اقتصادی راہداری

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 23 مئ 2015
tauceeph@gmail.com

[email protected]

عوامی نیشنل پارٹی کے تحت ہونے والی آل پارٹیزکانفرنس میں چین، پاکستان اقتصادی راہداری پر عدم اعتماد کا اظہارکیا گیا ۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے اقرارکیا کہ اس منصوبے کے راستوں کی تبدیلی پر انھیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اے این پی کی یہ کانفرنس اور ڈاکٹر عبدالمالک کا بیان وزیر اعظم نواز شریف کی اسلام آباد میں طلب کردہ کانفرنس کے بعد ذرایع ابلاغ کی زینت بنا۔ میاں نواز شریف سے پہلے سابق صدر آصف زرداری نے سیاستدانوں کو جمع کرکے اس اہم منصوبے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی تھی ۔

اب وفاقی حکومت کے اتحادی جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ایک انٹرویو میں اس اہم منصوبے میں متنازعہ صورتحال پید ا کرنے کی ذمے داری وفاقی حکومت پر عائد کی ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ چین اور پاکستان کا یہ مشترکہ اقتصادی منصوبہ  صوبوں کے درمیان کسی ایک نئے تضاد کا باعث نہ بنے۔ سینیٹر حاصل بزنجوکا کہنا ہے کہ چین ، پاکستان اقتصادی راہداری کے بارے میں کوئی ابہام نہیں، بڑی سڑکوں ، توانائی کے منصوبوں، آئی ٹی پارکس اور انڈسٹریل پارکس پر مشتمل ہے ۔

یہ تین مختلف سڑکیں کاشغر سے شروع ہونگی یوں کے پی کے، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے مختلف شہروں سے ہوتی ہوئی خضدارمیں ایک دوسرے سے منسلک ہونگی اور پھرایک مرکزی سڑک گوادر پر اختتام پذیر ہوگی ، ان تینوں سڑکوں اور توانائی کے پلانٹس کے قیام پر چین اور پاکستان میں اتفاق رائے ہوچکا ہے۔ یہ منصوبے کے پی کے، پنجاب اور سندھ میں قائم ہونگے مگر آئی ٹی پارکس اور انڈسٹریل پارکس کے بارے میں بات چیت حتمی نتائج تک نہیں پہنچ سکی یوں کسی جماعت کو اس منصوبے پر سیاست کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ اقتصادی راہداری چین اور پاکستان کے اقتصادی تعاون کا اب تک کا سب سے بڑا منصوبہ ہے ۔ یہ اقتصادی راہداری چین کے صوبے کاشغر سے شروع ہوگی اور بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر پر اختتام پذیر ہوگی۔ یہ منصوبہ 2030میں مکمل ہوگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے چین کو گوادر کی بندرگاہ کے ذریعے مشرق وسطیٰ ، یورپ امریکا تک اپنا سامان پہنچانے کا قریب ترین راستہ میسر آئے گا ، یہ راستہ ہر موسم میں کھلا رہے گا ، یوں اس راستے کے اطراف صنعتی علاقے قائم ہونگے اس طرح ترقی کا عمل سفر تیز ہوگا ۔

گزشتہ سال کے آخری مہینوں تک یہ تاثر عام تھا کہ کاشغرسے شروع ہونے والا راستہ ڈیرہ اسماعیل خان ژوب سے ہوتا ہوا گوادر پر اختتام پذیر ہوگا۔ ذرایع ابلاغ پر یہ خبریں زینت بنی کہ اس راستے میں تبدیلی کردی گئی ہے اور اب یہ پنجاب کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا سندھ میں رتو ڈیرو شاہراہ سے گوادر پر پہنچے گا ، اقتصادی امور کے وزیر احسن اقبال نے ان خبروں کی مہم کی تردید کی پھر سوشل میڈیا پر مختلف نقشے ظاہر ہوئے ہر نقشے میں ایک مختلف راستہ ظاہر کیا گیا، پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی اور وفاقی وزیر کے درمیان ایک ٹی وی مکالمے میں صورتحال زیادہ خراب ہوئی ۔

ایک دوسرے پر جھوٹ بولنے  اور دشمن ملک کے ایجنٹ کے الزامات لگے پھر یہ وضاحت کی گئی کہ اقتصادی را ہداری کا ایک راستہ نہیں ہوگا بلکہ کئی راستے ہونگے ، ایک راستہ کے پی کے اور بلوچستان سے ہوگا، دو سرا راستہ کے پی کے  پنجاب ، سندھ اوربلوچستان کے مختلف شہروں سے گزرے گامگر وزیر اعظم نوازشریف نے اسلام آباد میں قومی رہنمائوں کی جو آل پارٹیز کانفرنس طلب کی تھی اس دن کراچی کے صفورا چوک پر اسماعیلی برادری کی بس پرفائرنگ  کے  واقعے کے بعد مختصر ہوگئی ۔

پختونخواہ کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ چین کے ماہرین سالوں سے اس منصوبے پر سوچ بچارکر رہے تھے اور ان ماہرین سے رابطے میں تھے ان ماہرین کا یہ خیال تھا کہ  اقتصادی راہداری سے کے پی کے کے بیشتر علاقوں کو مستفیض ہونا چاہیے ، ان کا کہنا ہے کہ ان کی ہدایت پر کے پی کے،کے سابق وزیر اعلیٰ اکرم درانی نے اے این پی کے سابق وزیر اعلیٰ حیدر ہوتی کے ساتھ مل کر اسلام آباد میں ایک مشترکہ کانفرنس منعقد کرکے پختون رہنمائوں کی تشویش کا اظہار کیا تھا ۔ مولانا فضل الرحمن کی اس رائے کی اے این پی ، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی ، جماعت اسلامی مکمل حمایت کررہی ہیں۔

ایک اور اہم مسئلہ اس راہ داری میں قائم ہونے والے صنعتی منصوبوں کے پیرامیٹر کا ہے ۔ دستیاب دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیشتر توانائی کے منصوبے ہیں ان منصوبوں میںکوئلے سے بجلی پید اکرنے کے منصوبوں پر مشتمل ہیں مگر NEPRAکی ویب سائٹ پر ان منصوبوں سے حاصل ہونے والی بجلی کا ٹیرف موجود نہیں ہے ۔ توانائی کے بارے میں حکومت کی نئی پالیسی واضح خلاف ورزی ہے پھر یہ کہا جاتا ہے بیشتر منصوبے نجی شعبے میں قائم ہونگے مگر یہ بات واضح نہیں ہے کہ ان منصوبوں میں غیر ملکی قرضوںکا حساب لینا ہے، یہ منصوبے 2030ء تک مکمل ہوں گے ، پنجاب کے علاوہ کے پی کے اور سندھ میںتوانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے ہائیڈرل اور سولر انرجی کے منصوبوں پر سرمایہ کاری ہورہی ہے ۔

وزیر اعظم نواز شریف اس اقتصادی راہداری  کے منصوبے کو حتمی شکل دینے کے لیے  چین گئے توصرف پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف ان کے ہمراہ تھے ۔ میاں صاحب نے کے پی کے، بلوچستان اور سندھ کے وزیر اعلیٰ کو اپنے وفد میں شامل نہیں کیا، یوں ان صوبوں کی کیا پالیسی ہوگی ماہرین اس بارے میں کنفیوزن کا شکار ہیں۔ یہ معاملے 18ویں ترمیم کے نفاذ کے بعد صوبوں میں قائم ہونے والے توانائی منصوبوں کا انحصار اس صوبے کی پالیسی سے منسلک ہیں ۔

جب1985میں اس ملک میں غیر جماعتی انتخابات منعقد ہوئے تو ملک میں محمد خان جونیجو پنجاب میں میاں نواز شریف کے پی کے میں ارباب جہانگیر ، بلوچستان میں جام صاحب لسبیلہ اور سندھ میں جسٹس (ر) غوث علی شاہ ، وزراء اعلیٰ کے عہدوں پر فائز ہوئے ، اگرچہ  ان رہنمائوں کے منتخب ہوتے وقت وہ  کسی سیاسی جماعت کے رکن نہیں تھے مگر پھر سب مسلم لیگ کے رکن بن گئے ، اس دوران کالا باغ ڈیم کا منصوبہ اخبارات کی زینت بنا رہا ۔

وفاق اور چاروں صوبوں میں ایک جنگ شروع ہوگئی ، سندھ اور سابقہ صوبہ سرحد کی حکومتوں نے کالا باغ ڈیم کا منصوبہ پیش کردیا ، واپڈا اور پنجاب نے کالا باغ ڈیم کو توانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے لازمی قرار دے دیا ، وفاق اور ہر صوبے میں ایک ایسی بے معنی بحث شروع ہوئی کہ یہ بحث اخبارات کے فورم سے سیاسی جماعتوں کے اجلاسوں اور جلسے جلوسوں میں منتقل ہوگئی ، اس وقت وفاق اور صوبوں میں صاحب بصیرت شخصیت موجود نہیں تھی جو اس اہم منصوبے کے تمام پہلوئوں پرعقل و دانش کے مطابق بحث کو سمیٹ سکتی ۔

گزشتہ صدی کے 53سال اور اس صدی کے 8برسوں کے گزرنے کے بعد سیاستدانوں کا شعور انتہائی بلند ہوا ہے ، چین پاکستان اقتصادی راہ داری کا معاملہ اعلیٰ سطح پر بحث کا محور رہا ہے، ابھی تک اس معاملے کو جذباتی مفادات کے تابع نہیں کیا گیا ، میاں نواز شریف ، سینٹر حاصل بزنجو، آصف زرداری ، اسفند یار ولی ،حاصل بزنجو اور مولانا فضل الرحمن کے معاملہ کی حل کی کوششیں قابل قدر ہیں مگر اس منصوبے کو شفافیت کے عالمی معیار پر رکھا جائے اور ملک کے اعلیٰ مفاد میں فیصلہ کیا جائے ،یہ منصوبہ ترقی کی بنیاد بن سکتا ہے،اگر اس مسئلے پر سیاست کی گئی تو نہ صرف چین کا پاکستان پر سے اعتماد ختم ہوگا بلکہ غربت کے خاتمے اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کا سنہری موقع نکل جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔