گئے ہیں۔

اب الیکشن ٹریبونل کے متاثرہ فریقین کے پاس سپریم کورٹ میں جانے کا آپشن ہے۔ اگر وہ یہ آپشن اختیار نہیں کرتے تو پھر ان دونوں حلقوں میں ضمنی الیکشن ہو گا۔ اس فیصلے سے یہ حقیقت کھل کے سامنے آئی ہے کہ جمہوری نظام پر عوام اور الیکشن لڑنے والوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے انتخابی نظام میں اصلاحات لانا ضروری ہو گیا ہے‘ پاکستان کے انتخابی نظام میں بہت سی خامیاں کھل کر سامنے آئی ہیں‘ ان خامیوں کی وجہ سے ہی تقریباً ہر الیکشن میں دھاندلیوں کی آواز اٹھتی رہی ہے۔

اگر انتخابی نظام دھاندلیوں سے پاک اورفول پروف ہوگا تو پھرالیکشن ہارنے والوں کے پاس نتائج تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔1977میں ہونے والے عام انتخابات میں بھی دھاندلیوں کے الزامات لگے جس کے نتیجے میں ملک میں مارشل لا نافذ ہوا ۔مئی 2013کے الیکشن کے حوالے سے بھی کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں دھاندلی کی باتیں کرتی رہی ہیں۔ ان میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہے۔ مسلم لیگ ق بھی انتخابی دھاندلیوں کی بات کرتی رہی ہے۔ تحریک انصاف نے دھاندلیوں کے خلاف زیادہ شدت سے احتجاج کیا اور اسلام آباد میں دھرنے دیے۔ اب ایک اعلیٰ سطح کا جوڈیشل کمیشن مئی 2013 کے عام انتخابات میں منظم دھاندلی کے حوالے سے تحقیقات کر رہا ہے۔

سوچنے والی بات یہ ہے کہ ایک جمہوری نظام میں یہاں تک نوبت نہیں پہنچنی چاہیے ۔اگر الیکشن کے نتائج کو ہی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جائے تو اس سے جمہوری سسٹم پر حرف آتاہے۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کے الیکشن کمیشن کے دائرے کار اور اختیارات کے حوالے سے بھی اصلاحات اور تبدیلیاں سامنے لائی جائیں۔پولنگ سسٹم کو شفاف بنانے کے لیے بھی سائنٹیفک طریقے اختیار کیے جائیں۔ پولنگ سسٹم میں بائیو میٹرک سسٹم بہتر ثابت ہو سکتا ہے ۔الیکشن کمیشن کے اختیارات اور دائرہ کار میں مثبت تبدیلیوں سے بھی انتخابی نظام پر الیکشن لڑنے والوںاور عوام کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔ یہ کوئی اتنا مشکل کام بھی نہیں ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ کہاں کہاں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اگر یہ تبدیلیاں کر دی جائیں تو اس سے جمہوریت مضبوط ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔