ٹیگور: تین دھارائوں کا سنگم

زاہدہ حنا  اتوار 10 مئ 2015
zahedahina@gmail.com

[email protected]

آج 10 مئی ہے۔ بہت دنوں سے 10 مئی 1857ء پر کچھ نہیں لکھا۔ پھر خیال آیا کہ 7 مئی کی تاریخ بھی ابھی گزری ہے۔ کیوں نہ اس دن پیدا ہونے والے رابندر ناتھ ٹیگور کو یاد کیا جائے وہ لال قلعہ پر ایسٹ انڈیا کے قبضے کے صرف 4 برس بعد پیدا ہوئے اور اس مشترک روایت کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے جس کے بارے میں انھوں نے لکھا تھا کہ میں ’’ہندو، مسلمان اور برطانوی تہذیب و ثقافت کی تین دھاراؤں کے سنگم کا ثمر ہوں۔‘‘

ٹیگور کے دادا، دوارکا ناتھ عربی اور فارسی پر مکمل دسترس کے لیے شہرت رکھتے تھے اور رابندر ناتھ ٹیگور کی پرورش ایک ایسے خاندان میں ہوئی جو سنسکرت اور قدیم ہندو کتابوں کا علم رکھتا تھا اور اس کے ساتھ ہی اسلامی روایات میں پیرا ہوا اور فارسی ادب کا رسیا تھا۔

ٹیگور ایک بہت بڑے شاعر تھے۔ ان کی نظموں اور گیتوں کی تعداد 5 ہزار کے قریب ہے۔ ان کی شاعری کے ہمیں 50 مجموعے ملتے ہیں۔ وہ بڑے کہانی کار تھے ان کی کہانیوں کے متعدد مجموعے ہیں۔ بنگلہ زبان اور ہندوستانی ادب ان کی کہانیوں کے بغیر مفلس و کم مایہ رہتا۔ ان کے شعری مجموعے ’گیتان جلی‘ کا انگریزی ترجمہ مغرب پہنچا تو ٹیگور چشم زدن میں شہرت کی بلندیوں پر جا پہنچے۔

انھیں 1912ء کا نوبیل ادبی انعام دیا گیا اور مغرب نے انھیں تصوف کی شہ نشین پر جا بٹھایا۔Yeats نے لکھا کہ ’’اس کے اشعار سے صوفیوں کی روشن آنکھیں جھانکتی ہیں‘‘ یہ درست ہے کہ ٹیگور کی بہت سی نظموں اور گیتوں میں خدا کا تصور جھلکتا ہے لیکن یہ وہ خدا نہیں جسے کسی مندر یا مسجد میں تلاش کیا جائے۔ ٹیگور نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’تُو کسی مندر کے تمام دروازے اور دریچے بند کر کے بھجن گانا اور سمرن (تسبیح) کے دانے پھرانا چھوڑ دے۔ اپنی آنکھیں کھول، تیرا خدا اس اندھیرے کونے میں نہیں۔ وہ وہاں ہے جہاں کسان پتھریلی زمین میں ہل چلا رہا ہے اور مزدور پتھر توڑ رہا ہے۔ وہ دھوپ اور برسات میں ان کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کے لبادے پر دھول جمی ہوئی ہے۔‘‘

ٹیگور کو ’’گیتان جلی‘‘ پر نوبیل انعام ملا تو یورپ کی تخلیقی اور ذہنی فضا یہ تھی کہ ڈی ایچ لارنس، تھامس مان، مارسل پروسٹ، جارج برنارڈ شا، میکسم گورکی، جیک لنڈن اور رابرٹ فاسٹ کے تخلیقی کارناموں کی دھوم تھی۔ ٹیگور جنھوں نے 15 برس کی عمر میں شیکسپیئر کے ڈرامے میکبتھ کا ترجمہ بنگالی میں کیا تھا۔ انھوں نے علم و ادب کے ہر چشمے سے اپنی پیاس بجھائی اور اسی لیے ہمیں ان کی نظموں، ان کی کہانیوں اور ان کے مضامین میں کسی بڑے دریا کے سے پھیلاؤ کا جلوہ نظر آتا ہے۔

مشہور روسی ادیب انا اخماتوف جس نے 60ء کی دہائی میں ٹیگور کا ترجمہ روسی میں کیا، وہ ٹیگور کی شاعری کے شاندار دھارے کو داد دیتے ہوئے اسے گنگا کے بے محابا بہاؤ سے تشبیہ دیتی ہے۔ ٹیگور کا ذہن مشرقی تہذیب کا پروردہ تھا جس میں مغربی ادب اور ثقافت کی آمیزش ہوئی۔ ان کی زندگی میں ہمیں ایک ہمہ جہت شخص کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

یہ شخص فلسفیانہ خیالات رقم کر رہا ہے۔ شاعری اور کہانیوں کے ڈھیر لگا رہا ہے، مصوری کر رہا ہے، اسٹیج پر اداکاری کے جوہر دکھا رہا ہے۔ راگ راگنیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس سے بھی کہیں بڑھ کر کسی جوگی کی طرح نگری نگری گھوم رہا ہے۔ انگلستان تو خیر گھر آنگن تھا۔ کبھی چین، کبھی جاپان، کبھی روس اور کبھی امریکا، اٹلی،… اٹلی میں مسولینی سے ملاقات، چند دنوں کے لیے وہ اس سے متاثر ہوتے ہیں لیکن پھر اس کا فاشزم پوری شدت سے ان کے سامنے ابھر آتا ہے اور وہ اٹلی سے راتوں رات نکل جاتے ہیں۔

اٹلی میں فاشزم کا جو دور دورہ تھا اس کے خلاف بولتے اور لکھتے ہیں اور مسولینی کے غیظ و غضب کا عالم دیدنی ہوتا ہے۔ ایران جاتے ہیں شہنشاہ سے ملاقات ہوتی ہے۔ حافظ و سعدی کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔ ان کے سفر کے احوال پڑھیئے، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی رمتا جوگی ہے جو نگر نگر گھوم رہا ہے۔ دنیا آج عالمی گاؤں یا گلوبل ولیج ہوئی ہے لیکن ٹیگور نے انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں عملاً یہ ثابت کیا کہ ان کے لیے سرحدیں اور براعظم کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور وہ ساری دنیا کو اپنا گھر سمجھتے تھے۔

اپنے مزاج میں وہ ہندوستان کے نہیں، دنیا کے شہری تھے۔ کسی سماج میں کوئی انقلاب عظیم برپا ہو اور ٹیگور اس سے لاتعلق رہیں، یہ ممکن نہ تھا۔ ہندوستان، روسی انقلاب کی خبروں سے گونج رہا تھا۔ اس کا اثر سب سے پہلے بنگال پر ہوا، شاید یہی وجہ تھی کہ انقلابِ روس کو جاننے اور سمجھنے کی ٹیگور کو بہت جستجو تھی۔ یہ اسی جستجو کا نتیجہ ہے کہ ٹیگور کی رخصت کے 70 برس بعد 2010ء میں روس نے ٹیگور کے ماسکو کے سفر کی 80 ویں سالگرہ کا جشن منایا۔ ٹیگور قبل انقلاب بھی روس میں ایک جانی پہچانی شخصیت تھے۔ 1917ء کے انقلاب کے فوراً بعد روسی زبان میں ٹیگور کی گیتان جلی کے کئی ترجمے ہوئے۔ جن میں ایک ترجمہ Ivan Bunin  نے کیا۔ جسے مستقبل میں نوبیل انعام ملنے والا تھا۔ یہ روایت جاری رہی، 50ء اور 60ء کی دہائی کے دوران بورس پاستر ناک نے ٹیگور کو روسی قالب میں ڈھالا اور 60ء کی دہائی میں یہ کام انا اخما توف نے کیا۔

عورتیں جن ناانصافیوں کا شکار تھیں، انھیں ٹیگور نے بنگال کے دیہاتوں میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ’’پوسٹ ماسٹر‘ گھاٹ کی کتھا‘ نفع اور نقصان‘ ایک بیوی کا خط‘‘ جیسی کہانیاں لکھیں۔ ’’پتھر بھوکے ہیں‘ لکھی جس میں شاہوں کی شہوت کی آگ میں موم کی طرح پگھل جانے والیوں کا قصہ ہے۔ جس کا ایک نیم دیوانہ کردار ایک ویران قلعے میں ’’چلے جاؤ۔ یہاں سے چلے جاؤ۔ باطل باطل… سب باطل ہے‘‘ کا نعرہ مارتا پھرتا ہے۔ ٹیگور نے اپنی کہانیوں اور ناولوں میں کیسے خوبصورت مسلمان کردار لکھے۔ اس کی سب سے اعلیٰ مثال ’’کابلی والا‘‘ کا رحمت ہے۔ روٹی کی زنجیر سے بندھا ہوا، بیٹی کی محبت میں تڑپتا ہوا، سچ تو یہ ہے کہ ’’کابلی والا‘‘ ایسی پرُدرد کہانیاں کم کم لکھی گئیں ہیں۔ جنھوں نے اس پر بننے والی فلم دیکھی ہے ان کے لیے آنسو ضبط کرنے مشکل ہوتے ہیں۔

شانتی نکیتن ٹیگور کا ایک ایسا خواب تھا جو آج بھی زندہ ہے اور جہاں سے ہزاروں نوجوان لڑکیاں اور لڑکے ہر سال پڑھ کر نکلتے ہیں۔ ٹیگور کے ذہن میں علم و دانش کو حاصل کرنے اور فنونِ لطیفہ کو پھیلانے کا ایک شاندار تصور تھا۔ شانتی نکیتن کا موجودہ تعلیمی نظام شاید آج ٹیگور کو مطمئن نہ کر سکے لیکن زمانہ بدلتا ہے اور اس کے ساتھ ہی خوابوں کے خدو خال بھی بدلتے ہیں۔

شانتی نکیتن کی ایک طالبہ اندرا پریہ درشنی بھی تھیں جو بعد میں ہندوستان کی وزیر اعظم ہوئیں اور جنھوں نے ہندستانی جمہوریہ کے ماتھے پر ایمرجنسی کا داغ لگایا۔ ٹیگور زندہ ہوتے تو شاید ان کی حرکت قلب بند ہو جاتی کہ وہ تعلیمی ادارہ جس پر انھوں نے نوبیل انعام سے ملنے والی رقم، ساری جمع پونجی اور اپنی زندگی لگا دی تھی اس سے ایسے شاگرد بھی نکل سکتے ہیں۔ لیکن اسی شانتی نکیتن نے ستیہ جیت رے جیسے عالمی شہرت یافتہ فلم ساز کو بھی پروان چڑھایا جس نے ٹیگور کی ایک نہیں کئی کہانیوں پر شاہکار فلمیں بنائیں۔

فرد کی آزادی، تحریر و تقریر کی آزادی اور امن دوستی ان کا ایمان تھا۔ اس بارے میں انھوں نے کبھی کسی ملک، کسی ادارے، کسی فرد سے مفاہمت نہیں کی۔ برٹش راج نے 1915ء میں انھیں ’’سر‘‘ کا خطاب دیا۔1919ء میں جلیانوالہ باغ کا سانحہ ہوا تو ٹیگو نے وہ انعام واپس کر دیا۔ یہ کام وہی کر سکتے تھے۔ جب کہ بعض نامور شخصیات نے ایسا نہیں کیا۔ وہ جہاں گئے اپنے چاہنے والوں کو ناراض کر آئے۔ جاپان، انگلستان، روس، اٹلی، امریکا ۔ ہر جگہ ان کی بے پناہ پذیرائی ہوئی لیکن اس پذیرائی کے عوض وہ ان میں سے کسی بھی سماج میں موجود ناانصافیوں اور مظالم کے بارے میں خاموش نہیں رہے اور دو ٹوک بات کی۔ انھوں نے ہندوستان میں بھی اپنے ہزاروں چاہنے والوں کو ناراض کیا۔

وہ ایک امید پرست اور رجائی انسان تھے ۔ انھوں نے لکھا ہے کہ اگر میں کسی کمرے میں بند کر دیا جاؤں اور ایک دروازے سے باہر نہ جا سکوں تو دوسرا دروازہ ڈھونڈوں گا اور وہ بھی نہ ملا تو میں دیوار توڑ کر اپنے لیے راستہ بناؤں گا۔ قدیم روایات اور ماضی پرستی ان کا راستہ نہ روک سکی۔ وہ اپنے لیے پرانی دیواریں گراتے اور نئے راستے بناتے چلے گئے۔ وہ جانتے تھے کہ کوئی بھی مہذب سماج اپنے مظلوموں کی حق تلفی کر کے انھیں شرف انسانیت سے محروم کر کے ترقی کرنا تو دور کی بات ہے بہت دنوں زندہ بھی نہیں رہ سکتا۔ اس روشنی میں ہم اگر اپنے آپ کو دیکھیں تو خوف آتا ہے۔

چند دن پہلے ان کی 154 ویں سالگرہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں منائی گئی ہے۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ ان کا ایک گیت ہندوستان اور بنگلہ دیش کا قومی ترانہ ہے اور اسی کی دھن سری لنکا کے قومی ترانے میں بھی سنائی دیتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔