حکمت عملی کی ناکامی

اکرام سہگل  پير 11 مئ 2015

دو مشتبہ دہشت گردوں کو سر پر کپڑا ڈال کر میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ طاہر عرف لمبا اور ماما جنید کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کا تعلق مبینہ طور پر متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ ہے۔ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ ان کی تربیت بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ (ریسرچ اینڈ انیلے سز ونگ) نے کی۔

واضح رہے ’را‘ پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں میں کافی عرصے سے ملوث ہے اور اب یہ کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی یہ کوئی سنسنی خیز خبر ہے اور نہ ہی اس کا تعلق کسی ایک سیاسی پارٹی سے جوڑنا درست طرز عمل ہے حالانکہ میڈیا میں بعض اہم لوگ (اور بعض کارپوریٹ حلقوں میں بھی) اس گندے کھیل میں ملوث بتائے جاتے ہیں جو ’’آزادی اظہار‘‘ کی آڑ لینے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ وہ احتساب سے محفوظ رہ سکیں۔ تاہم یہ بات ضروری ہے کہ ملک کی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کے مابین جو باریک سی لائن ہے اس کو بہر صورت مدنظر رکھنا چاہیے۔یہ بات یقیناً غیر معمولی تھی کہ ایک درمیانے درجے کا پولیس افسر ایم کیو ایم جیسی سیاسی جماعت پر الزام عائد کر رہا تھا۔ ایس ایس پی ملیر نے تو یہاں تک مطالبہ کر دیا کہ ایم کیو ایم پر بھی پابندی عائد کر دی جائے۔ پھرراؤ انوار کو فوری طور پر ملیر سے ٹرانسفر کر دیا گیا۔ اس تبدیلی کا حکم وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے دیا جنہوں نے مذکورہ پولیس افسر کی پریس کانفرنس کا بڑی سنجیدگی سے نوٹس لیا تھا۔

راؤ انوار کو پولیس کے حلقوں اور ان کے باہر بھی ’’پولیس مقابلوں کا ماہر‘‘ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آصف علی زرداری بھی اسے پسند کرتے ہیں۔ عدلیہ کے سامنے حال ہی میں ایک پٹیشن دائر کی گئی ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے گزشتہ چھ ماہ کے دوران پچاس سے زیادہ افراد کو پولیس مقابلوں میں مارا ہے۔ ادھر راؤ انوار کے قافلے پر حملہ کرنے والے پانچ حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا جن کی شناخت نہیں ہو سکی۔ یہ واقعہ اس کی سنسنی خیز کی پریس کانفرنس کے دو روز بعد پیش آیا جب کہ راؤ معجزانہ طور پر محفوظ رہا۔

ایم کیو ایم کے سربراہ نے جواب میں راؤ انوار‘ حکومت سندھ یا پیپلز پارٹی کو ہدف بنانے کے بجائے فوج اور ایجنسیوں کو نشانے پر لے لیا۔ اس کا جواب بڑی سرعت سے دیاگیا۔ میجر جنرل عاصم باجوہ نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ’’ٹیلی ویژن پر الطاف حسین کی تقریر میں فوج اور اس کی قیادت کے بارے میں جو ریمارکس دیے گئے ہیں وہ قابل مذمت اور ناقابل برداشت ہیں۔ جن پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔ فوری طور پر جو سیاسی ردعمل سامنے آیا‘وہ ایم کیو ایم کے حق میں نہیںتھا۔ بلوچستان اسمبلی نے الطاف حسین کے خلاف قرار داد منظور کی ۔ پھر خیبرپختونخوا کی اسمبلی میں بھی قرار دادِ مذمت منظور کی گئی ۔باور کیا جاتا ہے کہ پنجاب اسمبلی بھی اسی نوعیت کی قرار داد منظور کی جا سکتی ہے تاہم سندھ اسمبلی نے‘ جس میں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے‘ ایسا نہیں کیا۔ اس امر کا احساس کرتے ہوئے کہ ان سے کسی حد تک تجاوز ہو گیا ہے‘ الطاف حسین نے معذرت کا اظہار کر دیا۔ گو کہ کچھ لوگوں کو ان کی معذرت قابل قبول نہیں ہو گی تاہم یہ درست سمت میں ایک اقدام ضرور ہے۔

پاکستان میں تمام سیاسی پارٹیاں عسکری ونگ رکھتی ہیں۔ بعض پارٹیوں پر تو عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام بھی عائد ہوتا ہے ۔ ایم کیو ایم‘ پیپلز پارٹی اور اے این پی پر بھی شبہ کیا جاتا ہے کہ انھوں نے کراچی میں اپنی پارٹیوں کے عسکری ونگز بنا رکھے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ماڈل ٹاؤن لاہور میں گلو بٹ کا ظہور عجیب بات نہیں تھی؟ اور کیا اس قسم کی حرکات جرم کے زمرے میں نہیں آتیں۔ اس قسم کے مجرم جیل سے باہر رہنے کے لیے اپنے سرپرستوں پر انحصار کرتے ہیں اور بالفرض وہ گرفتار ہو بھی جائیں تو جیل میں ان کو فائیو اسٹار ہوٹل کی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں۔ لیکن اگر یہی لوگ وعدہ معاف گواہ بن جائیں تو پھر اس صورت میں وہ اپنے سرپرستوں کے سر پر لٹکتی ہوئی تلوار بن جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ شہادتوں کا ایک پہاڑ بھی اگر عدلیہ کو پیش کیا جائے تو ضروری نہیں کہ وہ اس سے متاثر ہوں بالخصوص قانون شہادت مجریہ 1984 کی نظرثانی کے بعد جس قسم کی صورت حال پیدا ہوئی ہے کہ زیادہ تر گواہ اپنی اور اپنے گھر والوں کی جان کے خوف سے عدالت میں پیش ہونے سے کتراتے ہیں۔

راؤ انوار نے جس قسم کی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اس کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اسے کس طرف سے ایسا کرنے کے لیے اکسایا گیا ہے نیز اس کا مقصد کیا تھا؟ کیا اس کی سزا صرف یہ تھی کہ اس کا بدین میں تبادلہ کر دیا گیا۔ جہاں ذوالفقار مرزا والا معاملہ چل رہا ہے۔ذوالفقار مرزا پارٹی کے اندرونی حلقوں سے مکمل آگاہی رکھتے ہیں اور وہ آصف زرداری اور ان کے سیاسی مشیروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ فی الوقت ذوالفقار مرزا بدین میں اپنے فارم ہاؤس سے نکل کر کراچی آ گئے ہیں۔

ذوالفقار مرزا کی اہلیہ فہمیدہ مرزا نے جو کہ قومی اسمبلی کی سابقہ اسپیکر رہ چکی ہیں اپنے شوہر کی زندگی کے بارے میں خطرات کا اظہار کیا ہے۔

پیپلز پارٹی پیپلز امن کمیٹی (پی اے سی) سے پیچھا نہیں چھڑا سکتی جس کے سربراہ سندھ کے سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا ہوا کرتے تھے لیکن سوال یہ ہے کہ مرزا صاحب اس حد تک کیوں گئے؟بہر حال ادھر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے جمعرات کو کور کمانڈرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملک میں تمام دہشت گردوں‘ مجرموں اور ان کے سیاسی سہولت کاروں کے خلاف کارروائی پر زور دیا ہے۔ انھوں نے پاکستان میں ’را‘ کی سرگرمی کا بھی سختی سے نوٹس لیا اور اعلان کیا کہ وہ دہشت گردی کی اس جنگ کو اس کے منطقی انجام تک پہنچا کر رہیں گے۔ یہ باتیں بہت کچھ ہونے کا پتہ دے رہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔