نسخہ کیمیا اور عیان راچہ ببان

سعد اللہ جان برق  جمعرات 21 مئ 2015
barq@email.com

[email protected]

وہ ایک محترمہ کے ’’چرچے‘‘ جو آج کل اخبارات کے ’’پرچے‘‘ بڑے بڑے ’’خرچے‘‘ کر کے کر رہے ہیں اس کے بارے میں نہایت ہی ایک چشم کشا دل کشا اور گرہ کشا قسم کی خبر آئی ہے اور اگر یہ خبر سچ ہے تو اس سے ہمارا یہ ایمان ایک مرتبہ پھر تازہ ہو گیا ہے کہ ’’اچھے لوگ‘‘ جہاں بھی جاتے ہیں ’’سب اچھا‘‘ کر دیتے ہیں یہ اور بات ہے کہ کچھ لوگوں کو ’’کچا‘‘ کر دیتے ہیں اور زیادہ تر کو ’’سچا‘‘ بنا دیتے ہیں یعنی جہاں جاتے ہیں داستاں چھوڑ آتے ہیں اور شاعر کو کہنا پڑتا ہے کہ

کسی کے آتے ہی ساقی کے ایسے ہوش اڑے
شراب سیخ پہ ڈالی کباب شیشے میں

خبر یہ ہے کہ آں محترمہ کے ورود باسعود کے ساتھ وہاں کا عملہ نہ صرف ایک دم مستعد ہو جاتا ہے بلکہ اپنے لباس صاف صفائی اور نک سک کا بھی بہت خیال رکھنے لگتا ہے، استری پالش اور شیو کرنے میں باقاعدگی آجاتی ہے بلکہ ہر کوئی اپنے مقررہ اوقات سے کچھ زیادہ ڈیوٹی بھی دینے لگتا ہے، جہاں پہلے بات بات پر بیماری کے بہانے، لواحقین کے جنازے اور بچوں کے مسائل کی وجہ سے چھٹیوں کا تناسب ڈیوٹیوں سے زیادہ ہوتا ہے وہاں اچانک سب کے سارے مسائل حیرت انگیز طور پر حل ہو جاتے ہیں، بیوی بچے مکمل طور پر صحت یاب ہو جاتے ہیں گھر محلے اور سسرال کے لوگ ایک دم ’’مرنا ‘‘ چھوڑ کر ’’جینا‘‘ شروع کر دیتے ہیں اور آتے جاتے وقت ٹریفک کا نظام تک سدھر جاتا ہے.

آں محترمہ کے کیس سے ہمیں کوئی لینا دینا نہیں بلکہ ہمیں منی لانڈرنگ کا بھی کچھ شُدبُد نہیں ہے بلکہ اکثر جب کسی جگہ منی لانڈرنگ کی اصطلاح پڑھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ آخر منی کو لانڈرنگ کی ضرورت کیوں پڑ جاتی ہے کیوں کہ بقول چشم گل چشم عرف قہر خداوندی روپیہ بجائے خود ہاتھ کا ’’میل‘‘ ہے اور میل جتنا میلا ہوتا ہے اتنا ہی کچیلا یعنی اچھا ہوتا ہے۔

ہمارے ایک رشتہ دار کے لیے لڑکیاں دیکھی جارہی تھیں کیوں کہ تازہ تازہ اچانک مال دار ہونے کی وجہ سے اس کا معیار کچھ زیادہ ہی اونچا ہو گیا تھا یعنی لڑکی کی عمر سولہ برس سے زیادہ نہ ہو اور کم از کم پی ایچ ڈی تو ہو، یہاں وہاں سے سن سنا کر علاقے بھر میں لڑکیوں کی تلاش چل رہی تھی جب کوئی پتہ ملتا تو پھر اس کی رشتہ دار خواتین جا کر آخری معائنہ اور رشتے کا ڈول ڈالتیں، ایک دن ایسی ہی ایک لڑکی کو دیکھنے کے بعد خواتین واپس آئیں اور اپنی اپنی رپورٹ دینے لگیں نک سک اور حسن و جوانی تو کوئی نقص نہیں تھا لیکن ایک جہاں دیدہ چاچی نے خدشہ ظاہر کیا کہ لڑکی کچھ ’’بدمعاش‘‘ سی دکھائی دیتی ہے اس پر وہ امیدوار بولا … کوئی بات نہیں چاچی لڑکی تو جتنی زیادہ بدمعاش ہوتی ہے اچھی ہوتی ہے۔

اور یہی نظریہ ہمارا ’’منی‘‘ کے بارے میں بھی ہے کہ جتنی میلی کچیلی اور حرام کی ہو اتنی ہی زیادہ بابرکت ثابت ہوتی ہے، مطلب یہ کہ ہمیں کیس کا تو کوئی سر پیر سمجھ میں نہیں آرہا ہے لیکن یہ بات خوب اچھی طرح ’’ذہین نشین‘‘ ہوتی جارہی ہے کہ اچھے لوگ جہاں بھی جاتے ہیں اچھائیاں ہی پھیلاتے ہیں حوالات اور متعلقہ مقامات کے اہل کاروں کے اتنے اچھے اثرات سے ہمیں نہایت دور دور کی سوجھ رہی ہے کہ کیوں نہ ایسے مقامات پر ہمیشہ ایسے کرشمے رکھے جائیں کہ ان کے ’’مثبت اثرات‘‘ سے محکموں میں مثبت تبدیلیاں بلکہ انقلابات رونما ہوں۔

ہمارے محلے میں ایک ادھیڑ سپاہی رہتا تھا جو ڈیوٹی سے ہمیشہ نالاں اور پریشان رہتا تھا کبھی میڈیکل لے کر ریٹائرڈ ہونے کی کوشش کرتا کبھی افسروں سے لڑتا کہ طیش میں آکر اسے ڈس مس ہی کر دیں وردی ہمیشہ ایسی پہنتا تھا جیسے ابھی کسی گائے کے منہ سے کھینچی ہو یا کسی ننگ منہ والے گھڑے سے نکالی ہو، بس پنشن کے انتظار میںکھینچ رہا تھا کہ اتنے میں اچانک اس کے اندر ہم نے انقلابی تبدیلیاں رونما ہوتی دیکھیں، سوچا شاید ہیڈ کانسٹیبل بن جانے پر خوش ہو رہا ہو لیکن بات کچھ اور نکلی، اس کا تبادلہ ایک ایسے دفتر میں ہو گیا تھا جس کے سامنے زنانہ پولیس فورس کا ہیڈ کوارٹر تھا، یہ کم بخت صنف نازک چیز ہی ایسی ہے کہ پھٹیچر سے پھٹیچر مرغ بھی مرغی کو دیکھ کر اپنا ایک پر نیچے پنچوں تک دراز کر کے شان دکھانے لگتا ہے، چڑے جیسا نوالہ بھر نوجوان بھی چڑیا کو دیکھ کر خود کو مٹی بھر پھلا لیتا ہے، سارے رونگھٹے اٹین شن کر دیتا ہے اور مونچھوں کی عدم موجودگی میں چونچ پر تاؤ دینے لگتا ہے ۔

اور اب یہ تو تازہ ترین چرچے سننے میں آرہے ہیں اس سے ایک مرتبہ پھر اس بین الاقوامی نفسیاتی بلکہ جنیاتی حقیقت کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ کیا اب بھی ضرورت رہ جاتی ہے کہ سرکاری محکموں کو یہ مشورہ دیا جائے کہ انھیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے کارکردگی بہتر بنانے کے لیے اس سے زیادہ آسان اور سستا نسخہ شاید ہی کوئی اور ہاتھ لگے

یہ ’’نسخہ بلند‘‘ ملا جس کو مل گیا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔