کتاب کے ہاتھوں کلاشنکوف کی شکست

زاہدہ حنا  بدھ 6 مئ 2015
zahedahina@gmail.com

[email protected]

یاد نہیں کس نے کہا تھا کہ میری زندگی کی بیشتر ساعتیں کتابیں پڑھتے ہوئے گزرتی ہیں۔ میرا یہ شوق دیوانگی کی اس حد کو چھوتا ہے کہ میرے بچے مجھ پر ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ ہمارے بابا نہیں، ایک کتاب ہیں جس کے دو ہاتھ اور دو پیر ہیں۔ یہ بات مجھے اس وقت یاد آئی، جب میں نے کتابوں کا روپ دھارے ہوئے کئی بچوں کو دیکھا جو مسکراتے ہوئے اپنے برابر سے گزرتے ہوئے لوگوں کو دیکھ رہے تھے۔

پاک چائنا فرینڈ شپ سینٹر، اسلام آباد کے وسیع و عریض ایوان میں لوگوں کا ایک سیل رواں تھا جو کتابوں کی دکانوں کی طرف لپک رہا تھا۔ ان میں ہر عمر کے لوگ تھے۔ بوڑھے اور جوان، عورتیں اور مرد، بچیاں اور بچے ،بچوں کے ہاتھوں میں کتابوں اور اسٹیشنری سے بھرے ہوئے تھیلے تھے۔ خوشی سے ان کے چہرے تمتمارہے تھے۔ آنکھوں میں وہ چمک تھی جو خزانہ ہاتھ آجانے پر رخساروں کو جگمگا دیتی ہے۔

وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نیشنل بک فاؤنڈیشن کے چھٹے جشن کتاب کا افتتاح کر کے اور ہال میں بیٹھے ہوئے بچوں اور بڑوں سے باتیں کرکے رخصت ہوچکے، فاؤنڈیشن کے ایم ڈی انعام الحق جاوید لوگوں سے ایک کامیاب تقریب کے آغاز کی داد وصول کرتے ہوئے مختلف اسٹالوں پر نظر آرہے ہیں۔ چہرے پر تھکن نام کو نہیں۔ آنکھوں میں آسودگی ہے۔ کتابوں کی دنیا سلامت رہے، کتاب ترانہ سارے ہال میں گونج رہا ہے۔ یہ ترانہ اس بات کا اعلان ہے کہ کتاب نے کلاشنکوف کو اور قلم نے قاتلوں کو شکست دے دی ہے۔

گزرے ہوئے برسوں میں ہمارے سماج میں بارود بچھائی گئی۔ کچھ ماہ و سال ایسے گزرے جب یہ محسوس ہوتا تھا کہ ہماری نئی نسل تعلیم سے محروم رہ جائے گی، کہانیاں اور کتابیں اس کے لیے گزرے ہوئے زمانوں کا قصہ بن جائیں گی لیکن یہ جمہوری حکومتوں کا تحفہ اور ان کا تسلسل ہے کہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی سربراہی کرنے والوں نے حکومت کی سرپرستی میں کتابوں کے سالانہ جشن کا آغاز کیا اور اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہوا کہ اس برس یہ جشن 3 دن سے 5 دنوں پر پھیل گیا۔

آخری دو دنوں میں یہ عالم تھا کہ خریدار جن میں بچوں کی اکثریت تھی وہ کتابوں، رنگین پنسلوں اور رنگ بھرنے والی کاپیوں پر یوں ٹوٹے پڑرہے تھے جیسے سب کچھ مفت مل رہا ہے، ان میں سے بہت سے بچے اپنی جمع پونجی لے کر خریداری کے لیے آئے تھے اور وہ بھی تھے جو والدین یا نانا، نانی اور دادا، دادی کی جیب ہلکی کروارہے تھے، ان کی اکثریت متوسط اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔

گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی پاکستان بھر سے ادیب اور شاعر بلائے گئے تھے۔ ان میں سے کچھ کی رنگین تصویریں اسلام آباد کی مختلف سڑکوں پر جھومتے ہوئے پیڑوں پر یوں نظر آرہی تھیں جیسے وہ بھی ان پیڑوں کے ساتھ ہی اُگی ہوں، عکسی مفتی، عطاء الحق قاسمی، صغرا صدف اور بہت سے دوسرے۔ پاک چائنا فرینڈ شپ سینٹر کے مختلف کمروں میں پاکستانی زبانوں کے حال اور مستقبل پر گفتگو ہورہی تھی، نسائی شعور اور ہمار ادب کے موضوع پر کیا دھواں دھار باتیں ہوئیں اور کیسی پھلجھڑیاں چھوٹیں، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس گفتگو میں کشور ناہید، فرزانہ باری، طاہرہ عبداللہ، خاور ممتاز، فاطمہ حسن، فرحت پروین اور راقم الحروف شامل تھے۔

’’جدید نظم اور عہد حاضر کے تقاضے‘‘ میں سننے والوں اور بات کرنے والوں کا ایسا جمگھٹا تھا کہ کرسیاں کم پڑگئیں اور حاضرین زیادہ ۔ لوگ اصغر ندیم سید، امجد الاسلام امجد، علی محمد فرشی، نصیر احمد ناصر، سرمد صہبائی اور دوسروں کی گفتگو سے ایسے سرشار ہوئے کہ اپنی پنڈلیوں کی تھکن بھی بھول گئے۔

ایک مکالمہ ’’نئی کہانی۔ نیا زمانہ‘‘کے عنوان سے ہوا۔ سب سے پہلے تو اس کے صدر محترم غائب ہوگئے۔ پھر مکالمے میں شامل اور بھی کئی لوگ نظر نہ آئے۔ حمید شاہد، مسعود اشعر، مبین مرزا کے علاوہ راقم الحروف، پھر ہم نے یہ طے کیا کہ ہمیں کسی کا انتظار حد سے زیادہ نہیں کرنا چاہیے اور گفتگو شروع کردینی چاہیے ۔ ابھی ہم نے بات کا آغاز ہی کیا تھا کہ کیا دیکھتے ہیں کہ سننے والے چلے آتے ہیں۔

ہم خوش ہوئے اور پھر رنگ محفل ایسا جما کہ سننے والے بھی اس بات چیت میں حصہ لینے لگے، مکالمہ اپنے اختتام کی طرف رواں دواں تھا کہ دروازہ کھلا اور انتظار حسین صاحب کمرے میں داخل ہوئے۔ یہ ہماری محفل کے غائب صاحب صدر تھے جو اب آن موجود ہوئے تھے۔ قبل اس کے کہ ہم ان سے شکایت کرتے، انھوں نے جلدی سے بتایا کہ وہ برابر کے کمرے میں ایک دوسرے سیشن کی صدارت کررہے تھے اور اب لپک کر یہاں آئے ہیں تاکہ نئی کہانی کا دامن بھی ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔ ہم نے ان کی بات پر صبر کیا۔ سائنس کی بے پناہ ترقی کے باوجود ابھی یہ تو ممکن ہوا نہیں ہے کہ انتظار صاحب کی فوٹو کاپی بنوا کر کئی محفلوں کی صدارت ان سے کروالیں۔

جشن کتاب، میں سب سے زیادہ رنگ کہانی سنانے والوں نے جمایا۔ اردو کہانیوں کے 5 اور انگریزی کہانیوں کے 2 سیشن ہوئے۔ سب ہی بھرپور، سنانے والے اہم نام، سننے والوں کی کمی نہیں تھی۔ نام اتنے ہیں کہ کسی کا لکھنے سے رہ گیا تو قیامت آجائے گی۔ بس یہ جانیے کہ تمام اہم لکھنے والوں نے اپنی کہانیاں سنائیں اور خوب خوب داد سمیٹی۔

اس مرتبہ انعام الحق جاوید نے چینی، فارسی اور ترکی کے سنانے اور سننے والے بھی اکٹھا کرلیے۔ چین، ایران اور ترکی کے سفارت خانوں کے لوگ آئے اور انھوں نے یہ سیشن دلچسپی سے سنے، چینی اور فارسی کا مجھے علم نہیں کیوں کہ عین اسی وقت ترکی اور اردو کے باہم روابط کا سیشن ہو رہا تھا۔ ایم ڈی، نیشنل بک فاؤنڈیشن نے مجھے اس سیشن کی کرسی صدارت پر بٹھایا اور خود مسکراتے ہوئے کسی اور جانب چل نکلے۔ جدید ترکی ادب سے کون سی کتابیں اردو میں منتقل ہوچکی ہیں اور کون سی ہو رہی ہیں، اس بارے میں تفصیلات ایک اشاعتی ادارے سے تعلق رکھنے والے صاحب نے بتائیں۔

کچھ اور لوگوں نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔ میرا کہنا تھا کہ اردو اور ترکی کے گہرے روابط کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’اردو‘‘ کا لفظ ہی ترکی سے مستعار ہے۔ اس کے بعد میں نے سجاد حیدر یلدرم کا ذکر کیا۔ ان کا قلمی نام ’’یلدرم‘‘ ترکی زبان سے ان کی گہری وابستگی کا اظہار ہے۔ عطیہ فیضی اور ان کی بہن نازلی رافعہ جو بیگم جنجیرہ کے نام سے معروف تھیں ان کا 1908ء کا ترکی کا سفر نامہ، اسی طرح سرعبدالقادر کا ترکی کا سفر نامہ بالکل سامنے کی تحریریں ہیں۔ ان سفر ناموں کو پڑھ جائیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان کو ترکی سے کس قدر گہرا قلبی تعلق تھا۔

یہی تعلق تھا جس کی جھلک ہمیں پنڈت رتن ناتھ سرشار کے ناول ’’فسانۂ آزاد‘‘ میں نظر آتی ہے اور اسی طرح فیاض علی ایڈووکیٹ کے ناول ’’شمیم‘‘ میں اس کا ہیرو ترکوں کی طرف سے لڑتا ہوا اور فتح کے پھریرے لہراتا ہوا سمرنا میں داخل ہوتا نظر آتا ہے۔

ابوالکلام آزاد کے ہفت روزہ میں ترکوں کے مسائل اور معاملات سے گہری دلچسپی کی تفصیل پڑھنے کو ملتی ہے اور 20 کی دہائی میں نیاز فتح پوری اپنا علمی اور ادبی جریدہ نکالتے ہیں تو ایک اہم ترک خاتون کے نام پر اس کا نام ’’نگار‘‘ رکھتے ہیں۔ خالدہ ادیب خانم کا ہندوستان کا سفر، ان کا مختلف شہروں میں شاندار استقبال اس بات کی دلیل ہے کہ ہندوستانی مسلمان ترکوں پر جان نثار کرتا تھا۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں فیض صاحب نے ناظم حکمت کی نظمیں ترجمہ کیں اور ہمیں ترکوں کی انقلابی شاعری کے ذائقے سے آشنا کیا۔

باتیں تو بہت سی ہیں جنھیں چند سطروں میں سمیٹنا ممکن نہیں۔ کتابوں کے اس جشن میں انتظار صاحب اور انور مسعود صاحب کو ان کے چاہنے والوں نے دو راتوں میں گھنٹوں جی بھر کر سنا۔ مشاعرہ بھی ہوا اور داستان گوئی کے علاوہ تصوف کی محفل بھی سجی۔ بچوں کے لیے ٹیبلو اور دوسرے پروگرام قرۃ العین علی رضوی کی ذمے داری تھے ۔

جشن تین دنوں سے پانچ دنوں تک پھیل گیا تھا اس لیے اس میں ’’حقوق انسانی‘‘ پر گفتگو ہوئی اور کتابوں کے اجرا ٔکی تقریب بھی ہوئی۔ بریل کتابیں زیر بحث آئیں اور بچوں کو مختصر فلمیں بھی دکھائی گئیں۔ایسا جشن ان متعدد لوگوں کی کارکردگی کے بغیر ممکن نہیں تھا جو پس پردہ ہوتے ہیں۔ وہ چند لوگ جن سے صبح و شام رابطہ رہا ان میں محبوب ظفر، اجمل سراج، طارق شاہد اور عمران اسحاق بالکل سامنے کے نام ہیں۔ یہ لوگ نہ ہوتے تو ہم سب کے لیے بہت سے مسائل ہوتے۔

اس جشن کے بعد کادن رہا جاتا ہے۔گہرے بادلوں سے بھرا ہوا اور تیز بارش سے بھیگا ہوا ایک یادگار دن۔ اس روز یہ بات بار بار یاد آئی کہ پڑھنا ایک جادو ہے اور کتابیں وہ جادوگر جو ہمیں گزرے ہوئے زمانوں میں لے جاتی ہیں۔ اس جادونگری کی داستان پھر کسی اور دن سہی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔