چند منٹ کا انٹرویو اہلیت ثابت کرسکتا ہے؟

عاطف اشرف  اتوار 24 مئ 2015
انٹرویو ضرور دیں لیکن پریشانی میں نہیں بلکہ مکمل اعتماد کے ساتھ، کیونکہ اِس طرح آپ کو نوکری ملے نہ ملے قیمتی تجربہ ضرور ملے گا۔ فوٹو: فائل

انٹرویو ضرور دیں لیکن پریشانی میں نہیں بلکہ مکمل اعتماد کے ساتھ، کیونکہ اِس طرح آپ کو نوکری ملے نہ ملے قیمتی تجربہ ضرور ملے گا۔ فوٹو: فائل

نوکری لینی ہو تو انٹرویو، داخلہ لینا ہو تو انٹرویو، سکالرشپ لینی ہو تو انٹرویو، ویزا لینا ہو تو انٹرویو اور تو اور پاسپورٹ بنوانے کے لئے بھی نام نہاد انٹرویو ہی لیا جاتا ہے۔

انٹرویو کا اردو ترجمہ اخباری ملاقات ہے۔ عام فہم میں اسے کسی بھی اُمیدوار کی اہلیت اور قابلیت جانچنے کے لئے پہلی ملاقات بھی کہہ سکتے ہیں۔ انٹرویو لینے والا دس پندرہ منٹ کی گفتگو سے امیدوار کی قابلیت کا اندازہ لگا لیتا ہے۔ سلیکشن ہونا یا نہ ہونا یا تو انٹرویو لینے والے کی رائے کی  بنیاد پر ہوتا ہے، یا پھر پوچھے گئے انہی سوالات پر جو امیدوار کے لئے ڈو یا ڈائی جیسی اہمیت رکھتے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کیا کوئی بھی انٹرویو لینے والا دس پندرہ منٹ میں سوالات کی مشین چلا کر کسی امیدوار کی قابلیت نچوڑ سکتا ہے؟ میرا خیال تو یہ ہے کہ چند لمحوں کے سوالات  قابلیت کی جانچ کے پیمانے پر پورے نہیں اترسکتے۔ کیوں؟ اس کی وضاحت میں آگے جا کر کروں گا۔۔۔

انٹرویو کے دوران ریجیکٹ ہونے والے اُمیدوار کو تو نوکری دینے سے انکار کردیا جاتا ہے لیکن سلیکٹ ہونے والے امیدواروں پر بھی کئی سوالات اُٹھ جاتے ہیں۔ جس طرح الیکشن ہارنے والا دھاندلی کا شور مچاتا ہے بالکل اسی طرح اکثر ریجیکٹ ہونے والا امیدوار بھی میرٹ کے قتل اور انٹرویو لینے والے کی ذاتی رائے کو مورد الزام ٹھہرا کر اگلی نوکری اور اگلے انٹرویو کی تیاری کرتا ہے۔ یعنی اگر انٹرویو دینے والے سے غلطی سے کوئی غلطی ہوگئی تو سمجھیں اُس کے 15، 10 سال کے تجربے پر پانی پھر گیا کیونکہ اُس کی اِس غلطی سے آپ کی قابلیت کی مکمل نمائندگی ہرگز نہیں ہوسکتی۔ تو خرابی کس کی؟ صرف اور صرف نظام کی۔ الیکشن میں بھی اور سلیکشن میں بھی لیکن سسٹم ٹھیک کیسے ہو؟ اس کا حل بھی میں آگے جاکر تجویز کروں گا۔۔

ہمارے ہاں انٹرویو دینا کسی مہارت سے کم نہیں سمجھا جاتا ہے اور اکثر انٹرویو بھی انگریزی میں ہوتے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ جس کی انگریزی اچھی ہے اور بولنے میں تیز ہے اُسے نوکری بھی آسانی سے ملے گی، صرف یہی نہیں بلکہ اسکالر شپ بھی اور یونیورسٹیوں میں داخلہ بھی۔ اِس لئے انٹرویو کی باقاعدہ تیاری کی جاتی ہے۔ اِس کو یوں سمجھ لیں کہ اپنی اصلی شخصیت پر نقلی خول چڑھا کر انٹرویو کے بدلے زندگی کی کسی نئی سمت کا تعین کیا جاتا ہے۔ انٹرویو کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ امیدوار کی جانچ کی جائے گی۔

چھوٹی سی نشست میں یہ سمجھنا کہ اُس کی گفتگو کا انداز کیسا ہے؟ علم کتنا ہے؟ کام کو کس حد تک جانتا ہے؟ اور جذبے کا لیول کیا ہے؟ کسی حد تک نہیں بلکہ بہت حد تک ناممکن نظر آتا ہے۔

ویسے انٹرنیٹ پر جائیں تو ہزاروں ویب سائٹس ایسی ملیں گی جو آپ کو انٹرویو کی مہارت حاصل کرنے کے ایک سے بڑھ کر ایک سبق پڑھائیں گی۔ ویڈیوز ہوں گی جس میں انٹرویو میں بیٹھنے کا اسٹائل، بات کا انداز، آئی کونٹیکٹ اور ہر وہ چیز بتائی گی جو انٹرویو کے لئے ضروری ہے، وہ بھی کسی خاص شعبے کی نیچر اور ورکنگ ماحول سے بالائے طاق ہوکر جس میں آپ انٹرویو دینے جارہے ہیں کیونکہ یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ آپ کی زندگی کا دارومدار انٹرویو کی نشست کے چند منٹ میں ہے۔ یہ چند منٹ آپ کی زندگی کے اگلے سنگ میل کی سمت کا تعین کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ انٹرویو کا دباو اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اکثر اُمیدوار انٹرویو سے پہلے ہی نروس ہوجاتے ہیں۔ انٹرویو والے کمرے میں جانے سے پہلے ہی دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے اور پینل کے سامنے بیٹھ کر سب رٹا رٹایا کافور ہوجاتا ہے۔ سوال مشرق سے آتا ہے اور جواب مغرب کو جاتا ہے۔

انسان میں دو طرح کی شخصیات ہوتی ہے، ایک انٹروورڈ اور ایک ایکسٹروورڈ۔ انٹروورڈ لوگ وہ ہیں جو تنہائی پسند ہیں، زیادہ بولنا پسند نہیں کرتے لیکن اپنے کام کے بڑے ماہر اور سنجیدہ ہوتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں انھیں باتوں سے زیادہ کام آتا ہے۔ لیکن، انٹرویو چونکہ ہے ہی باتوں کا کھیل تو عام طور پر ایسے لوگ انٹرویو کلچر کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور قابلیت ہونے کے باوجود منتخب نہیں ہوپاتے۔ اس کے برعکس ایکسٹروورڈ قسم کے لوگ وہ ہیں جو باتیں کرنے کے ماہر ہیں، محفلوں میں جانا پسند کرتے ہیں لیکن کام سے زیادہ باتوں میں شیر ہوتے ہیں۔ بعض ایکسٹرورڈ لوگ انٹروودڑ قسم کے لوگوں سے کم تر ہوتے ہیں لیکن صرف اچھا بولنے کی وجہ سے ان کا بول بالا ہوجاتا ہے۔ اچھا بولنے کی ادا سے انٹرویو پینل متاثر ہوجاتا ہے اور قابل امیدوار ڈیپریس۔

انٹرویو قابلیت کے پیمانے پر کیوں پورا نہیں اترتا؟ اس کی مثال ایک ایکسپریٹ رائے سے ہی لیتے ہیں۔۔۔ پچھلے دنوں میں Tony Robbins  کی کتاب، Awaken the Giant Within کے کچھ اقتسابات پڑھ رہا تھا۔ مصنف کہتا ہے کہ ریجیکٹ ہونے پر آپ کبھی بھی یہ نہ کہیں کہ آپ ریجیکٹ ہوگئے یا آپ میرٹ پر پورے نہیں اترے، آپ ہمیشہ یہ کہیں کہ مجھے misunderstood کیا گیا۔ یعنی جو انٹرویو پینل انٹرویو لے رہا تھا آپ صرف اس کی نظر اور معیار پر پورا نہیں اترے اور عین ممکن ہے کہ پینل کی رائے غلط ہو لیکن ہمارے ہاں تو انٹرویو پینل کی رائے ہی حتمی سمجھی جاتی ہے اور یہ تاثر بھی عام ہے کہ سلیکشن پہلے سے ہوتی ہے اور انٹرویو صرف ایک فارمیلٹی کے طور پرلیا جاتا ہے۔

یہ بات یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ قابلیت کی جانچ چند منٹوں میں ہرگزنہیں ہوسکتی۔ انٹرویو لینے سے امیدوار کے ظاہری شخصیت تو پتہ چل جاتی ہے لیکن اس کی قابلیت کا اس وقت ہی پتہ چلے گا جب اس سے کام لیا جائے گا۔ اگرچہ انٹرویو حتمی نہیں ہوسکتا اسی لئے قابلیت کی کہانی بھی انٹرویو کے کمرے میں ختم نہیں ہونی چاہیے بلکہ جانچ کا عمل یہاں سے شروع ہونا چاہیے۔ تحریری امتحان علم کی جانچ کرتا ہے اور انٹرویو ذہن کی ۔۔ لیکن عمل کی جانچ اُس وقت تک نہ ہوگی جب تک امیدوار سے مطلوبہ نوعیت کا کام نہ کروایا جائے۔

کیا ہی اچھا ہو کہ انٹرویو کے ساتھ ساتھ ایک دو دن کے لئے اُمیدواروں کو متعلقہ دفتر میں لے جا کر ان کو کوئی اسائنمنٹ دیا جائے، اور پھر تحریری امتحان، انٹرویو اور اسائنمنٹ کی کارکردگی ملا کر سلیکشن اور میرٹ کا ایک اصول بنایا جائے۔ اس طریقے سے انٹرویو میں اپنی بہتر نمایندگی نہ کرنے والے امیدوار عملی نمایندگی سے خود کو ثابت کرسکتے ہیں۔

سلیکشن میں ناکام ہونے والے امیدواروں کے تحفظات کی وجہ انٹرویو کا یہ نظام کیسا ہے اور بہتری کیسے لائی جا سکتی ہے؟ یہ بھی ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ ہمارے ہاں انٹرویو پینل کا فیصلہ حرف آخر ہوتا ہے اور اُمیدوار سلیکشن کے فیصلے کو چیلنج نہیں کرسکتا۔ اگر انٹرویو بورڈ کا فیصلہ ہی حتمی رکھنا ہے تو ٹھیک ہے، مگر اِس طریقے میں بھی جدت لاسکتے ہیں اور لانی بھی چاہیے۔

ترقی یافتہ ممالک میں انٹرویوز کا ہر سوال اور جواب  کی ویڈیو ریکارڈنگ ہوتی ہے اور اگر کوئی امیدوار بورڈ کے فیصلے کو چیلنج کردے تو یہ ریکارڈنگ اسی شعبے کے دو یا تین ایکسپرٹس کو بھیجی جاتی ہے اور انہیں یہ ہرگز نہیں بتایا جاتا ہے کہ اصل فیصلے میں امیدوار کامیاب ہوا ہے یا ناکام۔ یہاں ایکسپرٹس تھرڈ امپائر کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی اپنی رائے دیتے ہیں اور جمہوریت کے اصول کے تحت اکثریت رائے کی روشنی میں حتمی فیصلہ ہوتا ہے۔ اگر ہمارے ہاں ایسا ہوجائے تو سفارشی امیدوار تو ویسے ہی فارغ ہوجائیں اور سلیکشن میں میرٹ کا ایکشن نظر آئے۔۔

اور آخری بات یہ کہ نوجوان نسلوں کو انٹرویو کی تیاری کی ایکٹنگ کرنے کے ماحول سے نکل کر پہلے خود کو پہچاننا ہوگا اور بہتر یہی ہے کہ انٹرویو پینل کے سامنے اُمیدوار ناٹک کرنے کے بجائے حقیقی تصویر پیش کرے۔ کیونکہ دنیا میں ہر انسان اپنی ذات میں منفرد ہے۔ اگر آپ ایک شعبے میں ناکام ہیں تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ آپ ایک ناکام انسان ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ شعبہ آپ کے لئے نہ ہو اور آپ کی منزل اِس سے کہیں اوپر ہو۔۔۔ انٹرویو ضرور دیں لیکن پریشانی میں نہیں بلکہ مکمل اعتماد کے ساتھ، انٹرویو لینے والے افراد سے گھل مل جائیں کیونکہ ایسی ملاقات آپ کو نوکری دے نہ دے، قیمتی تجربہ ضرور دے گی۔۔۔

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

 

 

عاطف اشرف

عاطف اشرف

عاطف اشرف میڈیا سٹڈیز میںPhDاسکالرہیں جوپچھلے 10 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ مصنف ایکسپریس نیوز میں بطور پڑوڈیوسر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔تحریر،تحقیق اور ویڈیوپروڈکشن میں گہری دلچسپی رکھنے والے یہ طالب علم میڈِیا کے موضوع پر جرمنی میں چھپنے والی ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ عاطف سے ٹویٹر پر#atifashraf7 جبکہ [email protected] پر آن لائن رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔