کوئی اور نہیں صرف ’ہم‘ بُرے ہیں!

ابن اظہر  جمعـء 22 مئ 2015
تنہائی، نظرانداز کردینا بہت بڑی سزا ہے اور کوئی بھی سیاستدان، صحافی، مولوی، لبرل، افسر، اِس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ اُسے نظرانداز کردیا جائے۔فوٹو:فائل

تنہائی، نظرانداز کردینا بہت بڑی سزا ہے اور کوئی بھی سیاستدان، صحافی، مولوی، لبرل، افسر، اِس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ اُسے نظرانداز کردیا جائے۔فوٹو:فائل

ایک عذاب ہے کہ ٹلتا ہی نہیں، ایک آزمائش ہے کہ ڈھلتی نہیں، سر کو دھوپ سے  بچاتے ہیں تو راہ کے کانٹے پاؤں میں چبھنے لگتے ہیں۔

نہ جان محفوظ ہے نہ عزت، کب کوئی بھولی بھٹکی گولی آئے اور اچھے بھلے کوایک گمنام  لاش میں بدل دے۔ کوئی پتا نہیں، اخبار ہو یا  ٹی وی، ہر طرف ایک ہنگامہ برپا ہے، کسی کو مہنگائی کی فکر ہے اور کوئی آنے والے بجٹ کی راہ تک رہا ہے کے شاید کچھ بات بن جائے، قتل و غارت گری کی ایسی ایسی دل خراش خبریں ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے۔

پشاور میں سو سے زیادہ بچوں کو یوں قتل کردیا جیسے انسانوں کے نہیں موزی جانوروں کے بچے تھے، نہتی سبین محمود ایسے سفاکی سے قتل کردی گئی اور 46 اسماعیلی یوں مسل دیے گئے کہ  شائد مچھر تھے۔ لیکن ہمیں کیا غرض، کہ بے حسی کی یہ حالت ہے کے اب 5 یا 10 بندوں کے مرنے کی خبر تو ہمارے نذدیک خبر ہے ہی نہیں۔

کوئی 100، 50 گھر اُجڑیں تو کہیں جاکر پیشانی شریف پر بل نمودار ہوتے ہیں، حرام خوری کی ایسی لت پڑی ہے کے اب گدھوں کو بھی نہیں چھوڑا، پہلے ان مظلوموں کی کھال اتارو اور پھر ٹکڑے ٹکڑے کرکے بازاروں میں گوشت بیچ دو۔ پیٹ کا جہنم جو بھرنا ہے حرام حلال سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اخلاقی گراوٹ کا یہ عالم ہےکہ خود تو جاہل مطلق تھے ہی اب اپنی جہالت جعلی ڈگریوں کی صورت میں باہر بھی بیچنا شروع کردی۔

اب بھلا انسان کس کس کو روئے، کوئی، دین کے  ٹھیکداروں کا یہ حال ہے کہ کسی ایک جگہ اکھٹے  ہوکر نماز بھی نہیں پڑھ سکتے اور ایک دوسرے کے خلاف دشنام طرازی کرنی ہو تو   بولتے بولتے منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہوجاتی ہے، دوسری طرف لبرل فاشسٹوں کا یہ حال ہے کے کسی کے مرنے پر فاتحہ کا خیال آئے نہ آئے موم بتیاں جلا کر اپنی کور چشمی کا اندیھرا  ضرور دور کرتے ہیں۔ سیاست دانوں کو تو رہنے ہی دیجئے کے سفید کاغذ کو کالا کرنے سے کیا فائدہ۔۔۔ اب ذرا ان نام نہاد میڈیا والوں کا حال دیکھیے جو ریٹنگ کی دوڑ میں اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ جیسے آسمان کو ہی چیر ڈالیں گے۔ بچپن میں ایک مداری ڈگڈگی لے کر گلی میں آیا کرتا تھا اور بندر کو ناچتا دیکھ کر انجانی سی خوشی ہوتی تھی۔ اب اسی سے ملتی جلتی کیفیت ٹی وی پر ٹاک شو دیکھ کر پیدا ہوتی ہے۔

لیکن اِس سب میں قصور نہ تو حکومت کا ہے اور نہ سیاست دانوں کا۔ غلطی نہ میڈیا کی ہے اور نہ بیورو کریسی کی۔ یہ بیڑا غرق اس عوام کا کیا ہوا ہے۔ بجلی چوری، ملاوٹ، رشوت، سفارش، جھوٹ، دھوکہ، گندگی میں لتھڑے ہوئے لوگوں کے ساتھ یہی سب ہونا چاہیے جو ہورہا ہے۔ اپنے گھر کے سامنے کوڑا پھنکنے والا اگر مہنگائی کا رونا روتا ہے تو ٹھیک ہے دھاریں مار مار کر رونے دو، اگر بجلی چوری کرنے والے کو  پٹرول نہیں ملتا تو بہت اچھا ہے، اگر دفتر میں  رشوت دینے والے کو پولیس والے کسی اور وجہ سے تنگ کرتے ہیں تو اور بھی اچھا ہے۔ دنیا مکافات عمل ہے، اِس ہاتھ دو اور اُس ہاتھ لو۔ مگر مسئلہ یہ ہے کے ان دو نمبر مسخروں اور چوروں کی تعداد بہت کم ہے اور باقی لوگ ان کے ہاتھوں ذہنی طور پر یرغمال ہیں۔

لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اِن مسائل کا حل کیا ہے؟ بڑا سیدھا اور آسان حل ہے، اپنے آپ کو ٹھیک کیجئے۔ اگر کوئی مولوی نفرت کا پرچار کرتا ہے تو مسجد تبدیل کرلیجئے، بلکہ اپنے ساتھ دو چار اور کو بھی ملا لیجئے، اگر کوئی  ہمسایہ گندگی  پھیلاتا ہے تو اس کا بائیکاٹ کر دیجئے اور اگر کوئی رشوت خور آپ کا دوست نکل آئے تو اُس سے کنارہ کشی اختیار کر لیجئے۔ تنہائی، نظرانداز کردینا بہت بڑی سزا ہے اور کوئی بھی سیاستدان، صحافی، مولوی، لبرل، افسر، جو اپنے تیئں بہت بڑا ہو وہ اِس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ اُسے نظرانداز کردیا جائے۔

جہالت، ظلم، غرور، جرم، دولت،رتبہ، اپنے ساتھ انا اور خود پسندگی کے بہت بڑے بڑے بت  لاتی ہے اور ان بتوں کو توجہ کا نزرانہ نہ ملے تو یہ اپنے بھاری بھرکم وجود کے ساتھ زمین پر آن گرتے ہیں۔

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

 

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔