نجکاری اور سرمایہ دارانہ نظام

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 23 مئ 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

سرمایہ دارانہ نظام ایلیٹ کے تابعدار معاشی ماہرین کا متعارف کردہ ایک ایسا نظام ہے، جو اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور انھیں کھلی لوٹ مار کے مواقعے فراہم کرتا ہے ۔ان مواقعے میں ایک موقعہ نجکاری کا ہے، سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی ماہرین کا فلسفہ ہے کہ کوئی صنعت کوئی ادارہ پبلک سیکٹر میں منافع بخش ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ پبلک سیکٹر کی انتظامیہ کو اداروں کی ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ انھیں صرف کمائی سے دلچسپی ہوتی ہے یہ رجحان مختلف شکلوں میں تمام کارکنوں تک جاتا ہے ۔

جس میں کام چوری ایک عام رجحان ہے جس کی وجہ سے پیداوار اورکارکردگی متاثر ہوتی ہے اور پبلک سیکٹر کے ادارے دیوالیہ ہوجاتے ہیں۔یہ الزام غلط نہیں پبلک سیکٹر کی انتظامیہ کرپٹ ہوتی ہے اور کارکنوں کو کام سے دلچسپی نہیں ہوتی ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دونوں برائیاں آتی کہاں سے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کرپشن ایک تو خود سرمایہ دارانہ نظام کی رگوں میں خون بن کر دوڑتی ہے دوسرے اس نظام میں حکمران طبقات کی بھاری لوٹ مار کا اثر نچلی سطح تک آتا ہے اور پبلک سیکٹر سر سے پاؤں تک بدعنوانیوں کا مجموعہ بن کر رہ جاتا ہے۔

اس حوالے سے دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کی انتظامیہ اور کارکن کیا فرشتے ہوتے ہیں کہ نہ وہ کرپٹ ہوتے ہیں نہ ان کے کارکن کام چور ہوتے ہیں؟ اصل قصہ یہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کو کرپشن کی ضرورت اس لیے نہیں ہوتی کہ انھیں حلال طریقے سے منافع خوری کے اس قدر بڑے مواقعے حاصل ہوتے ہیں کہ حرام خوری کی انھیں ضرورت ہی نہیں رہتی۔ مثلاً پرائیویٹ سیکٹر میں ایک چیز 10 روپے میں تیار ہوتی ہے تو تیار کنندہ کا جائز حق ہوتا ہے کہ وہ 10 روپے کی چیز کو مارکیٹ میں 20 روپے میں فروخت کرے یا 100 روپے میں۔

منافع خواہ اس کی شرح کتنی ہی کیوں نہ ہو جائز اور حلال ہوتا ہے جب جائز اور حلال کے نام پر لامحدود حرام خوری کی اجازت ہو تو پھر ناجائز طریقے اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہوتی ہے۔ رہی کارکنوں کی کام چوری سو وہ اس لیے ہر پبلک سیکٹر میں پائی جاتی ہے کہ پبلک سیکٹرکی انتظامیہ کا وقت لوٹ مار میں بیت جاتا ہے انھیں کارکنوں کے کام سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، اس لیے پبلک سیکٹر کی کارکردگی ناقص ہوتی ہے یہ سلسلہ ہر جگہ نہیں چلتا جن اداروں میں انتظامیہ ذمے دار ہوتی ہے ان اداروں میں کارکنوں کی کارکردگی بھی بہتر ہوتی ہے پیداوار بھی تسلی بخش ہوتی ہے۔

پبلک سیکٹر میں انتظامیہ کی نااہلی اور بے خوف کرپشن کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ پبلک سیکٹر کے اداروں کے سربراہ عموماً حکمران طبقات کے بھائی بند، چاچے ، مامے ہوتے ہیں جنھیں لوٹ مار کی مکمل آزادی ہوتی ہے اور پیداوار سے انھیں کوئی دلچسپی اس لیے نہیں ہوتی کہ کم پیداوار اور ناقص کارکردگی ہی وہ بہانہ یا جواز ہوتا ہے جسے بنیاد بناکر حکمران طبقہ صنعتوں اور اداروں کی نجکاری کرتا ہے۔

یہ وبا پسماندہ ملکوں میں شدت کے ساتھ اس لیے موجود ہوتی ہے کہ پسماندہ ملکوں میں ابھی تک سرمایہ دارانہ جمہوریت بھی پوری طرح موجود نہیں ان ملکوں میں جمہوریت کے نام پر اشرافیہ کی بادشاہتیں مستحکم اور مضبوط ہیں چونکہ بادشاہتیں خاندانوں پر مشتمل ہوتی ہیں لہٰذا ہماری جمہوریت بھی خاندانی بادشاہتوں کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے اور بادشاہتوں میں امرا کا جو طبقہ ہوتا ہے وہ طبقہ اعلیٰ سطحی بیوروکریسی اور ایم این ایز اور ایم پی ایز کی شکل میں پسماندہ ملکوں میں موجود ہے۔

پاکستان کا شمار خطے کے پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں دیگر پسماندہ ملکوں کے مقابلے میں جمہوریت بہت زیادہ پسماندہ ہے اور حکمران طبقات کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کی جائے۔ لوٹ مار بلکہ بڑے پیمانے کی لوٹ مار کا ایک سہل طریقہ صنعتوں اور قومی اداروں کی نجکاری ہے۔

ہماری سابقہ حکومتیں بھی کمائی کے اس ذریعے کو بھرپور طریقے سے استعمال کرتی رہیں لیکن چونکہ موجودہ حکومت  نجکاری کے ’’قومی فوائد‘‘ سے پوری طرح واقف ہے اور نظریاتی طور پر بھی منڈی کی معیشت کی دلدادہ ہے سو اس دور میں نجکاری کا سلسلہ اس حد تک دراز ہو رہا ہے کہ قومی اہمیت کے اہم اداروں کی بھی یا تو نجکاری کردی گئی ہے یا کرنے کی تیاری جاری ہے۔ ریلوے جیسے اہم پبلک سیکٹر کے ادارے کی آہستہ آہستہ نجکاری شروع کردی گئی ہے اور نجکاری کی ایک لمبی لسٹ حکومت کی ٹیبل پر پڑی ہوئی ہے۔

ایک اور بڑے اہم قومی ادارہ  کی نجکاری کا عمل جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما اور سینیٹر سعید غنی نے سینیٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اربوں روپے مالیت کے اس قیمتی ادارے کو صرف 25 کروڑ میں بیچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کرپشن کا یہ سلسلہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے اور کئی ادارے نجکاری کے پروسس میں ہیں فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پبلک سیکٹر کا ایک ادارہ پرائیویٹ سیکٹر میں جاتے ہی منافع بخش کیوں ہوجاتا ہے؟ اس کا ایک جواب تو ہم نے ابتدا میں دے دیا ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں منافعے کی کوئی حد نہیں ہوتی اور مالکان کارکنوں کے سروں پر نوکری سے علیحدگی کی تلوار لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ مزدوروں سے 18-16گھنٹے تک کام لیا جاتا ہے اور بے روزگاری کے خوف سے مزدور انقلاب فرانس کے دور کے لامحدود اوقات کار پر کام کرنے کے لیے مجبور ہوتا ہے۔ اس حوالے سے دھاندلی کی انتہا یہ ہے کہ بہت سارے ایسے اداروں کو بھی اونے پونے داموں پر بیچا جا رہا ہے جو منافع بخش ہیں اور منافعے میں چل رہے ہیں۔

نجکاری کا پہلا وار مزدوروں پر ہوتا ہے اور مزدوروں اور ملازمین کو ’’فاضل‘‘ کہہ کر ملازمتوں سے نکال دیا جاتا ہے اور اب تک لاکھوں مزدور نجکاری کی بھینٹ چڑھ کر بے روزگاروں کی فوج میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ چونکہ اس نظام میں لیبر ڈپارٹمنٹ عموماً مالکان کے ایجنٹ کے طور پر خدمات انجام دیتا ہے اس لیے مزدوروں کے حقوق کا تحفظ ممکن نہیں رہتا۔ مزدور سڑکوں پر مارے مارے روزگار کی تلاش میں پھرتے ہیں۔ اس حوالے سے ملک کو ایک خطرناک صورتحال کا سامنا یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسند طاقتیں جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں، ٹارگٹ کلنگ، خودکش حملوں، بھتے کی وصولی، اغوا جیسے سنگین جرائم میں ان نجکاری کے ذریعے بے کار ہونے والے مجبور بے روزگاروں کو بھاری معاوضے پر اپنے گندے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

نجکاری اپنی سرشت میں کرپشن کی علامت ہے اور اس پرفریب اور احمقانہ تاویل کو کوئی ذی شعور نہیں مان سکتا کہ نجکاری سے ملک و قوم کو فائدہ ہوتا ہے۔ جیسے کہ ہم نے وضاحت کی ہے نجکاری کے گندے کھیل کا مقصد ایلیٹ کی لوٹ مار کے علاوہ کچھ نہیں۔ جو ادارے بیچے جاتے ہیں ان کے خریدار حکمران اشرافیہ کے خاندان کے لوگ ہوتے ہیں یا کاروباری دوست احباب۔ اس پورے بھان متی کے کھیل کا واحد مقصد اربوں روپوں کی لوٹ مار اور اپنوں کو نوازنے کے علاوہ کچھ نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔