علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ

کلدیپ نئیر  جمعـء 8 مئ 2015

میں علی گڑھ یونیورسٹی (اے ایم یو) سے واپس لوٹا ہوں مایوس اور پریشان۔ میں اس بنا پر مایوس ہوا کیونکہ طلبہ ابھی تک قومی دھارے (مین اسٹریم) میں داخل ہوتے محسوس نہیں ہوئے اور پریشان اس لیے کیونکہ وہ اب بھی اپنی مذہبی شناخت کے حوالے سے ہی باتیں کر رہے ہیں۔

شاید اس سے مسلمانوں کو وہ خیالی تسکین حاصل ہوتی ہے کہ اگر اے ایم یو کو مسلم یونیورسٹی بنا دیا جائے تو اس سے ان کی اپنی علیحدہ شناخت قائم ہو جائے گی۔ مسلمانوں کی اردو سمیت ہر شعبے میں لڑائی ناکام ہو جانے کے بعد وہ بد دل ہو گئے ہیں۔ اس بات میں کوئی ہرج نہیں اگر مسلمان اپنی الگ شناخت قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن بھارت میں رہنے والے تمام افراد کی اصل شناخت بھارتی ہی ہے۔

علی گڑھ وہ جگہ ہے جہاں تحریک آزادی کے ممتاز لیڈر مولانا ابوالکلام آزاد کو تقسیم  سے قبل برا بھلا کہا گیا تھا۔ طالب علموں نے انھیں ٹرین کے ایک ڈبے میں گھیر لیا۔ وہ اپنے آبائی شہر دہلی سے کلکتہ جا رہے تھے۔ ان لڑکوں نے  بے لباس ہو کر  مولانا کی سخت توہین کی۔ مولانا کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے مسلم لیگ سے اختلاف کیا تھا اور قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ ان کی دلیل تھی کہ تقسیم کا مطالبہ ایک غلط مفروضے کی بنیاد پر کیا گیا ہے کہ ہندوئوں کی اکثریت سے نجات کا بہترین طریقہ ملک کی تقسیم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قیام کے بعد بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کی تعداد اور زیادہ کم ہو جائے گی اور ہندو یہ کہیں گے کہ چونکہ مسلمانوں نے اپنا حصہ لے لیا ہے لہٰذا وہ سب پاکستان چلے جائیں۔ اور ہوا بھی یہی۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو خود کناٹ سرکس گئے اور لوٹ مار کرنے والوں کو اپنی چھڑی سے مارا جو انھوں نے اٹھا رکھی تھی۔ اے ایم یو کے طلبہ نے غالباً اس بات کا احساس نہ کیا کہ مذہبی بنیادوں پر شناخت نے ملک کو تقسیم کرا دیا ہے۔ تقسیم کے بعد اس قسم کی سیاست کو دہرایا نہیں جا سکتا تھا اور جن مسلمانوں نے مزید تقسیم کی کوشش کی وہ نقصان اٹھائیں گے۔

ہندوئوں کی آبادی  80 فیصد ہے جو اس پرانی بات کو اب برداشت نہیں کریں گے۔مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے مجموعی طور پر اپنی زندگی کا ایک ورق الٹ لیا ہے اور اب وہ قومی دھارے کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔

انھیں فرقہ واریت کے راستے پر چلنے کے خطرات کا اندازہ ہو گیا ہے۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والا فساد بالآخر مسلمانوں اور پولیس کی لڑائی میں تبدیل ہو جاتا ہے جس کا تمام تر نقصان مسلمانوں کو ہی پہنچتا ہے۔ اور یہ قومی دھارا ہی ہے جو مسلمانوں کو کسی پیشرفت کی اجازت نہیں دے رہا۔ اس وقت ملک میں ’’ہندوتوا‘‘ کا غلبہ ہے جس سے مسلمان اور زیادہ ڈر رہے ہیں۔ میں نے دہلی کے جامعہ ملیہ انسٹی ٹیوشن میں بعض لوگوں سے بات کی ہے اور دیکھا ہے کہ وہ ہندو توا کے فروغ سے خاصے خوفزدہ نظر آتے ہیں کیونکہ ہندوتوا والوں کو دوسروں کے حقوق کا قطعاً کوئی احساس نہیں ہے۔

اس حوالے سے میں نے امریکی کانگریس کے ایک پینل کی رپورٹ دیکھی ہے جس میں بین الاقوامی مذہبی آزادی کے امریکی کمیشن نے لکھا ہے کہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں پر انتہائی شدید حملے ہوتے ہیں۔ ان کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور نریندر مودی کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد آر ایس ایس نے ’گھر واپسی‘ کے نام سے جو مہم شروع کر رکھی ہے اس میں اقلیتی لوگوں کو بالجبر ہندو بنایا جا رہا ہے۔

یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ بھارت نے سرکاری طور پر امریکا کی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے، حالانکہ یہ ایسی چیز تھی جس پر ملک میں بحث ہونی چاہیے تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم نے سالہا سال کی کوششوں کے بعد ہندوئوں اور مسلمانوں میں جو کسی قدر ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تھی وہ مودی کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد درہم برہم ہو گئی۔ اب ہندوئوں میں نمایاں طور پر برتری کا ایک احساس نظر آتا ہے جب کہ مسلمان خود کو اور زیادہ غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔

یہ درست ہے کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کا باہمی ربط خاصا کمزور ہو گیا ہے لیکن بالکل ٹوٹا نہیں ہے۔ شاید دونوں برادریوں نے زمینی حقائق کو قبول کر لیا ہے جس کے نتیجے میں ان کے مابین ایک ایسی افہام و تفہیم پیدا ہو گئی ہے کہ کسی بحران کے موقع پر وہ اس کا بڑی کامیابی سے مقابلہ کرتے ہیں۔ جب کہ بحران بار بار پیدا ہوتے رہتے ہیں۔آر ایس ایس نے اپنے طرز عمل میں تشدد کو شامل کر لیا ہے یا کم از کم تشدد کی دھمکی ضرور موجود ہے۔ آر ایس ایس وہ انتہا پسند تنظیم ہے جس نے مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد اپنا سر چھپا لیا تھا لیکن اب وہ پھر اپنا مکروہ چہرہ نمایاں کر رہی ہے اور انھوں نے گاندھی کے قاتل گوڈ سے کی یاد منانی شروع کر دی گئی ہے ۔

جس نے گاندھی کو گولی مار کر ہلاک کیا تھا۔ اس میں کانگریس کا بھی قصور ہے جس نے معاشرے کو سیکولر بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی البتہ اس کا نظریہ یقیناً سیکولر ہے اور جب فرقہ وارانہ قوتیں سر اٹھاتی ہیں تو کانگریس ان کے خلاف آواز ضرور بلند کرتی ہے۔ مودی کی حکومت میں فرقہ وارانہ عناصر کو انتظامیہ میں نمایاں جگہ دی جا رہی ہے۔ مسلمانوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ انھیں اکثریت کے ساتھ ہی گزارا کرنا ہے خواہ یہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو۔ ممکن ہے کہ دونوں اپنی اپنی دنیا میں رہ رہے ہوں۔

ان دونوں کے درمیان سماجی رابطے  بے حد کم ہو گئے ہیں لیکن دونوں کے درمیان مسلسل کشیدگی کی جو فضا تھی اس میں کسی حد تک کمی واقع ہو گئی ہے۔ حتٰی کہ پاکستان کے بارے میں جو مخاصمت ہماری روز مرہ کی زندگی کا حصہ تھی اس میں بھی قدرے کمی محسوس ہو رہی ہے، لیکن وہ ختم نہیں ہوئی۔ ایک عام آدمی نے پاکستانی عوام کے بارے میں کبھی خیرسگالی کے جذبے کا اظہار نہیں کیا لیکن اب حکومتوں کو بھی احساس ہو رہا ہے کہ اسی روش پر قائم رہنا کسی اعتبار سے بھی مفید نہیں۔

اب موقع ہے کہ دونوں فریق مذاکرات کی میز پر بیٹھیں۔ دونوں جانب کے پنجابی اپنے طرز عمل میں اتنے زیادہ فرقہ پرستی کے راستے پر ہیں کہ وہ صوفی ثقافت کی خصوصیات  پر توجہ دینے کے لیے تیار ہی نہیں۔ حکومت پاکستان کا یہ الزام کہ بھارت جموں کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے درست نہیں۔ وادی میں کشمیری پنڈتوں کا واپس آنا ایک ایسی پیشرفت ہو گی جس کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔ مسلمانوں کے ساتھ ان کی یک جہتی کشمیریات کا ایک ثبوت ہے جس میں دونوں برادریاں برابر کی شریک  ہیں۔ حتیٰ کہ علیحدگی پسند بھی انھیں کشمیری معاشرے کا لازمی جزو  سمجھتے ہیں سوائے بنیاد پرست سید علی شاہ گیلانی کے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیریات کی بنیاد سیکولر اخلاقیات پر ہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے طلباء کو کشمیر کی کتاب کا ایک صفحہ لے کر مذہبی بنیاد پر علیحدہ شناخت کی سوچ کو ترک کر دینا چاہیے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔