47ء کے بعد اب ایک نیا علی گڑھ مطلوب ہے

انتظار حسین  جمعـء 8 مئ 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

علی گڑھ کی سوچ 1947ء کے بعد۔ یہ موضوع اس نرالی کتاب کا ہے جو ڈاکٹر شائستہ خاں نے مرتب کی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے رسالہ ’تہذیب الاخلاق‘ کے تازہ شمارہ میں یعنی اپریل 2015ء کے شمارے میں اس کی تفصیل شایع ہوئی ہے جو اپنی جگہ پر دلچسپ ہے۔

ڈاکٹر شائستہ خاں علی گڑھ یونیورسٹی سے پیوست مولانا آزاد لائبریری سے وابستہ ہیں۔ انھیں ایک عجب  خیال سوجھا یہ کہ دانشوران علی گڑھ کو دعوت دی جائے کہ آپ ملحقہ سوالنامہ کو پیش نظر رکھ کر اپنی مختصر آپ بیتی لکھیں۔ سوال نامہ کی پابندی ضروری نہیں۔ بیشک اسے آپ نہ پڑھیں اور اپنا احوال رقم کریں۔ ہاں رقم کرنے کے بعد اس سوال نامہ پر نظر ڈال لیں۔ اس میں جو سوال آپ سے کچھ پوچھتا نظر آئے اس کے حساب سے اپنی آپ بیتی میں اضافہ کر لیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’ان کا ہدف 1947ء کے بعد کا عرصہ ہے جو تقریباً 65 برسوں پر محیط ہے۔

اس درمیان علی گڑھ کی فکر کیا تھی۔ اس مقصد کی حصول یابی کے لیے انھوں نے اس عہد کے نمایندہ دانشوران علی گڑھ سے ان کی آپ بیتی لکھوانے کا قصد کیا‘‘۔ اس مقصد کو واضح کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ ’’اس عہد کے واقعات‘ خاص افکار‘ اور آئیڈیاز کی تاریخ مرتب کر دی جائے تا کہ یہ مستند دستاویزی تحریریں علی گڑھ کی فکر کو آگے بڑھانے میں معاون بن سکیں۔ نیز مستقبل میں علی گڑھ پر کام کرنے والوں کے لیے راہیں ہموار ہو سکیں‘‘۔

جن دانشوروں کو یہ دعوت نامہ بھیجا گیا ان میں سے کتنوں نے اس کی تعمیل میں اپنے ذاتی حوالے سے بہت کچھ لکھا۔ یوں سمجھئے کہ ’علی گڑھ کل‘ آج‘ اور کل‘ کے موضوع کو پیش نظر رکھ کر یہ تحریریں لکھی گئیں۔ اردو کے پچیس اور انگریزی کے اٹھارہ سوانحی مضامین موصول ہوئے۔

یہ مضامین ایک جلد میں مرتب کیے گئے۔ یہ جلد اب شایع ہوئی ہے۔ ڈاکٹر شائستہ نے امید ظاہر کی ہے کہ دوسری جلد بھی جلدی شایع ہو گی۔

تہذیب الاخلاق کے مدیر نے رائے ظاہر کی ہے کہ ’’واقعی محسوس ہوتا ہے کہ ایک منفرد انداز کی تاریخ مرتب ہو گئی ہے‘‘۔

ہاں انھوں نے اس ذیل میں یہ وضاحت کی ہے کہ ’’علی گڑھ کی فکر میں ہم نے ان محترم اساتذہ اور ان اقامت گزینوں کو بھی شامل کیا ہے جو علی گڑھ کے زائیدہ نہ سہی‘ علی گڑھ کی ہوائوں اور فضائوں میں سانس لیتے جنھیں برسوں گزر گئے ہیں‘‘۔

’تہذیب الاخلاق‘ میں شایع ہونے والے اس تعارفی مضمون میں دو دانشوروں کی تحریروں سے اقتباس پیش کیے گئے ہیں۔ وہ دو دانشور ہیں ڈاکٹر مسعود حسین خاں اور ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ہاں یہ سوال نامہ مختصراً اس طرح ہے۔

پیدائش کب کہاں۔ خاندانی پس منظر۔ علی گڑھ سے رشتے۔ عزیز ترین اساتذہ۔ ابتدائی تعلیم‘ اعلیٰ تعلیم۔ اسکول کی یادیں۔ مادر درس گاہ علی گڑھ۔ ہوسٹل لائف۔ مادر درسگاہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں پورے ہندوستان کے لیے روشنی کا مینار ہونا چاہیے‘ اس کے لیے کیا کریں۔ علی گڑھ کی میٹھی میٹھی یادیں۔ بچوں کے شعبے میں اخلاقیات اور شریفانہ اقدار کو کورس کے طور پر جگہ دینا۔ مختلف فرقوں کے لوگوں کو ہوسٹل میں یکجا رکھنا ضروری۔ بین المذاہب تفاہم۔ مسلمانوں کی ترقی تعلیم کے ذریعہ۔ اسلام دل کا مذہب یا ظواہر کا محجوب الارث کا مسئلہ۔ اولڈ ایج ہوم مناسب یا نا مناسب۔ ریٹائرڈ پروفیسروں سے یونیورسٹی کام کیوں نہیں لیتی۔ اردو زبان کا مسئلہ۔ خاص کر یونیورسٹی کے ریٹائرڈ اور کام کر رہے اساتذہ کا رول کیا ہو۔

شادیوں میں بے محابا خرچ کا مسئلہ۔ تین طلاق۔ ایک طلاق کا مسئلہ۔ یونیورسٹی میں کیا تبدیلیاں لانی ضروری۔ لائبریری یونیورسٹی کا دھڑکتا دل ہے تو اس کے لیے کیا کریں۔ وائس چانسلر ماہر تعلیم ہو یا ماہر انتظامیہ یا دونوں۔ یونیورسٹی یونی فارم (ڈریس کوڈ)۔ یونیورسٹی میں سائیکل کلچر بڑھانا۔ علی گڑھ کی وہ اقدار جنھیں آپ زندہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ کے مطالعے میں آنے والے مصنف\ کتابیں۔ دیس کے دو بڑے فرقوں کو کیسے قریب لایا جائے۔

عورتوں سے جو سچے اسلامی حقوق چھن گئے وہ کیسے بحال ہوں۔ اس مادی دور میں خاندانوں کو بکھرنے سے کیسے بچایا جائے۔ اردو کو روز گار سے کیسے جوڑا جائے۔ اسلام کی کونسی بنیادی تعلیمات ہیں جنھیں بچوں تک پہنچانا ضروری ہے۔ آپ نے اپنے ارد گرد کے سماج کے لیے کیا کیا ہے۔ کیا کرنے کا ارادہ ہے۔

یہ سب ہوا ہمارا Contemporary Aligarh اور اس کے افکار۔ علی گڑھ کہاں ہے آج کیا سوچ رہا ہے۔ آنے والے کل کے کیا خواب ہیں۔ کل جو گزر گیا اس میں کیا زیادتیاں کیا کمیاں/ خرابیاں تھیں اور کیا خوبیاں‘ کیا برائیاں۔ کیا خوبصورتی تھی جو کھوتی جا رہی ہے جو علی گڑھ اور علی گڑھ تحریک کے نام سے پہچانی جاتی ہے اور جو علی گڑھ کے ہر فرزند کی دلی آرزو ہے کہ آج کے زمانے کا لحاظ رکھتے ہوئے اس شان کے ساتھ واپس آ جائے۔

دوسری طرف جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ہم نے لکھنے والوں پر نہ چھوڑ کر یہ بھار خود سنبھالا کہ سرسید کے بعد ان کے فرزندوں نے علی گڑھ کی فکر کو کس کس طرح سے ہندوستان کی اعلیٰ ترین لبرل روایتوں کا ایک منتخب خزینہ بنایا ہے۔

یہ کام یعنی گلدستہ بنانے کا خوشگوار فریضہ ہم نے خود انجام دیا ہے۔ سو اس کے لیے ہم نے 1947ء کے بعد کے علی گڑھ کی فکر کو یکجا ریکارڈ پر لانے کی سعی کی ہے‘ اس ہدف کے ساتھ کہ ہر ایک سوچنے والے کی نمایندگی ہو جائے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ یہ ہے کہ ہم نے ان میں سے ہر ایک کی روح میں جھانکنے کی کوشش کی ہے اور ہماری یہ سعی کہ ہم جو علی گڑھ کو ہندوستان بلکہ عالمی فکر کا ایک روشن نقطہ قرار دیتے ہیں اس کا جواز ہمارے پاس کیا ہے یا آپ کے خیال میں کچھ مبالغہ آرائی اور کچھ علی گڑھ کی محبت کو زیادہ دخل دے دیا ہے۔ ہم تو اپنی اس حقیر پیش کش کو سامنے لاتے ہوئے ایسا ہی سوچ رہے تھے کہ ہندوستان اور لبرل عالمی فکر کا ہر اول دستہ علی گڑھ ہے جو اکیسویں صدی کے نصف اول کے لیے ایک روشن مینارے کا کام دے گا‘‘۔

بہت خوب نقشہ ہے اور بہت بلند عزائم ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ 47ء کے بعد اب علی گڑھ ایک نئے زمانے میں سانس لے رہا ہے۔ اس حساب سے اب ایک نئے علی گڑھ کو جنم لینا چاہیے جو گزشتہ علی گڑھ سے پیوستہ بھی ہو اور نئے زمانے کے تقاضوں کے حساب سے اس سے مختلف بھی ہو۔ یوں سمجھئے کہ یہ ہے پرانے علی گڑھ میں رہتے ہوئے نئے علی گڑھ کا خواب۔ یا کہہ لیجیے کہ 47ء تک کے علی گڑھ کو سلام۔ اب ہم 47ء کے بعد کے سیاق و سباق میں نئے علی گڑھ کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں۔ سوالات زیادہ تر رسمی ہیں۔ بیچ بیچ میں ایسے سوال آئے ہیں جو نئے علی گڑھ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔