دوسروں کو ہنسانے والا اداکار ’رنگیلا‘

شہباز علی خان  اتوار 24 مئ 2015
رنگیلا  کے مخصوص انداز نے انہیں اس راہ پر لا کھڑا کیا جس پر چلتے چلتے یہ شہنشاہ کامیڈین بن گئے۔فوٹو:فائل

رنگیلا کے مخصوص انداز نے انہیں اس راہ پر لا کھڑا کیا جس پر چلتے چلتے یہ شہنشاہ کامیڈین بن گئے۔فوٹو:فائل

اُس کا یہ کہنا تھا ’’جب مجھے فلم کا شوق پیدا ہوا تو میں نے ڈکشنری میں 200/300 نام دیکھے، تو مجھے ’’رنگیلا‘‘ زیادہ پسند آیا۔ پھر سوچا کہ اس نام کا کیا مطلب ہے؟ مطلب تھا دوسروں کو ہنسانے والا، بس پھر طے کرلیا کہ خود چاہے ہنسو یا نہ ہنسو لیکن دوسروں کو ضرور ہنساوں گا۔ 

مجھے باڈی بلڈنگ کا شوق تھا۔ مسٹر لاہور کے لئے تیاری شروع کی، تین سال تک خوب محنت کی اور جب شیشے میں دیکھا کہ ڈولے شولے بن گئے ہیں اور جب اندازہ ہوا کہ انشااللہ تعالی مسٹر لاہور بن جاوں گا تو میں نے اسٹیج پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ لیکن میں کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ تالیاں بھی بجا رہے تھے اور ہنس بھی رہے تھے تو میں نے سوچا کہ مجھ سے پہلے جو باڈی بلڈر اسٹیج پر آیا تھا اُس پر صرف تالیا ں بجی تھیں اور میرے آنے پر لوگ ہنس بھی رہے ہیں۔ پھر کیا تھا، میں غصے سے اسٹیج سے نکل آیا، پیچھے سے آوازیں آئیں ونس مور، ونس مور (ایک بار پھر دوبارہ)۔

میرے اُستاد نے مجھے کہا کہ لوگ بلا رہے ہیں، میں نے کہا کہ میں نہیں جاوں گا وہ تو ہنس رہے ہیں۔ استاد نے کہا شاید تمھاری باڈی میں کوئی ’’بنگی چبی‘‘ (بے ڈول) چیز ہوگی تب ہی وہ ہنس رہے ہیں۔ تم تو باڈی بلڈنگ کے لئے اسٹیج پر گئے تھے لیکن عوام تمہیں باڈی بلڈنگ والا کامیڈین سمجھ رہی ہے۔

یہی وہ وقت تھا جب میں نے سوچا کہ کیوں نہ دنیا کو ہنساوں، اِس سے خدا بھی خوش ہوگا کیونکہ اس دنیا میں غم بہت زیادہ ہیں اور خوشیاں بہت کم۔ پل بھر کے لئے کسی کو بھی ہنسا دیا جائے، اسکو خوش کردیا جائے، پرانے غم بھلا دئیے جائیں تو یہ بڑے ثواب کا کام ہوگا اور خدا بھی اس سے خوش ہوگا۔ کامیڈی یہ ہوتی ہے کہ اسکرین پر جو آدمی ہے اس کا چہرہ بے وقوفانہ لگے، دیکھنے والا یہ نہ سمجھے کہ ہمیں ہنسانے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ اس کا چہرہ ایسا ہو اور جو بات کرے خواہ وہ عقلمندی کی کیوں نہ کرے لیکن اس کے چہرے سے بے وقوفی ٹپک رہی ہو۔ پھر ہدایت کاری کے شعبہ میں قدم رکھا کبھی کام سیکھا نہیں بس قدرتی شوق تو کرتا گیا۔ میں اِس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ آپ کو اپنے اندر اعتماد پیدا کرنا چاہیے اور اسکے بعد آدمی جو ارادہ کرے گا کہ یہ میں کرکے رہونگا، پھر دنیا کا کوئی کام بھی نا ممکن نہیں ہے‘‘۔

فوٹو: فیس بک

اس لازاوال فنکار کا نام تو سعید خان تھا مگر اس نے رنگیلا کے نام سے شہرت پائی۔ 1 جنوری 1937ء میں پشاور کے شمال میں قبائلی علاقہ کرم ایجنسی کے شہر پارا چنار میں پیدا ہوئے۔ تعلیم سے زیادہ تن سازی اور فلموں میں کام کرنے کا شوق تھا اور یہی مقصد انہیں لاہور لے آیا۔ فلموں کے سائن بورڈ بنانے کا کام کرنے لگے۔ ایک سیٹ پر فلم کی شوٹنگ چل رہی تھی اور فلم کا کامیڈین غائب تھا بس رنگیلا کی قسمت نے اسے بطور کامیڈین لا کھڑا کیا اور ان کے مخصوص اسٹائل نے انہیں اس راہ پر لا کھڑا کیا جس پر چلتے چلتے یہ شہنشاہ کامیڈین بن گئے۔

1958ء میں فلم ’’جٹی‘‘ میں ایک چھوٹا سا کردار ملا۔ یہ دور نذر، ظریف، اور آصف جاہ جیسے مزاحیہ اداکاروں کا دور تھا مگر رنگیلا محنت اور ایک سمت پر یقین رکھنے کے ساتھ ساتھ پُرعزم ثابت ہوا۔ 1963ء تک کا دور آسان نہیں تھا۔ ’’گہرا داغ‘‘ میں اسے قدر بہتر کردار ملا مگر شہرت کی طرف اسے فلم ’’ہتھ جوڑی‘‘ نے دھکیلا جس میں اس نے اس وقت کے نامور مزاحیہ اداکار منور ظریف کے ساتھ مرکزی کردار ادا کیا۔

پاکستان کی پہلی پلا ٹینیم جوبلی فلم ’’جی دار‘‘ میں اس جوڑی نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے۔ فلم ’’منجی کتھے ڈاہواں‘‘ میں مرکزی کردار رنگیلا کا تھا جس کا ایک گانا ’’منجی کتھے ڈاہواں‘‘ بہت مشہور ہوا۔ ان کی فلموں میں ’’عجب خان، نوراں، گہرا داغ، دیا اور طوفان، رنگیلا، دوستی، دو تصویریں، ہیرہ، انٹرنیشنل گوریلے، عورت راج، دل اور دنیا، انسان اور گدھا، بازار حسن، میڈم باوری، کبڑا عاشق، رنگیلے جاسوس اور منجی کتھے ڈاہواں، ہتھ جوڑی، جگری یار، سنگدل، پگڑی سنبھال جٹا، دو بدن، ساجن رنگ رنگیلا، لاڈلہ پتر اور بیشمار فلموں کے ساتھ ساتھ بطور ہدایات کار، موسیقار، مصنف اور گائک کے بھی اپنا لوہا منوایا۔

ایک بار کسی نے اُن سے پوچھا کہ جب آپ نے گایا اور خوب گایا تو پھر گانے کی طرف توجہ کم کیوں کردی؟ تو انہوں نے بے ساختہ کہا کہ وہ کوئی تربیت یافتہ گائک تو ہے نہیں کوئی اچھی طرز بن جاتی ہے۔ میرے مطلب کی موسیقی ہو تو پھر گا لیتا ہوں ویسے میں نے 63 گانے گائے ہیں اور 3/4 کیسٹس بھی بکے ہیں مگر مجھے اپنے جو گانے پسند ہیں ان میں ’’دیا اور طوفان‘‘ کا ’’گا میرے منوا گاتے جا رے ۔۔۔ جانا ہے ہمکا دور‘‘ اور فلم زندگی نغمہ کا گانا ’’یہاں قدر کیا دل کی ہوگی ۔۔۔ یہ دنیا ہے شیشہ گروں کی‘‘ بہت پسند ہیں۔

وہ ایک بہترین مزاحیہ اداکار ہی نہیں ایک خوبصورت دل کا بھی مالک تھا۔ شروع میں اس وقت کے نامور اداکاروں نے اس کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا مگر پھر بعد میں رنگیلا نے انہیں اپنی فلموں میں مرکزی کردار دئیے۔ ایک نامور اداکار نے اُس سے شکوہ کیا کہ ہیرو تو بیشک وہ ہے لیکن میلہ رنگیلے تم لوٹ لیتے ہو اس پر رنگیلا نے کہا،

عوام تفریح مانگتے ہیں اور قدرت نے مجھے صرف عوام کی تفریح کے لئے پیدا کیا ہے۔

دنیا ایک اسٹیج ہی ہے اور اسے یہ چھوڑے 10 برس بیت گئے ہیں۔ آج کے ہی دن 24 مئی 2005 لاہور میں اس نے وفات پائی۔ رنگیلا کو فنی خدمات نے اسے ایک رہبر ستارے کا روپ دے کر تا قیامت روشن کر دیا ہے جو فن مزاح پر چلنے والے ادکاروں کے ساتھ ساتھ معیاری اور با مقصد تفریح پر یقین رکھنے والوں کو اپنے ساتھ جوڑے رکھے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

شہباز علی خان

شہباز علی خان

آپ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹر ہیں، اور فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔