ایگزیکٹ اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے انٹرپول اور ایف بی آئی سے مدد لی جائے گی، چوہدری نثار علی

ویب ڈیسک  ہفتہ 23 مئ 2015

اسلام آباد: وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارنے کہاہے کہ ایگزیکٹ اسکینڈل کی تحقیقات میں معاونت کے لیے انٹرپول اور ایف بی آئی سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ضرورت پڑنے پرقانونی معاونت کے لیے برطانیہ سے بھی رابطہ کیا جائے گا جب کہ تحقیقات کے دوران کسی دباؤ کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

ایگزیکٹ اسکینڈل سے متعلق ایف آئی اے کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں انھوں نے کہاکہ ایگزیکٹ کے بارے میں مکمل شفاف انکوائری کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ ایف آئی اے کے ٹائم فریم کے مطابق 90 روز میں کسی بھی کیس کی تحقیقات مکمل کی جاتی ہیں لیکن یہ اہم نوعیت کا کیس ہے اس پر آئندہ 7سے 10روز تک ابتدائی انکوائری ہو جائے گی۔ اس کیس کے حوالے سے بہت اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ابتدائی تحقیقات کی مدت کا تعین کیا جائے۔ ایگزیکٹ کے حوالے سے وزارت داخلہ آئندہ 2 روز میں امریکی ایف بی آئی کو قانونی مدد کے لیے خط لکھے گی اورجن یونیورسٹیز کاعلم ہوا ہے اس کی معلومات کے لیے انٹرپول سے بھی رابطہ کر رہے ہیں۔ تحقیقات میں میں بین الاقوامی اداروں سے مددلینا چاہتے ہیں۔ برطانوی پولیس اور عدالت سے بھی قانونی چارہ جوئی کے لیے مدد کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ جب ایگزیکٹ کی رجسٹریشن ہوئی تو اس وقت شوکت عزیز وزیراعظم تھے اورمشرف کی حکومت تھی۔ ان سے اس حوالے سے پوچھا جائے۔ اس کے بعد آنے والی پیپلزپارٹی یا نگراں حکومت سے پوچھیں۔ ایف آئی اے نیب نہیں جو کیس اس کو ریفر کیا جاتا ہے اسی پر کام کیا جاتا ہے۔ جس طرح ایگزیکٹ کی جانب سے مبینہ جعلی ڈگریوں کے اجراکے کیس میں تمام میڈیا متحد ہے اسی طرح پارلیمنٹ، حکومت، اپوزیشن اور دیگر اداروں میں موجود جعلی ڈگری ہولڈرز کے خلاف بھی میڈیا متحد ہوکر انھیں بے نقاب اور کرپشن کا پردہ چاک کرے۔ اب بھی پارلیمنٹ، حکومت، اپوزیشن اور دیگر اداروں میں جعلی ڈگری والے بیٹھے ہیں۔ مصدقہ اطلاعات کے بغیر ایگزیکٹ پر ایف آئی اے کے حوالے سے خبریں شائع نہ کی جائیں، اس سے تحقیقاتی کارروائی پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ میں میڈیا رپورٹس پرکئی احکام دیتا ہوں، آپ ہمارے آنکھ، کان ہیں اور ہم آپ سے رہنمائی لیتے ہیں۔ اگر ایگزیکٹ کے خلاف فوری انکوائری نہ ہوتی تو بہت سارے شواہد اور ثبوت مٹا دیے جاتے۔ ایگزیکٹ کے اکائونٹس کی تصدیق کی جا رہی ہے، کچھ اکائونٹس منجمد ہو گئے ہیں، تحقیقاتی ادارے یہ دیکھ رہے ہیں کہ جو لاکھوں ڈالر کی ٹرانزیکشن ہوئی یا جو بھجوائے گئے وہ کس طرف گئے۔ اگر ضروری ہوا تو اس میں منی لانڈرنگ کا کیس بھی ہو سکتا ہے۔

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ ایگزیکٹ کی جانب سے بہت سی ڈگریاں امریکیوں، برطانوی اور عرب شہریوں کو دی گئیں۔ 2007میں برطانیہ میں انھی کی ایک کمپنی کے خلاف کرمنالوجی کی ڈگری جعلی نکلنے پرمقدمہ بنا۔ ہمیں یہ کہا جا رہا ہے کہ حکومت سوئی ہوئی ہے تو کیا امریکا، برطانیہ، متحدہ عرب امارات والے سوئے ہوئے نہیں تھے۔ ہمارے نوٹس میں جونھی معاملہ آیا تو ہم نے اس پر کارروائی کی۔ ایگزیکٹ کی کلیئرنس کا کیس متعلقہ ایجنسیوں کو نہیں بھجوایا گیا بلکہ راتوں رات اس کو منظور کر لیا گیا جو میں نے منسوخ کر دیا تاہم 2سال سے حکم امتناعی چل رہا ہے، یہ کام وزارت داخلہ کا نہیں پیمرا کا ہے کہ اس حوالے سے عدالت کے پاس جائیں کہ اتنا لمبا حکم امتناعی کیسے آزاد عدلیہ میں چل سکتا ہے۔ ایگزیکٹ کے معاملے پربہت سے لوگ خود معلومات دینے کے لیے آگے آ رہے ہیں۔ ذمے داران کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے حوالے سے انھوںنے کہاکہ ہم ہرایک کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈال سکتے۔ اگر کسی کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج ہوتا ہے تو اس کا نام ڈالا جا سکتا ہے۔ اگرکوئی ملک سے بھاگے گا تواسے انٹرپول کے ذریعے واپس لایاجا سکتا ہے۔ اجلاس میں ایف آئی اے کی جانب سے ایف بی آر، پی ٹی اے اور پاکستان سافٹ ویئر ایسوسی ایشن کو بریفنگ دے دی گئی ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا عمران خان میری اسمبلی کی ڈیڑھ سال پرانی تقریر کا حوالہ دیتے ہیں، میں اس تقریر پر اب بھی قائم ہوں کہ ہرحلقے میں 60سے 70ہزار ووٹوں کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ ان ووٹوں کو جعلی قرار دینا بھی درست نہیں ہے۔ اگر سیاہی درست نہ ہو اور انگوٹھا لگانے والا صحیح طریقے سے انگوٹھا نہ لگائے تو ایسے ووٹوں کی نادرا کیسے تصدیق کر سکتا ہے۔ تحریک انصاف نے 58 رٹ پٹیشنز دائر کی تھیں جن میں سے 3کا فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں آنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سارا الیکشن فراڈ تھا۔ عمران خان اپنے حلقے میانوالی اور میرے حلقے بھی کھلوا لیں تو وہاں بھی 70ہزار ووٹوں کی تصدیق نہیں ہو سکے گی۔ نادرا کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ یہ رپورٹ دے کہ الیکشن درست ہوا یا نہیں ہوا کیونکہ نادرا کو ایسا کوئی مینڈیٹ نہیں دیا گیا۔ عمران خان نے چیئرمین نادرا سے ملنے کی درخواست کی جس پر فیصلہ کیا کہ انھیں ملاقات کی اجازت دی جائے تاہم دوسری بار وہ بغیر اطلاع کے ملاقات کے لیے چلے گئے۔ یہ طریقہ کارمناسب نہیں، قانون وانصاف سب کے لیے برابرہونا چاہیے۔ عمران خان اس مسئلے میں فریق ہیں۔

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ جس طرح اسپیکرقومی اسمبلی نہیں مل سکتے اسی طرح عمران خان بھی نہیں مل سکتے۔ عمران اداروں کے دفاترپر دھاوا بولنے کی پالیسی ترک کریں۔ جوڈیشل کمیشن کام کررہا ہے اسے کام کرنے دیاجائے۔ ہم نے اپنی حکومت دائوپر لگاکر جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا۔ جوڈیشل کمیشن کمرہ عدالت کے باہر آکر میڈیاپر عدالتیں لگانے کانوٹس لے۔ یہ بھی توہین عدالت ہے۔  گزشتہ دورحکومت میں 2ہزار بلیو پاسپورٹس جاری کیے گئے، ہم نے ان کو منسوخ کیا۔ اگرکوئی ان کی تفصیلات جاننا چاہتاہے توعدالت سے رجوع کرے، ہم اس کی تشہیر کردیں گے۔ انھوںنے اسامہ بن لادن کے حوالے سے چھپنے والی رپورٹ کومضحکہ خیزقرار دیتے ہوئے کہاکہ اس کی ہرطرف سے تردید ہوچکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔