سیاسی خلا اور بایاں بازو

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 21 مئ 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پاکستان میں بائیں بازوکی ایک روشن تاریخ ہے، قیام پاکستان کے بعد سے بھٹو دورکے آغاز تک بایاں بازو ہر فرنٹ پر فعال تھا۔بھٹوصاحب نے جب پیپلز پارٹی تشکیل دی اور مزدور کسان راج سمیت کچھ ترقی پسندانہ نعرے اور پروگرام متعارف کرائے تو بائیں بازوکے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد اور معراج محمد خان جیسے بائیں بازو کے معروف رہنما اپنی پارٹی سمیت پی پی میں شامل ہوگئے۔

یوں بایاں بازو عملاً ٹوٹ پھوٹ اور انتشارکا شکار ہوگیا۔اس حوالے سے المیہ یہ رہا کہ جوکارکن پیپلز پارٹی کے دلکش نعروں اور بھٹوکی طلسماتی شخصیت سے متاثر ہوکر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے انھیں جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ پیپلز پارٹی عوام کی نہیں فیوڈلزکی پارٹی ہے، اس انکشاف کے بعد جو نظریاتی کارکن مثبت ارادوں کے ساتھ پیپلز پارٹی میں گئے تھے، انھوں نے پیپلز پارٹی چھوڑ دی اور جھوٹی امیدوں کے مارے یا کھاؤ پیو پروگرام رکھنے والے پیپلز پارٹی میں باقی رہ گئے۔ معراج محمد خان جیسے باشعور لیڈر بھی پیپلز پارٹی سے باہر آگئے۔

بائیں بازو کی بدقسمتی یہ رہی کہ وہ انقلابی رومانیت کا شکار ہوکر اس حقیقت کو فراموش کرگیا کہ فیوڈل اور قبائلی کلچر کے حامل ملک میں منزل کی طرف قدم بہ قدم چلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس حوالے سے سیاسی پیش رفت کے لیے نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام سے چھٹکارا پانا ضروری تھا اگرچہ اس سلسلے میں بایاں بازو سرگرم رہا لیکن کسی ٹھوس منصوبہ بندی اور موثر حکمت عملی کے فقدان کی وجہ سے بایاں بازو کوئی قابل ذکر پیش رفت نہ کرسکا۔ اصل غلطی یہ رہی کہ روایتی انقلاب کی دھن میں مگن بائیں بازو کے کارکن یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ کوئی بھی سیاسی اور سماجی تبدیلی ملک کے معروضی حالات کے پس منظر ہی میں لائی جاسکتی ہے۔

اس نظریاتی خلفشار اور مرکزی قیادت کے فقدان کی وجہ سے بایاں بازو انتشار کا شکار ہوکر مختلف دھڑوں میں بٹ گیا۔ اس پر ظلم یہ ہوا کہ بعض کامریڈوں اور ان کی جماعتوں نے بوجوہ این جی اوز کی چادر اوڑھ لی جواز یہ پیش کیا گیا کہ وسائل کی کمی نے انھیں یہ سہارا لینے پر مجبور کیا۔ وجہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ رہی ہو این جی او زدہ جماعتیں ایک محدود دائرے میں بند ہوکر رہ گئیں۔ یہ درست ہے کہ بڑی تبدیلیوں کے لیے کام کرنے والوں کو چھوٹے لوگوں سے بھی کام لینا پڑتا ہے لیکن اس حوالے سے بڑی تبدیلیاں لانے والے خود ’’چھوٹے‘‘ بن جائیں تو بڑی تبدیلیاں تو ممکن نہیں رہتیں البتہ بڑے لوگ ’’چھوٹے‘‘ بن کر رہ جاتے ہیں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ بائیں بازوکو انقلاب کی آواز بازگشت کے پیچھے چلنا ہے یا آگے بڑھنے کے لیے پارلیمانی سیاست کرنی ہے؟ سیاست خواہ انقلابی ہو یا پارلیمانی عوامی حمایت کی محتاج ہوتی ہے۔ بائیں بازوکی غیر فعالیت کی وجہ سے پوری پارلیمانی سیاست فراڈ اور لٹیرا شاہی کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ چونکہ لٹیرا شاہی کا واحد ایجنڈا لوٹ مار ہوتا ہے لہٰذا اسے عوام کی حمایت حاصل نہیں ہوتی وہ طاقت دولت اور دھاندلیوں کے ذریعے اقتدار پر تو قابض ہوجاتی ہے لیکن عوام کو دینے کے لیے اس کی جھولی میں کچھ نہیں رہتا، اس لیے وہ عوام سے دور ہوجاتی ہے۔

میدان سیاست میں نظریاتی طاقتوں کی غیر موجودگی کی وجہ لٹیری مافیا عوام کو طرح طرح سے ورغلانے کی کوشش تو کرتی ہے لیکن عوام اس کے فریب میں نہیں آتے اور مخلص اور عوامی سیاست کرنے والوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور اس تلاش کے دوران بعض وقت سیاسی مداریوں کے قریب بھی چلے جاتے ہیں لیکن ان کی اصلیت کا پتہ چلتے ہی ان سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں جس کی زندہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

عوام اب اس قدر باشعور ہوگئے ہیں کہ وہ اقتدار کی کرسی کے بھوکوں اور معاشی سیاسی اور معاشرتی تبدیلیاں لانے والوں میں تمیزکرسکتے ہیں آج ملکی سیاست کے منظر نامے کو دیکھیں تو یہاں ایک خلا نظر آتا ہے کیونکہ اس میدان میں دودھ پینے والے مجنوں تو ہر طرف دکھائی دیتے ہیں خون دینے والے مجنوں کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ یہ ایک اتفاق نہیں بلکہ تاریخی حقیقت ہے کہ خون دینے والوں کا تعلق ہمیشہ بائیں بازو سے رہا ہے۔ اب بھی کئی دھڑوں میں منقسم ہونے کے باوجود بائیں بازو کے کارکن اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ اگر انھیں ایک نظریاتی لڑی میں پرو دیا جائے تو یہ ایک بہت بڑی طاقت بن سکتے ہیں۔

اس حوالے سے المیہ یہ رہا ہے کہ بعض پراسرار طاقتوں نے بائیں بازو میں مفروضات شکوک و شبہات کا ایک ایسا کلچر پیدا کردیا ہے کہ مخلص اور ایماندار کارکن بھی شکوک و شبہات کا شکار رہتے ہیں۔ اس کلچر کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس کے علاوہ دوسری بڑی کمزوری یہ ہے کہ بائیں بازو کی طاقتوں یا گروپوں کا انضمام ہو یا اتحاد اس کی بنیاد سیاسی عملی پروگراموں پر نہیں رکھی جاتی بلکہ بے معنی اصولوں ضابطوں اور مفروضات پر رکھی جاتی ہے جس کا منطقی نتیجہ ٹوٹ پھوٹ جمود اور انتشار کی شکل ہی میں نکلتا ہے۔

وڈیرہ شاہی سیاست میں تمام فیصلوں کا اختیار چند افراد یا ایک خاندان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے وہی پالیسی میکر وہی تھنکر وہی منصوبہ بندی کرنے والے وہی سیاسی حکمت عملی طے کرنے والے ہوتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ درست رہنمائی سے دانستہ محروم رہتے ہیں اور عوام کی حمایت کھو دیتے ہیں۔ ہم ملک کی موجودہ انارکی پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس انارکی کا سب سے بڑا سبب فیصلوں کا چند ہاتھوں میں ارتکاز ہے۔

چونکہ فیصلے عوامی مفاد کے بجائے ذاتی اور جماعتی مفادات میں کیے جا رہے ہیں، لہٰذا ایک طرف عوامی حمایت کا فقدان ہے تو دوسری طرف عوامی بے چینی اور اضطراب میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے ماحول میں عوام کی حمایت حاصل کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا بشرطیکہ عوام کی ضرورت اور خواہش کے مطابق آواز اٹھائی جائے۔ اس حوالے سے ہمارے سامنے دھرنا سیاست کے ڈرامے موجود ہیں۔ حکومت اور نظام سے نفرت کی حد تک بیزار عوام نے جب چہرے نہیں نظام بدلو انقلاب اور نئے پاکستان کی نئی باتیں سنیں تو آنکھ بند کرکے ان مہاشوں کے پیچھے چل پڑے لیکن بات نہ نظام بدلنے کی تھی نہ چہرے بدلنے کی بلکہ بات صرف وزیر اعظم ہاؤس تک پہنچنے کی تھی لہٰذا یہ ڈراما جلد فلاپ ہوگیا۔

بلاشبہ آج سیاست کے میدان میں ایک خلا ہے عوام شدید بے چینی و اضطراب کے ساتھ ساتھ مایوسی کے بھی شکار ہیں وہ ایک مخلص ایماندار اور اس کرپٹ نظام سے چھٹکارا دلانے والی پارٹی اور قیادت کے منتظر ہیں۔ بایاں بازو اپنی تمام تر کمزوریوں برائیوں کے باوجود آج بھی رائج الوقت عوام دشمن سیاست اور عوام دشمن قیادت سے ہزار درجے بہتر ہے۔

وسائل کارکن کا رونا بے عملوں کا شیوہ ہوتا ہے جو لوگ خلوص ایمانداری کے ساتھ اس ظالمانہ استحصالی نظام کو بدلنے کے خواہش مند ہوتے ہیں عوام انھیں سر آنکھوں پر بٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہمارے محترم دوست اپنی اپنی ڈگڈگی اپنے اپنے راگ کے حصار سے باہر نکلیں ایک دوسرے پر اعتماد کریں ذاتی اور گروہی سیاست سے باہر آئیں اور صرف ایک نکتے یعنی 68 سالہ Status Quo کو توڑنے پر متحد ہوکر میدان مین نکلیں نہ عوامی حمایت کی شکایت رہے گی نہ وسائل کی نہ کارکنوں کی کمی۔ اگر ضرورت ہوگی تو نظریاتی رہنمائی کی جامع منصوبہ بندی کی اور موثر حکمت عملی کی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔